• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
     
وطن کی حفاظت

     سنیلہ خدیر۔کراچی

نینا اپنے کمرے میں بیٹھی کتاب پڑھنے میں مصروف تھی کہ اچانک اس کے ابو کمرے میں داخل ہوئے اور کہنے لگے، ’’بیٹھا، آج تمہارے لیے ایک خوشخبری ہے‘‘۔

’’واقعی! تو جلدی سنائیں ناں‘‘ نینا نے اپنے ابو کی بات مکمل ہوتے ہی خوشی سے کہا۔

’’ہم لوگ اگلے ہفتے کی فلائٹ سے لندن جا رہے ہیں، تم وہاں جا کر خوب پڑھنا لکھنا ترقی کرنا اور جب تم بڑی ہو جاو گی تو ہم پاکستان گھومنے آئیں گے‘‘، ابو نے کہا۔

’’لیکن ڈیڈی، بھلا اس میں کیا خوشخبری ہے کہ ہم اپنا ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں‘‘، نینا نے اداس ہوتے ہوئے کہا۔

نینا کے ابو نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا، ’’بیٹا تمہیں تو فخر کرنا چاہیے کہ تم نہ صرف ایک ترقی یافتہ ملک میں جارہی ہو بلکہ اپنی آئندہ کی زندگی بھی وہیں گزارو گی‘‘۔

’’کاش ڈیڈی آپ کو یہ خیال نہ آتا‘‘۔ نینا نے معصومیت سے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

’’نینا بیٹھا تم یہاں کا حال تو دیکھو ہر جگہ گندگی، کچرے کا ڈھیر، لوگ ڈسٹ بین میں کچرا پھینک نے کی بجائے گھروں سے باہر کچرا پھینکتے ہیں۔ ہر وقت ٹریفک جام اور گاڑیوں سے نکلتا دھواں جو ہماری صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے، پانی، بجلی، گیس کی آئے دن لوڈ شیڈنگ…‘‘ نینا کے ابو اسے ملک کے خراب حالات بتاتے ہوئے بیرون ملک جانے کے لیے رضا مند کر رہے تھے کہ نینا نے ان کی بات مکمل نہ ہونے دی اور کہنے لگی کہ، ’’ لیکن ڈیڈی ملک کو برباد کرنے میں ہمارا ہی کردار ہے ناں، یہ تو ہمیں چاہیے کہ ہم اسے صاف ستھرا رکھیں اور جہاں تک ہو سکے اس کی حفاظت کریں۔ اپنا گھر اگر گندا ہو تو اسے چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھانے سے بہتر ہے کہ اسے صاف کیا جائے‘‘۔

’’بس میں نے کہہ دیا ہے ناں تم اپنا سامان پیک کرنا شروع کر دو، ہم اگلے ہفتے جا رہے ہیں‘‘۔ نینا کے ابو اپنا فیصلہ سنا کر کمرے سے چلے گئے۔ جب وہ اپنے بستر پر جا کر لیٹے تو اپنی بیٹی کی کہی باتوں پر غور کرنے لگے، انہیں شرمندگی محسوس ہو رہی تھی، وہ سوچ رہے تھے کہ پتا نہیں میں اور میرے جیسے کتنے ایسے افراد ہیں جو باہر جانا چاہتے ہیں، پرائے ملک کی خدمت تو خوشی خوشی کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنے ملک کو سنوار نے کی کوشش کوئی نہیں کرتا۔ 

اگر ہم شروع سے ہی اپنے ملک کی خدمت کرتے تو آج ہمارا ملک بھی آسمان کی بلندیوں کو چھوتا، یہ بھی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جاتا۔ 

انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا، انہوں نے اسی وقت لندن جانے کا ارادہ ترک کر دیا، اگلی صبح اتوار تھا، انہیں معلوم تھا کہ نینا اتوار کو دیر تک سوتی ہے۔ اس لیے انہوں نے سوچا کہ اسے جگا کر لندن نہ جانے کی خوش خبری سنائیں۔ 

لیکن جیسے ہی وہ اس کے کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ نینا بوجھل دل کے ساتھ صبح سویرے سے ہی اپنا سامان پیک کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ ابو کو کمرے میں دیکھتے ہی نینا کہنے لگی کہ، ’’آپ نے کہا تھا اس لیے میں نے آج سے ہی پیکنک شروع کر دی ہے‘‘۔

نینا کے ابو نے اس کا سامان سوٹ کیس سے باہر نکالتے ہوئے کہا کہ، ’’ہم لندن نہیں جا رہے، ہم اپنے ملک میں ہی رہ کر اس کی خدمت کریں گے‘‘۔

یہ سن کر نینا اپنے ابو کے گلے لگ گئی۔ ابو نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا، میری بیٹی نے میری سوچ بدل دی، واقعی دوسرے ملک میں جا کر کام کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے ملک میں کام کریں۔ اسے سنواریں، سجائیں، ترقی دیں‘‘۔ اگر سب مل جل کر اس کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں تو نہ گندگی ہوگی نہ غربت۔                                  

تازہ ترین