• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ کا معرکہ: مسلم لیگ کی جیتی ہوئی ہار الذامات کا نیا پینڈورا بکس

سینیٹ کا معرکہ: مسلم لیگ کی جیتی ہوئی ہار الذامات کا نیا پینڈورا بکس

گرچہ سینیٹ کے انتخابات اورایوانِ بالاکے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کا مرحلہ تمام ہو چُکا ہے، لیکن اس دوران کُھلنے والے الزامات کے پینڈورا بکس سے ابھی تک الزامات سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے، جو شاید خاصے عرصے تک برقرار رہے۔ 

زمینی حقائق کے مطابق، اگلے تین برس تک صوبۂ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صادق سنجرانی سینیٹ کے چیئرمین اور صوبۂ سندھ کے سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین کی حیثیت سے فرائض نبھائیں گے۔ 

اپنے نام زد کردہ امیدواروں کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین منتخب ہونے پر کام یاب سیاسی جماعتیں تو خوش ہیں، لیکن معرکے میں شکست کھانے والے اپنی ناکامی کی ذمّے داری ’’مخفی کرداروں‘‘ پر عاید کر رہے ہیں اور اُن کا نام کُھل کر لینے کی ہمّت نہ ہونے کی وجہ سے ’’اَن دیکھے ہاتھوں‘‘ اور ’’نادیدہ قوّتوں‘‘ سمیت دیگر استعارے اور تشبیہات استعمال کررہے ہیں۔ صادق سنجرانی کے چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے پر ایوان میں موجود بلوچ قوم پرستوں کا غصّہ عروج پر ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ نو منتخب چیئرمین سینیٹ کا بلوچستان کی سیاست میں کبھی کوئی کردار رہا اور نہ ہی وہ پارلیمانی اُمور کا تجربہ رکھتے ہیں، لیکن اس کے باوجود انہیں اتنے اہم منصب پر فائز کروا دیا گیا۔ 

سینیٹ کا معرکہ: مسلم لیگ کی جیتی ہوئی ہار الذامات کا نیا پینڈورا بکس

بہ ظاہر یہ بات دُرست بھی دِکھائی دیتی ہے، کیوں کہ صادق سنجرانی نے بہ طور سینیٹر، ایوانِ بالا میں شاید ہی کسی اہم قومی یا صوبائی معاملے پر اظہارِ خیال کیا ہو۔ نیز، چیئرمین سینیٹ بننے سے قبل بعض سینیٹرز محض اُن کے نام ہی سے آشنا تھے، لیکن یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ سالہا سال سے بلوچستان کے محروم طبقات کے لیے آواز بلند کرنے والوں نے صوبے کی پس ماندگی دُور کرنے کے لیے کیا کیا اور بلوچستان کے ترقّیاتی فنڈز تو اعلیٰ حُکّام کے واٹر ٹینک سے برآمد ہوتے ہیں۔ 

پھر بلوچستان حکومت کی کابینہ کے ارکان اوردیگر وزرا ء اپنا بیش تر وقت تو کراچی، اسلام آباد اور دُبئی میں واقع اپنی پرُ تعیّش قیام گاہوں میں آرام اور اپنے کاروبار کی نگرانی کرتے گزارتے ہیں اور صرف ووٹ اور نوٹ لینے کے لیے ہی بلوچستان کے ساتھ ناانصافی اور محروم طبقات سے اپنی ہم دردی کے قصّے بیان کرتے ہیں۔ تاہم، اب دیکھنا یہ ہو گا کہ ایک مختلف انداز سے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے منصب پر فائز ہونے والے، صادق سنجرانی بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں۔

خیال رہے کہ سینیٹ کے سابق چیئرمین، میاں رضا ربّانی اور سابق ڈپٹی چیئرمین، مولانا عبدالغفور حیدری دونوں ہی غیر کاروباری سیاست دان اور سینئر ارکانِ پارلیمان تھے۔ رضا ربّانی ایک قانون دان اور مولانا عبدالغفور حیدری مذہبی راہ نما کا حوالہ رکھتے ہیں، لیکن اسے ممکنہ اتفاق ہی کہہ لیجیے کہ ان دونوں کے جانشین ممتاز و متموّل کاروباری افراد ہیں۔ چیئرمین سینیٹ، صادق سنجرانی کا پارلیمانی سیاست تو کُجا، مُلکی سیاست سے بھی کبھی کوئی واسطہ، تعلق نہیں رہا۔ البتہ اُن کے والد، خان محمد آصف سنجرانی شاید آج بھی ضلع کائونسل، چاغی کے رُکن ہیں۔ 

