• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
تیرا ساتھی میرا ساتھی جام ساقی جام ساقی، جام ساقی کو رہا کرو۔ ہاری لیڈر جام ساقی کی جان کو خطرہ یہ نعرے اور خبریں سننا میرے زمانہ طالبعلمی میں روزانہ کا کام تھا ،میں بھی سٹوڈنٹ پالیٹکس کا کیڑا پالے اسی قبیلے کے ایک خاندان سے منسلک تھا اور اپنی طلبہ تنظیم کا ماہانہ بلیٹن نکالتا تھا۔ جب یہ خبر ملی کہ جام ساقی کے مقدمے میں ایک ملزم نذیر عباسی کو فوجی ایجنسی نے تفتیش کے دوران تشدد کرکے شہید کر دیا ہے اور اب وہ جام ساقی کی جان کے درپے ہیں تو اس وقت جنرل ضیاء کے مارشل لا کے خلاف جدوجہد کرنے والی تمام پارٹیاں ،گروپس اور افراد تشویش میں آ گئے،جام ساقی اس وقت کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری تھے،ان پر مارشل لا حکومت نے ملک دشمنی اور بغارت جیسے مقدمات بنا رکھے تھے۔ جام ساقی کا جرم یہ تھا کہ وہ ملک میں مارشل لا کا خاتمہ چاہتے تھے اور وہ دولت کی غیر مساوی تقسیم کے خلاف تھے۔ جاگیرداری کا خاتمہ کرکے ہاریوں اور محنت کشوں کو زمینوں کا مالک بنانا چاہتے تھے۔ وہ طبقاتی جدوجہد کو اپنی سیاست کی بنیاد سمجھتے تھے۔ جام ساقی پہلے ہی ایک دوسری فوجی عدالت کی جانب سے دی جانے والی10سال قید بامشقت کاٹ رہے تھے اور وہ جنرل ضیاء دور کے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے پہلے ضمیر کے قیدی قرار دیئے گئے۔ جام ساقی کی بے گناہی کا واویلا کرنے والوں میں بے نظیر بھٹو، ولی خان، غوث بخش بزنجو، معراج محمد خان، صحافی، جمہوریت پسند دانشور اور سیاسی کارکن سبھی پیش پیش تھے۔ جام ساقی 1984میں قائم کئے گئے مقدمات سے بری تو ہو گئے لیکن انہیں 1986ء تک رہا نہیں کیا گیا۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے حقوق انسانی، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور عالمی میڈیا نے ساقی کیساتھ ہونے والی زیادتیوں پر آواز اٹھائی اور ساقی کو رہائی ملی، رہائی کے بعد جب جام ساقی پہلی بار لندن آئے تو میرا ان سے مختصر ملاقات اور خطاب سننے کا اتفاق ہوا۔ جس میں جام ساقی کہہ رہے تھے کہ ہم انقلابیوں کو اس لئے جمہوری عمل سے دور رکھا جاتا ہے کہ ہم صرف آتے ہیں، جاتے نہیں۔ ایسے لوگوں کا اسٹبلشمنٹ رسک نہیں لیتی۔ ساقی جنرل ضیاء کے زمانے کے ان سیاسی قیدیوں میں سے تھے جنہیں دوران قید و تفتیش شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جام ساقی جوکہ 5مارچ 2018کو راہی ملک عدم ہوگئے۔ ان کی ساری زندگی انقلابی جدوجہد سے عبارت ہے۔ انہوں نے 1966میں کمیونسٹ پارٹی جوائن کی لیکن کھلے محاذ پر نیشنل عوامی پارٹی میں سرگرم ہوئے۔ سندھی ہاری کمیٹی کے ساتھ مل کر ہاریوں کو منظم کرنا شروع کیا۔ اس زمانے میں سندھ یونیورسٹی کے طلبہ نے وائس چانسلر کی نامزدگی کے خلاف مظاہرے شروع کئے تو جام ساقی نے اس طلبہ تحریک کو صوبے بھر میں ایوب خان کے خلاف تحریک میں بدل دیا۔ 