• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سعید مغل ایم بی ای …برمنگھم
بابائے قوم قائد اعظم کی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان معرض وجود میں آگیا مگر پچھلے 70 سال سے اقتدار پر جو لوگ براجمان رہے انہوں نے ملک میں تعمیر ، ترقی اور عوام کی خوشحالی کے بجائے عوام کا استحصال کیا، پاکستان سے پیسہ چوری کرکے بیرون ملک جائیدادیں بنائیں اور غریب ملک کے لیڈر ارب پتی بن گئے مگر عوام کے بنیادی مسائل حل کرنا تو دور کی بات ان کے لئے کبھی سوچا تک نہیں،ہمارے حکمراں اپنے عوام کو بنیادی ضرورت کی اشیا تک دینے میں ناکام رہے اس وجہ سےغریب ، غریب تر ہوگیا اور حکمران طبقہ اور عوامی استحصال ٹولے نے اندرون ملک اور بیرون ملک جائیدادیں خرید لیں۔ ورلڈ بینک اور دوسرے ممالک سے قرضے لئے اور ملک کو قرضوں کے بوجھ میں دبادیا اور یہ قرضے عوام اتار رہے ہیں،سیاسی جماعتیں کروڑوں روپے خرچ کرکے جلسے جلوس کررہی ہیں کیا یہ عوام کی خدمت ہے،ہر انتخابی مہم میں عوام سے جھوٹے وعدے کئے جاتے ہیں اور ووٹ لینے کے لئے تسلیاں دی جاتی ہیں لیکن کامیابی کے بعد عوام کو کوئی نہیں پوچھتا،آج بھی دیکھیں جلسوں  میں بے تحاشا پیسہ خرچ کیا جارہا ہے لیکن عوام پینے کے صاف پانی کے لئے بھی ترس رہے ہیں اور قوم کے چھوٹے چھوٹے بچے جن کی عمریں سکول جانے کی ہیں وہ کچرے کے ڈھیر سے خوراک حاصل کررہے ہیں تاکہ اپنا پیٹ بھر سکیں، کیا ہمارے حکمرانوں کو وہ نظرنہیں آتے ، پچھلے کئی ماہ سے پوری قوم دیکھ رہی ہے جلسوں کے دوران لوگوں نے جوتے پھینکنے شروع کر دیئے ہیں جو اخلاقی قدروں کے خلاف ہے اس قسم کی حرکتوں کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، لیکن اس کا دوسرا رخ یہی ہے کہ جس لیڈر کی عوام میں مقبولیت ختم ہوجائے تو عوام نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور ردعمل میں جلسوں اور تقریبات میں انڈے ، جوتے اور سیاہی پھینکتے ہیں ایسے لیڈروں کو خود سیاست سے کنارا کشی اختیارکرلینی چاہیے سیاست سے جس طرح جمہوری اور ترقی پسند ممالک میں بعض رہنمائوں کے خلاف جب الزام لگنے شروع ہوجاتے ہیں تو وہ خود ہی اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیتےہیں لیکن ہمارے حکمران اقتدار کے نشے میں اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ انسان کو انسان نہیں سمجھتے عدالت سے سزا بھی ہوجائے پھر بھی اپنے عہدوں سے مستعفی نہیں ہوتے ، اقتدار کی کرسی نہیں چھوڑتے اور چمٹے رہتے ہیں انہیں اس چیز کی پروا نہیں ہوتی کہ عوام کی ان کے بارے میں کیا رائے ہے۔جب کہ ایسے لوگوں کو قوم سے معافی مانگ کر گھر چلے جانا چاہیے تاکہ جوتوں اور انڈوں اور کالی سیاہی کی نوبت ہی نہ آئے آخر کارکنوں کو جلسوں ، جلوسوں اور اسٹیج پر جوتے پھینکنا کس نے سیکھایا ہے۔ ان لیڈروں نے کیسی تربیت دی ہے اور آج خود ایسی گھٹیا حرکتوں کا شکار ہورہے ہیں زبان میں ہمیشہ شائستگی ہونی چاہئے، نازیبا الفاظ سے گریز کرنا ضروری ہے۔
تازہ ترین