البتہ صادق سنجرانی کو یہ اعزاز ضرور حاصل ہوا کہ وہ محض 40برس کی عُمر میں چیئرمین سینیٹ بن گئے۔ اس اعلیٰ ترین منصب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب صدرِ مملکت اپنی مصروفیات کے باعث بیرونِ مُلک ہوتے ہیں، تو چیئرمین سینیٹ ہی قائم مقام صدر کے طور پر فرائض انجام دیتا ہے۔ 

گرچہ صدرِ مملکت کے لیے عُمر کی کم از کم حد 45سال ہے، لیکن قائم مقام صدر کا اس شرط پر پورا اُترنا اس لیے لازمی نہیں ہے کہ وہ عارضی طور پر اس منصب پر براجمان ہوتا ہے۔ صادق سنجرانی بنیادی طور پر ’’لو پروفائل‘‘ شخصیت ہیں اور میڈیا اور تقریبات سے دُور رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بات بہت کم افراد کے علم میں ہے کہ وہ میاں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے وزارتِ عُظمیٰ کے ادوار میں اُن کے کو آرڈینیٹر رہے۔ تاہم، ان کی ذمّے داریوں کی نوعیت سے چند افراد ہی واقفیت رکھتے ہیں۔ 

صادق سنجرانی کا کاروبار صرف بلوچستان ہی تک محدود نہیں، بلکہ دُبئی سمیت کئی خلیجی ریاستوں تک پھیلا ہوا ہے اور اُن کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ اُنہیں چیئرمین سینیٹ کے لیے کیوں کر نام زَد کیا گیا؟ ایک اطلاع کے مطابق،پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر، آصف علی زرداری انہیں ذاتی طور پر جانتے ہیں اور ان کی صلاحیتوںکے بھی معترف ہیں اور انہوں نے ہی بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ، عبدالقدّوس بزنجو کی وساطت سے ان کا نام چیئرمین سینیٹ کے امیدوار کے لیے تجویز کروایا۔ 

واقفانِ حال کا دعویٰ ہے کہ درحقیقت چیئرمین سینیٹ، صادق سنجرانی،آصف علی زرداری کے دوست بھی ہیں اور انہیں یوسف رضا گیلانی کا کو ارڈینیٹر بھی سابق صدر ہی نے مقرّر کروایا تھا، جب کہ پاکستان مسلم لیگ (نون) کے رہنمائوں کی سرگوشی یہ ہے کہ یہ تجویز ’’راول پنڈی‘‘ سے آئی۔ تاہم، سینیٹر مشاہد اللہ خان یہ آواز بلند کرتے ہیں کہ اُن کے ہم خیال مسلم لیگی بھی ہیں۔ 

سینیٹ کا معرکہ: مسلم لیگ کی جیتی ہوئی ہار الذامات کا نیا پینڈورا بکس

اس بارے میں حقائق چاہے کچھ بھی ہوں،مگر اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ صادق سنجرانی سابقہ حکومتوں میں سرکاری سطح پر کام کرنے کے باعث انتظامی تجربہ ضرور رکھتے ہیں۔ وہ اس وقت بھی بہ حیثیتِ چیف ایگزیکٹیو، پاکستان ٹیسٹنگ سروس، سنجرانی مائننگ کمپنی اور بہ طور ڈائریکٹر ایچ آر، نیشنل انڈسٹریل پارکس ڈیولپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی سے وابستہ ہیں۔ 

