• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قدیم کہاوت ہے کہ ’’جب حقائق بولتے ہیں تو دیوتا بھی خاموش رہتے ہیں‘‘لیکن حقائق وہ نہیںہوتے جن کا یکطرفہ دعویٰ کیاجاتاہے یاجن کے خواب دیکھے اور دکھائے جاتے ہیں۔حقائق تووہ ہیںجن کے ساتھ ہم زندگی بسرکرتے ہیں۔اگرصرف خواہشوںکے گھوڑے پرسوارہوکرہم لمبی اوراونچی اُڑانیںبھرسکتے توزمین، ہوائوں اور خلائوںپرہماری اجارہ داری ہوتی۔دن کی روشنی میںجیتی جاگتی زندگی کے حقائق بڑے تلخ اوربے رحم ہوتے ہیں۔جس طرح دونوں بازو پھیلا کر ہوائوں کو گرفتار نہیں کیاجاسکتا،اسی طرح یکساںصورتِ حال سے مختلف نتائج کے حصول کی توقع بھی نہیںرکھی جاسکتی۔
اگرملک یاریاست کی مجموعی صورتحال کاعمومی جائزہ درکار ہو تو ایک وسیع تناظرمیںاس کی نشاندہی کرنے والے عوامل صرف دو ہیں۔ ’خارجہ تعلقات اورداخلی صورتحال‘۔ بیرونی عوامل میں ہمسایوں اور خطے کے ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی اہمیت بنیادی ہے۔ اس کے بعددنیا کے بااثر،دولت مند اور طاقتور ملکوں کا نمبر آتا ہے جن میںسرفہرست یقیناََ امریکہ ہے جبکہ روس اور چین توخیراس خطے میںہیںجس میںہم آباد ہیںلیکن یورپی یونین،سکینڈے نیویاکے ممالک اوربرطانیہ کی حیثیت بھی ثانوی نہیں۔پھراسلامی ملکوںکی تنظیم ’اوآئی سی‘ کے رکن ممالک ہیںجنہیںہم محبت، احترام اورتعظیم سے مسلم اُمّہ کانام دیتے ہیں۔ اب، دنیا کے ان ممالک کے ساتھ فرداً فرداً ہمارے دو طرفہBILATERAL)تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟ ایک ملک،قوم اورعالمی برادری کے رکن کی حیثیت سے ہمارا امیج کیاہے؟اوردنیابھرمیںایک پاکستانی کی حیثیت سے ہماری پہچان کیابنتی ہے؟کیاان سوالوں کا جواب کسی لحاظ سے بھی ہمارے لئے باعث اطمینان اور قابل فخر ہے؟ شاید نہیں! کیوں؟ آئیے اس نہیں اور کیوں کا‘ خوابوں اور خواہشوں سے ہٹ کر‘ حقائق کی روشنی میں تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس تجزئیے کی ضرورت اس لئے بھی ناگزیرہے کہ ابھی حال ہی میںپاکستان کواپنی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بااثراورطاقتورممالک کے ایک انٹرنیشنل فورم پرہزیمت اورسبکی کاسامناکرناپڑا۔یہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کااجلاس تھا جس کے رکن ممالک کی تعداد 37ہے جن میں امریکہ، روس، چین، ہندوستان، فرانس، جرمنی، سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اورترکی نمایاں ہیں۔اس فورم کابنیادی مینڈیٹ توٹیکس کرائم کے خلاف عملی اقدامات کے لئے رکن ممالک کے مابین تعاون اوراشتراک کوموثربنانا اورایسے غیررکن ممالک پراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ریزولیوشن1267پرمکمل عملدرآمدکے لئے اپنااثرورسوخ استعمال کرناہے جہاں ابھی تک دہشت گردوںیاان کی تنظیموںکے مالی اثاثوں کی ضبطی، ان کے بینک اکائونٹس کی بندش اور منی چینجرز یا دوسرے مالیاتی انسٹرومنٹس کے ذریعے ہونے والی منی لانڈرنگ اوربھاری رقوم کی بیرون ملک ترسیل کی مکمل روک تھام کاعمل ابھی تک پایہ تکمیل کونہیںپہنچ سکا۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(FATF)کے حالیہ اجلاس میں امریکہ اورہندوستان نے پاکستان کے خلاف بھرپور لابنگ کی۔ جماعت الدعوۃ (جو کبھی لشکر طیبہ تھی) اور حافظ سعید اس لابنگ کے اصل ٹارگٹ تھے۔یقیناًیہ پاکستانی خارجہ پالیسی کی واضح ناکامی تھی کہ ایک بااثر اور طاقتورانٹرنیشنل فورم پرپاکستان کوسرزنش کی گئی اور اسے ’گرے واچ لسٹ‘ میں شامل کرتے ہوئے گویا تین مہینے کی مہلت دی گئی کہ اگراس دوران ٹیرر فنانسنگ کے حوالے سے مطلوبہ نتائج نہ دیئے جاسکے تو پاکستان کو دہشت گردی کا سہولت کار قرار دے کر سلامتی کونسل کی قرارداد 1267کے تحت معاشی پابندیوں کا سزاوار بھی ٹھہرایا جاسکتا ہے۔
