• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمعرات کے روز پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں قائد حزبِ اختلاف کے عہدے پر سینیٹر شیری رحمٰن کا انتخاب جہاں ایک تاریخی لمحہ تھا وہاں اس اہم ایوان میں پارٹیوں اور گروپوں کی عددی طاقت بھی بڑی حد تک واضح ہوگئی۔ جمعرات کے انتخاب کے نتیجے میں شیری رحمٰن کو ملنے والے 34ووٹوں اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار سینیٹر اعظم ہوتی کے19ووٹوں کے فرق کو بعض مبصرین جناب آصف علی زرداری کی حکمت عملی کی کامیابی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اگرچہ سینیٹر اعظم ہوتی نے سینیٹ میں اپوزیشن کے ایک علیحدہ گروپ کی تشکیل کا اعلان کیا ہے جس سے ایوان بالا میں اپوزیشن واضح طور پر منقسم نظر آرہی ہے تاہم سینیٹر شیری رحمٰن نے اپنے بیان کے ذریعے جہاں پی ٹی آئی کے اپنا امیدوار میدان میں لانے کے فیصلے کو اس پارٹی کا جمہوری حق تسلیم کیا وہاں پی ٹی آئی کو دعوت دی ہے کہ وہ قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ میں بھی پی پی پی کے ساتھ اپوزیشن کو توانا کرے تاکہ حکومت کو مؤثر طور پر جوابدہ بنایا جاسکے۔ جمہوری ممالک میں ایوان بالا کو وفاق کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اس لئے تمام صوبوں کو اس میں مساوی نمائندگی حاصل ہوتی ہے۔ اس بار بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر صادق سنجرانی کے چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کے بعد اس صوبے کے احساس محرومی کے خاتمے کے حوالے سے توقعات بڑھی ہیں جنہیں انسانی حقوق کی علمبردار شیری رحمٰن کے بطور اپوزیشن لیڈر منتخب ہونے سے ان توقعات کو تقویت ملی ہے۔ اب جبکہ مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ 15آزاد امیدوار باضابطہ طور پر اپنی پارٹی وابستگی کا اظہار کرچکے ہیں تو قائد ایوان کے انتخاب کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ ایوان بالا کے نئے عہدیداران و ارکان بھی سابق چیئرمین رضا ربانی اور ان کے ساتھی سینیٹروں کی قائم کردہ مثبت روایات کو آگے بڑھائیں گے۔ بلوچستان صدیوں تک وسطی ایشیا کو باقی دنیا سے ملانے کا ذریعہ رہا ہے۔ سی پیک کی تعمیر کے ساتھ اس کی اقتصادی اہمیت میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ سینیٹ کا مؤثر کردار اس کی سیاسی اہمیت کو مزید اجاگر کرے گا۔

تازہ ترین