انہوں نے 2009ء میں پیپلز پارٹی کے دَورِ حکومت میں وزیرِ اعظم سیکریٹریٹ میں چیف کو آرڈینیٹر اور مُشیر کے علاوہ شکایات سیل میں بھی ذمّے داریاں انجام دیں۔ نیز، اُن کا یہ حوالہ بھی انہیں ممتاز بناتا ہے کہ وہ 14اپریل 1978ءکو چاغی میں پیدا ہوئے۔ 

اس علاقے کو پاکستان کے ایٹمی دھماکوں اور سیندک پراجیکٹ کی وجہ سے عالمی شُہرت حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ یہ علاقہ قیمتی معدنیات سے بھی مالا مال ہے۔ اب جہاں تک ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، سلیم مانڈوی والا کا تعلق ہے، تو چیئرمین سینیٹ کی طرح یہ بھی کراچی کی ایک ممتاز کاروباری شخصیت ہیں۔ انہوں نے 2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد سیاست کا آغاز کیا۔ 

معاشی اُمور کا تجربہ رکھنے کی وجہ سے پہلے انہیں بورڈ آف انویسٹمنٹ کا چیئرمین مقرّر کیا گیا۔ 2012ء میں سندھ سے جنرل نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے اور بعد ازاں وزیرِ مملکت برائے خزانہ بھی رہے۔ 

سلیم مانڈوی والا کراچی میں رئیل اسٹیٹ کے وسیع کاروبار سے وابستہ ہیں اور اطلاعات کے مطابق، سینما گھر کے مالک ہونے کے علاوہ ان کے دیگر کاروبار بھی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کی پاکستان پیپلز پارٹی اور پارٹی کے شریک چیئرمین، آصف علی زرداری سے کتنی دیرینہ وابستگی ہے۔

تاہم، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ صورتِ حال میں سیاسی و پارلیمانی تجربے سے عاری چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو مطلوبہ تقاضوں کے مطابق چلا پائیں گے، کیوں کہ اس وقت پاکستان مسلم لیگ (نون) اور اس کے حکومتی اتحادی دِل شکستہ ہی نہیں، بلکہ اشتعال میں بھی ہیں اور سینیٹر مشاہد اللہ خان اور سینیٹر پرویز رشید جیسے مسلم لیگ (نون) کے دوسرے جارح مزاج ارکانِ سینیٹ اپنی بھڑاس ایوانِ بالا میں بھی نکالیں گے۔

اس حوالے سے مسلم لیگ (نون) کی حقیقی اتحادی جماعت، نیشنل پارٹی کے سربراہ، حاصل بزنجو کی جانب سے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے موقعے پر سینیٹ میں کی گئی جذباتی تقریر کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ 

نیز، صادق سنجرانی، میاں رضا ربّانی کی جگہ سینیٹ کے چیئرمین بنے ہیں، جنہیں پورے ایوان کی حمایت ہی نہیں، بلکہ اعتماد اور احترام بھی حاصل تھا اور اُنہیں دوبارہ چیئرمین بنانے کی حمایت اور مطالبہ پیپلز پارٹی کے سوا، جس کے وہ رُکن ہیں ، کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں نے کیا تھا۔ سابق چیئرمین سینیٹ کی عزّت و احترام کا یہ عالم ہے کہ ارکانِ سینیٹ نہ صرف اُن کے سخت تبصرے بھی خوش دِلی سے سُنتے، بلکہ اُن کی ہدایات پر عمل بھی کرتے تھے۔ پھر میاں رضا ربّانی نے بہ طور چیئرمین، اپنے تین سالہ دَور میں سینیٹ کو واقعتاً ایوانِ بالا بنانے کے لیے جو اقدامات کیے، وہ مُلک کی پارلیمانی تاریخ کا حصّہ بن چُکے ہیں۔ 

کئی دیگر اقدامات کے علاوہ گزشتہ تین برسوں میں سینیٹ ہی وہ ادارہ تھا کہ جس نے نہ صرف اہم ترین معاملات پر قانونی سازی کی، بلکہ حکومت پر ایک با مقصد اور نتیجہ خیز ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ رکھنے کے لیے انتہائی مٔوثر کردار بھی ادا کیا، جو قومی اسمبلی میں کبھی نظر نہیں آیا۔ 