یقیناً یہ ایک انتہائی ناخوشگوار واقعہ تھا۔ کوئی بھی حساس پاکستانی اسے سانحہ کہنے پر حق بجانب ہوگا، لیکن یہاں ملک کے اندر ایک دوسرے کو قصوروار ٹھہرانے کی’بلیم گیم((BLAME GAME‘شروع ہوگئی۔سازشی کہانیاں گھڑی جانے لگیں۔ اداروں کے حامی اور مخالفین، ہرنوعیت کے میڈیا میدانوں میں ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہوگئے۔ کچھ نے ساری ذمہ داری ’صاحبانِ کرامت‘پرانڈیل دی کہ بہت مدت سے ہماری خارجہ پالیسی کے اصل معمارتووہی ہیںاوربہت سوںنے اس سانحے کامکمل ذمے دارحکومتِ وقت کوٹھہرایااوراس الزام تراشی میںبھی وہ حکومت کے ساتھ کرپشن کالاحقہ استعمال کرنا نہیں بھولے۔ اگر پاور سینٹر، کسی بھی ملک،قوم یا ادارے میںایک سے زیادہ ہوں تویہ افسوسناک صورتحال پیداہوتی ہے اوریہ قطعی طور پر ہمارا اندرونی معاملہ ہے لیکن‘ اس روز جب پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کااجلاس جاری تھا تو دنیا بھر کے بااثراورطاقتورترین37ممالک چین، ترکی، اور سعودی عرب جیسے آزمائے ہوئے دوستوں کی موجودگی میں باڑ(FENCE)کے اُس پار تھے، اور دوسری طرف، الزامات کی زدمیں22کروڑکی آبادی اورایٹمی صلاحیت رکھنے والاملک پاکستان،تنہا۔
تنہائی کا یہ سنڈرومSYNDROMEہمیں اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہا ہے۔ ہمارے دوست ہمیں بتدریج چھوڑتے جا رہے ہیں۔ ہمارا انٹرنیشنل امیج اتنا گدلا گیا ہے کہ باہر نکلیں تو خود ہم سے ہماری صورت پہچانی نہیں جاتی۔ وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن دنیا کے لئے ہمارا امتیازی نشان ،ہماراHASHTAGدہشت گردی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
آج کے تجزیئے کے دوسرے نصف کا تعلق ہمارے داخلی منظر نامے سے ہے۔ اگر ملک کے اندر امن و امان کی صورت حال تسلی بخش ہے۔؟اگر ریاست کا تیسرا بنیادی ستون ایگزیکٹو یعنی حکومت اپنے احکامات اور ملکی قوانین پر عملدرآمد کی قدرت رکھتی ہے؟ اگر انصاف کا حصول فوری، سستا اور عام آدمی کی پہنچ سے باہر نہیں؟ اگر ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار نہیں؟ اگر عوام کو طرز حکومت اور اپنے نمائندوں کے انتخاب کا حق حاصل ہے؟ مکمل اور مسلسلـ‘کہ آئین کے مطابق طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں۔ اور آخر میں لیکن اہم ترین ملکی معیشت کی صورتحال ‘اگر ہماری معیشت کے شماریاتی گراف کا رجحان مثبت اور بلندی کی سمت رواں دواں ہے تو یقیناََ ہم اپنے ماضی اور حال پر فخر کر سکتے ہیں اور ہمارا مستقبل بھی شاندار ہے۔ آپ جواب دیجئے۔
اس پیراگراف کے ہر‘اگرـ‘ کے جواب میں آپ ’ہاں‘ کہتے ہیں تو آپ خوش قسمت ہیں، آپ کو مبارک ہو۔
مجھے پاکستان کی لاکھوں کروڑوں پر مبنی اس اکثریت کے بارے میں کچھ کہنا ہے۔ جسے لکھنے والے‘ جن کا حوالہ دینے والے اپنی آسانی کے لئے عوام کہہ دیتے ہیں ورنہ عوام۔۔۔ جانور نہیں ہوتے۔ یہاں جانور کا لفظ بھی شاید غلط استعمال ہوا ہے ورنہ پالتو جانوروں کے ناز نخرے بھی برداشت کئے جاتے ہیں۔ ان کی بھوک پیاس کا خیال رکھا جاتا ہے۔ انہیں سردگرم موسموں سے بچایا جاتا ہے۔وہ بیمارپڑ جائیں تو ان کے علاج کی مقدور بھر کوشش بھی ہوتی ہے جب کہ ہمارے عوام تو کبھی کبھار صرف ووٹ ڈالنے کے کام آتے ہیں اور کہیں ریفرنڈم آن پڑے تو ووٹ کی ضرورت نہیں پڑتی ، روبوٹ خوش اسلوبی سے کام سنبھال لیتے ہیں۔
ہم نے کشمیر کی آزادی کے لئے اپنا پورا ماضی اور حال داؤ پر لگا دیا لیکن ڈیرہ غازی خان ،کشمور ، کوٹ ڈیجی اور گوادر کے گندے جوہڑوں سے پانی پینے والوں کوآج تک صاف پانی مہیا نہیں کر سکے۔ ۔۔ اور ہم میں سے وہ، جو ترکی اور یونان کے ساحلوں سے پرے ،اپنی بھوک سے نڈھال بہنوں کے لئے رزق کی تلاش میں بپھرے ہوئے سمندروں کا لقمہ اس طرح بنتے ہیں کہ ان کے چہرے بھی اپنی شناخت بھول جاتے ہیں۔ آخری منزل کے ان نڈر سیاحوں کو بتایا کیوں نہیں جاتا کہ تبدیلی آنے والی ہے جب ہمارے اثاثے گیارہ ارب ڈالر سے کھربوں ڈالر تک پہنچ جائیںگے۔۔۔ یہ کیسے لوگ ہیں جن کی زندگی پر خالی اور بھرے ہوئے خزانوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
جب حقائق بولتے ہیں تو دیوتا بھی خاموش رہتے ہیں۔ اور حقائق وہ نہیں ہوتے جن کا یکطرفہ دعویٰ کیا جاتا ہے یا جن کے خواب دیکھے اور دکھائے جاتے ہیں۔ حقائق وہ ہوتے ہیں ،حقائق تووہ ہیںجن کے ساتھ ہم زندگی بسرکرتے ہیں۔

تازہ ترین