• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا شہباز شریف مسلم لیگ ن کی ٹرائیکا کا احیا کر سکتے ہیں؟

کراچی (تجزیہ :مظہر عباس) سابق وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان اچھے برے دنوں میں شریفوں کی ٹرائیکا کے تیسرے رکن سمجھے جاتے تھے، اب وہ اِس پوزیشن پر ہیں کہ یا تو انہیں پارٹی نکال دے یا پھر وہ خود پارٹی کو خیرباد کہہ دیں ،تاہم یہ چیز نہ وہ خود اور نہ ہی ان کے دوست اور پارٹی صدر شہباز شریف چاہیں گے ، لیکن کیا شہباز شریف اس ٹرائیکا کی تجدید کر پائیں گے؟ خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب چودھری نثار کو مریم نواز پر تنقید کے بعد نواز شریف بھی ناپسند کر نےلگے ہیں۔ ن لیگ میں ابھرتا ہوا منظرنامہ شہباز شریف کے لئے پریشان کن ہے، حالانکہ انہوں نے ابھی بطور پارٹی صدر اپنی اننگز شروع نہیں کی، شہباز شریف اور چودھری نثار دونوں ہی ایک زمانے میں سول ملٹری تعلقات کے لئے پل کا کردار ادا کرتے تھے اور تمام لیگی حکومتوں میں انہوں نے آرمی چیفس کی تعیناتی کے لئے مشاورت دی۔2013ء میں جب نواز شریف پرویز مشرف کے ٹرائل کے حامی تھے تو دونوں نے پارٹی کے ایک اجلاس میں مشرف کے ٹرائل کی مخالفت کی تھی، نواز شیرف کا خیال تھا کہ اگر سیاستدانوں کا ٹرائل ہو سکتا ہے تو کسی دوسرے کا کیوں نہیں ۔ تاہم اختلاف رائے کے باوجود نواز شریف چودھری نثار کی رائے کو اہمیت دیتے تھے۔ چودھری نثار نے 2014ء کے ’دھرنا بحران‘ کے خاتمہ میں بھی اہم کردار ادا کیا، وہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے درمیان ملاقات کے بھی گواہ ہیں۔ اس طرح نثار علی خان ہمیشہ نواز شریف کا اعتماد جیتنے میں کامیاب رہے اور پھر اپریل 2016ء میں پاناما لیکس کا ہنگامہ شروع ہو گیا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق ایک پارٹی اجلاس جس میں 10سے 12مرکزی رہنما شریک تھے ، نواز شریف نے استعفیٰ دینے کی پیشکش کی تاہم اس موقع پر چودھری نثار نے انہیں یہ کہہ کر مستعفی ہونے سے روک دیا کہ یہ استعفیٰ دینے کا درست وقت نہیں۔ انہوں نے نواز شریف کو سپریم کورٹ اور پھر جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے بھی روکا۔ انہیں یقین تھا کہ یہ سب نواز شریف کے خلاف ایک چال تھی جس کا وہ مختلف پارٹی رہنمائوں کی کمزور مشاورت کی وجہ سے نشانہ بن گئے۔ عمران خان نے جب وزیرستان میں فوجی آپریشن کی مخالفت کی تو جنرل راحیل شریف کے کہنے پر چودھری نثار ہی نواز شریف کو عمران خان کے گھر لے کر گئے تاکہ انہیں آپریشن کے حق میں قائل کیا جا سکے، ملاقات میں عمران کو کہا گیا کہ ان کی تنقید کی وجہ سے فوج کے مورال پر اثر پڑے گا، عمران خان نے نواز شریف کے نقطہ نظر سے اتفاق کیا اورکوئی سخت بیان جاری نہ کیا۔ سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے فیصلے کے بعد نواز شریف اورچودھری نثار کے تعلقات میں سردمہری پیدا ہونا شروع ہو ئی اور مریم نواز اور پرویز رشید کا کردار بتدریج بڑھنے لگا ، بعد ازاں پرویز رشید نے ڈان لیکس کے حوالے سے چودھری نثار کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ چودھری نثار کو ابھی تک نواز شریف کے کرپٹ نہ ہونے کا یقین ہے تاہم وہ نواز شریف کو کچھ حواریوں سے چوکنا رہنے کا کہتے رہتے ہیں ، یقیناً ان کا اشارہ کچھ وزراء کی طرف ہوتا ہے۔ شہباز اور نثار بہت قریب ہیں ، دونوں نے گزشتہ دنوں ایک ملاقات میں نواز شریف کے عدلیہ مخالف بیانیہ اور پارٹی کے اندرونی خلفشار سے متعلق بات چیت کی، دونوں کی ایک اور ملاقات شہباز شریف کی لندن سے واپسی کے بعد متوقع ہے۔ چودھری نثار شہباز شریف کی پارٹی صدارت کے حوالے سے زیادہ پرامید نہیں ،ان کا خیال ہے کہ شہباز شریف کو اپنی سیاسی حکمت عملی کے ساتھ معاملات چلانے کی آزادی نہیں ہوگی۔ شہباز شریف کے سامنے ایک ٹاسک موجود ہے ، حالانکہ انہیں اپنے بھائی کی موجودہ کمزور پوزیشن اور اپوزیشن خاص طور پر پی پی کی طرف سے مخالفت کا بھی احساس ہے اور ان کا خیال ہے کہ ایسی صورتحال میں پارٹی بالکل گوشہ نشینی میں جا سکتی ہے۔ شہباز شریف یہ بھی جانتے ہیں کہ مسلم لیگ ن تنہا بڑی سیاسی تحریک چلا سکتی ہے نہ ہی موجودہ صورتحال کو ختم کر سکتی ہے۔ان کا یقین ہے کہ عدلیہ مخالف بیانیہ کی بجائے نظم و ضبط اور ترقیاتی کام ن لیگ کو 2018 کے الیکشن میں فتحیاب کر واسکتے ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ اگر اندرونی اختلافات پر قابو نہ پایا گیا تو آئندہ انتخابات میں ن لیگ کو بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ شہباز شریف چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے اور قابل قبول عبوری حکومت قائم ہو جس پر اختلافات کم سے کم ہوں۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ الیکشن کمیشن ، اعلیٰ عدلیہ اورفوج آئندہ الیکشن کی بھرپور نگرانی کریں گے، یہ پہلے ہی طے کیا جا چکا ہے کہ الیکشن کے موقع پر پولنگ سٹیشنوں کے اندر فوج تعینات ہو گی اور الیکشن کمیشن بھی آزاد اور شفاف انتخاب یقینی بنائے گا۔ شہباز شریف80 کی دہائی کے بعد سے بہت سارے اتار چڑھا ئو دیکھ چکے ہیں تاہم یہ پہلی دفعہ ہے کہ انہیں نواز شریف اور چودھری نثار کے درمیان ’’مڈل مین‘‘ کا کردار ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ تاہم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے کچھ طنزیہ بیانات پر چودھری نثار کا ردعمل ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب شہباز شریف لندن میں ہیں۔ یہ صور تحا ل نواز اور نثار کے مابین تعلقات منقطع کر سکتی ہے جو کہ شہباز شریف نہیں چاہتے۔سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید جو کہ نئی لیگی ٹرائیکا کا حصہ بن رہے ہیں کا خیال ہے کہ چودھری نثار نے نواز شریف کے بیانیے کے خلاف اپوزیشن کی مدد کی۔ وہ یہ بات بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ نثار کو پارٹی کی طرف سے ٹکٹ دینے کی بھی مخالفت کریں گے۔ پرویز رشید کی چودھری نثار کی مخالفت کرنے کی چند وجوہات ہیں ، 12اکتوبر 1999 ء کو مشرف کے شب خون کے بعد وہ ان رہنمائوں میں سے تھے جن پر دوران حراست تشدد کیا گیا۔ مرکزی لیگی قیادت میں موجودہ کھچائو آئندہ انتخابات سے قبل مزید بڑھ سکتا ہے ، جبکہ اپریل کے آخری ہفتے یا مئی میں نوازشریف اور مریم نواز کے خلاف عدالتی فیصلہ آنے کی بھی توقع ہے۔ نوازشریف جانتے ہیں کہ سینٹ الیکشن کے بعد آئندہ انتخابات کے نتیجے میں ان کی پارلیمینٹ میں داخلے کی امیدیں ختم ہوچکی ہیں ، اب صرف ان کے لئے سب سے بڑا چیلنج اپنی سیاسی میراث کو مریم نواز کے ذریعے جاری رکھنا ہے۔

تازہ ترین