علاوہ ازیں، 2015ء سے 2018ء تک سینیٹ میں خود احتسابی اور شفّافیت جیسی تبدیلی دیکھنے میں آئی اور سینیٹ سیکریٹریٹ کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا، جب کہ وزراء اور ارکان کی حاضری یقینی بنانے کے لیے نئے قواعد و ضوابط وضع کیے گئے اور قائمہ کمیٹیوں کے کردار کو جان دار بنایا گیا۔ 

تاہم، یہ بھی دُرست ہے کہ سانحۂ آرمی پبلک اسکول کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کی گئی 21ویں آئینی ترمیم کی، جس کی بہ دولت مُلک میں فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی گئی تھی ، حمایت میں رضا ربّانی نے بھی ووٹ دیا تھا، مگر اس موقعے پر انہوں نے آب دِیدہ ہو کر ایوان میں ندامت کا اظہار بھی کیا تھا۔

چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے قبل حکومت کو اپنے نام زد کردہ امیدواروں کی جیت کا ایک سو فی صد یقین تھا اور حکومتی ارکان الیکشن سے ایک روز پہلے تک اس حوالے سے انتہائی پُر اعتماد دکھائی دے رہے تھے، جب کہ اطلاعات و نشریات کی وزیرِ مملکت، مریم اورنگ زیب نے تو میڈیا کے سامنے اپنے امیدواروں کو جیت کی پیشگی مبارک بادیں بھی دینا شروع کر دی تھیں۔ حکومت کی خود اعتمادی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے انتخاب کے فوراً بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بھی طلب کر لیا تھا، جو انتہائی دِل چسپ، معنی خیز اور کسی حد تک پُرخطر فیصلہ بھی تھا۔ 

دراصل، سابق وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف نے اپنے رفقاء کو اس بات پر آمادہ کر رکھا تھا کہ وہ سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد فوری طور پر ایسی ترامیم لائیں گے کہ جن کی رُو سے پارلیمنٹ کو اعلیٰ ججز سے لے کر عسکری شُعبے میں بھی ترقّیوں اور تبادلوں کا استحقاق ہو گا۔ اس حکمتِ عملی پر گزشتہ کئی ہفتوں سے مشاورت جاری تھی۔ 

ہر چند کہ بعض مسلم لیگی ارکانِ پارلیمنٹ کو اس پر تحفّظات بھی تھے، لیکن میاں نواز شریف کے اُن رفقاء کی، جو جلسوں میں پیش کیے جانے والے بیانیے کے حامی ہی نہیں، بلکہ خالق بھی تھے اور جن میں ان کی صاحب زادی، مریم نواز بھی پیش پیش تھیں، خواہش تھی کہ کسی بھی طرح سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے اور اپنی مرضی کا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین منتخب کروانے کے بعد آئینی ترامیم کے ذریعے اپنے عزائم اور ارادوں کو آئینی تحفّظ دیا جائے، لیکن ان عزائم اور ارادوں سے سے باخبر حلقوں نے بھی، جن کے پاس کسی بھی معاملے پر ایک سے زاید آپشنز ہوتے ہیں، متبادل حکمتِ عملی وضع کر رکھی تھی۔ 

یہی وجہ ہے کہ نتائج سامنے آنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (نون)اور اس کی اتحادی جماعتوں کے زعما ءحیران رہ گئے کہ آخری لمحوں میں آخر ایسا کیا ہوا کہ ماسوائے سینیٹر اسحٰق ڈار کے ووٹ کے، تمام ووٹ ڈالنے اور ایوان میں عددی اعتبار سے برتری حاصل ہونے کے باوجودانہیںشکست ہو گئی۔ 

نتیجتاً مسلم لیگ (نون) اور اُس کے اتحادی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کیا پولنگ کے دوران اُن کے اپنے ارکان نے غدّاری کی؟ کیا اتحادی دغا دے گئے یا پھر کوئی اور وجہ اس شکست کا باعث بنی؟ 