1968 ہی میں جام ساقی اور اس کے ساتھیوں نے سندھ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن SNSF بنائی خود زیر زمین رہے۔ انہیں ایک ملٹری کورٹ نے غیر حاضری میں ایک سال قید کی سزا سنا دی۔ لیکن جام ساقی نے خفیہ طریقہ کام اپنائے رکھا۔ جنرل ضیاء کے مارشل لا نے جام ساقی کو نئے دور میں داخل کیا۔ حکومت ہر حالت میں جام ساقی کو گرفتار کرنا چاہتی تھی تاکہ وہ ہاریوں اور مزدوروں کو منظم نہ کرسکیں۔ آخر دسمبر 1978میں ساقی گرفتار ہوئے 1988میں کمیونسٹ پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ ہوگئی گو جام ساقی کا گروپ تھا تو بڑا لیکن اس وقت تک ملک کا بایاں بازو بھی عمومی طور پر شدید اختلافات اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا تھا۔ بائیں بازو میں روس چین کے حوالے سے شدید گروہ بندی ہو چکی تھی۔ حتیٰ کہ دونوں ایک دوسرے کو اولین دشمن سمجھنے لگے تھے۔ جس کا اس وقت کی ڈکٹیٹر شپ نے خوب فائدہ اٹھایا۔ پاکستان میں بایاں بازو کمزور ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ روس کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد بائیں بازو میں کنفیوژن کی لہر دوڑ گئی اور ملک میں دائیں بازو کی سیاست مضبوط اور پرتشدد ہوتی گئی۔ افغان جنگ میں پاکستان کی مداخلت نے ملک کے اندر مذہبی انتہا پسندی کا طوفان برپا کر دیا۔ اندرون سندھ ڈاکوئوں کے کنٹرول میں جا چکا تھا۔ ایسے حالات میں جام ساقی کی سیاست میں اہم تبدیلی رونما ہوئی۔ 1993میں انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور بے نظیر بھٹو نے انہیں بانڈڈ لیبر کے ڈیپارٹمنٹ کا انچارج لگا دیا اور وہ ایڈوائزر بن گئے۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان جوائن کر لیا۔ اپنے آخری ایام میں جام ساقی نے صوفی ازم کا فلسفہ اپنا لیا۔ گوکہ یہ فلسفہ ان کی زندگی بھر کی کمیونسٹ انقلاب کی جدوجہد سے مختلف تھا۔ وہ کہتے تھے کہ صوفی ازم مذہب سے بالاتر ہے جو کہ دراصل انسانیت کا سبق سکھاتا ہے۔ جام ساقی کہا کرتے تھے کہ صوفیائے اکرام دراصل کمیونسٹ تحریک سے پہلے ہی کمیونزم کو بڑھاوا دے رہے تھے اور کمیونزم صوفی ازم کا تسلسل ہے کیونکہ دونوں عام آدمی کے حق کی بات کرتے ہیں اور عالمگیر محبت اور انسانیت کا پیغام دیتے ہیں۔ جام ساقی ساری عمر آمریت کے خلاف لڑتے رہے۔ آج دائیں بازو کو ریاستی پشت پناہی اور بائیں بازو کی اندرونی کمزوریوں کے پیش نظر پاکستان میں بائیں بازو کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور ملک میں صرف دائیں بازو کی سیاست بچی ہے۔ جو نہ تو زرعی اصلاحات کے حق میں ہے۔ نہ ہی ریاست کو مذہب سے آزاد کرانے کا سوچتی ہے۔ نہ ہی لوٹ مار کرنے والوں کو امیر تر بننے سے روکتی ہے۔ یہی بائیں بازو کے بکھرے گروپ اور افراد کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔
تازہ ترین