گو کہ پاکستان مسلم لیگ (نون) نے اس حوالے سے تحقیقات کروانے کا عزم ظاہر کیا ہے، لیکن شاید یہ تحقیقات بے سود ہی ثابت ہوں، کیوں کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے پورے عمل میں شامل رہنے والے سابق وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف کے قابلِ اعتماد رفقاء نے اس حوالے سے اپنی قیادت کو جو رپورٹ شکست کے فوراً پیش کی تھی، اس کے بعض حصّے کچھ اس طرح ہیں کہ حکومت کو اپنی پارٹی کے دو سنیٹرز سمیت کُل10 سینیٹرز نے دھوکا دیا۔ 

انتخابات سے قبل یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہوم ورک کے بعد حُکم راں جماعت 57ووٹ لے کر سینیٹ میں اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین لائے گی۔ سینیٹ میں 5جماعتوں پر مشتمل حُکم راں سیاسی اتحاد کےمجموعی طور پر 47ارکان ہیں، جن میں سے 32کا تعلق پاکستان مسلم لیگ (نون) سے ہے، جب کہ اتحادیوں میں 5سینیٹرز پختون خوا ملّی عوامی پارٹی، 5ہی نیشنل پارٹی، 4جمعیت علمائے اسلام(فے)، جب کہ ایک مسلم لیگ (فے) کا ہے۔ 

اپنے امیدوار (راجہ محمد ظفر الحق) کا نام تاخیر سے سامنے لانے پر مسلم لیگ (نون) کے خلاف یہ پراپیگنڈا کیا گیا کہ جمعیت علمائے اسلام (فے) کے4سینیٹرز نے اتحادی ہونے اور یقین دہانی کروانے کے باوجود مسلم لیگ (نون) کو ووٹ نہیں دیے، جب کہ حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والی سینیٹر کلثوم پروین نے بھی اپوزیشن اتحاد کو ووٹ دیا (جس کا بعد میں انہوں نے ایوان میں بہ بانگ دہل اعتراف بھی کر لیا)۔ 

اپنے ذرایع سے حاصل کردہ اس رپورٹ سے متعلق بعض حقائق بعد میں سامنے آئے اور یہ بالخصوص مولانا فضل الرحمٰن کے حوالے سے ظاہر کیے گئے خدشات سے تعلق رکھتے ہیں۔ 

یہ دُرست ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن حکومتی جماعت کے اتحادی ہیں اور میاں نواز شریف نے بعض رفقا ءکے تحفّظات اور خدشات کے باوجود ان سے اعتماد کا رشتہ قائم رکھا اور مولانا کی خواہش پر انہیں تمام مراعات کے ساتھ بہ دستور پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بھی برقرار رکھا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آصف علی زرداری سے مولانا کی دوستی اور زرداری کی مولانا سے ’’نیازمندی‘‘ دیرینہ ہے۔ 

زرداری ہی کے کہنے پر محترمہ بے نظیر بُھٹّو نے انہیں قومی اسمبلی کی خارجہ اُمور کی کمیٹی کا چیئرمین بنایا تھا۔ کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ اور مولانا کی فرمائشوں پر کیے جانے والے فیصلوں کی فہرست اور تفصیلات بھی خاصی طویل ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ یک طرفہ نہیں۔ 

آصف علی زرداری کو جب بھی مولانا فضل الرحمٰن کے سیاسی اثر و رسوخ کی ضرورت محسوس ہوئی، وہ دِل و جان سے حاضر ہوئے۔ حال ہی میں زرداری کی خواہش پر بلوچستان میں جو حکومت تبدیل ہوئی، اس سلسلے میں بھی انہیں مولانا کی حمایت حاصل تھی۔ 

سینیٹ کا معرکہ: مسلم لیگ کی جیتی ہوئی ہار الذامات کا نیا پینڈورا بکس

یہی وجہ ہے کہ سینیٹ میں حکومت کی شکست کے فوراً بعد مولانا فضل الرحمٰن نے سابق وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف سے ملاقات کی اور انہیں اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ’’ سینیٹ میں جے یو آئی (فے) کے ارکان کی جانب سے حکومت کے امیدواروں کو ووٹ نہ دیے جانے کے بارے میں میڈیا میں آنے والی اطلاعات غلط ہیں اور آپ کے بعض رفقا ءبھی آپ کو میرے بارے میں گُم راہ کرنے میں مصروف ہیں۔‘‘ اس موقعے پر مولانا نے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے اپنے نائب، مولانا عبدالغفور حیدری کو بھی ہنگامی طور پر طلب کر کے سابق وزیرِ اعظم کے سامنے پیش کیا۔ 

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ میاں نواز شریف کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن ڈپٹی چیئرمین کے لیے اپنا امیدوار نام زد کروانا چاہتے تھے، لیکن ایسا ممکن نہ ہونے کی وجہ سے جے یو آئی (فے) کے ارکان نے حکومتی جماعت کے خلاف ووٹ ڈالے۔

نو منتخب خواتین اراکینِ سینیٹ …’’ایوانِ بالا‘‘کے طبقۂ اشرافیہ کے زیرِ اثر ہونے کا تاثر ملتا ہے

قومی اسمبلی کی خواتین اراکین کی، ایوانِ زیریں کی کارروائی میں دِل چسپی اور کارکردگی کی صورتِ حال خاصی افسوس ناک ہے، بالخصوص اُن خواتین کی، جو مخصوص نشستوں پر آئی ہیں۔ تاہم، اس صورتِ حال کا اطلاق تمام خواتین پر نہیں ہوتا اور حکومتی اور اپوزیشن بینچزمیں ایسی ارکان بھی موجود ہیں کہ جو ایوان میں اپنی جماعت کے مٔؤقف کا اظہار اور دِفاع بڑی ذہانت، عُمدگی اور جامع طریقے سے کرتی ہیں اور اپنے منتخب کردہ موضوع یا معاملے پر مکمل ’’ہوم ورک‘‘ کر کے ایوان میں آتی ہیں۔ 

تاہم، اب تک اس حوالے سے سینیٹ میں صورتِ حال قدرے بہتر تھی، لیکن اس مرتبہ ایوانِ بالا میں آنے والی خواتین سے اس کے شایانِ شان کارکردگی کی امید کم ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں چاروں صوبوں سے مخصوص نشستوں پر 8خواتین منتخب ہوئی ہیں۔ 

ان میں سے بعض جہاں پہلی مرتبہ سینیٹ کی رُکن بنی ہیں، وہیں ماسوائے ایک کے، باقی سب کا تعلق بڑے سیاسی گھرانوں یا بڑی کاروباری شخصیات سے ہے، جس کے پیشِ نظر خواتین کے حوالے سے’’ ایوان بالا‘‘ کے طبقۂ اشرافیہ یا امرا کے زیرِاثر ہونے کا تاثر ملتا ہے۔

سعدیہ عبّاسی:پنجاب کی خواتین کے لیے مخصوص نشست سے آزاد امیدوار کے طور پر منتخب ہونے والی بیرسٹر سعدیہ خاقان عبّاسی پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم، شاہد خاقان عبّاسی کی ہم شیرہ ہیں۔ سعدیہ عباسی اس سے پہلے 2003ء سے 2009ء تک مسلم لیگ (نون) کے ٹکٹ پر سینیٹر رہ چُکی ہیں۔ 

تاہم، سینیٹ میں اپنی رُکنیت کی مُدت ختم ہونے سے چند روز پہلے ہی انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا، جس کا سبب انہیں مسلم لیگ (نون) کی جانب سے ٹکٹ نہ ملنا بتایا جاتا ہے۔اس کے بعد2011ءمیں انہوں نے پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی ۔سعدیہ عبّاسی کا ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ سابق وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف جب اٹک قلعے میں اسیر تھے، تو اُن کا مقدّمہ لڑنے والے وکلاء کے پینل میں وہ بھی شامل تھیں۔

نزہت صادق :پنجاب سے خواتین کی مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی دوسری سینیٹر، نزہت صادق اس سے پہلے 2012ء سے 2018ء تک پاکستان مسلم لیگ (نون) کے ٹکٹ پر ایوانِ بالا کی رُکن رہیں، جب کہ اس سے قبل وہ خواتین کی مخصوص نشست ہی پر قومی اسمبلی کی رُکن تھیں۔ 

تاہم 2012ء میں سینیٹر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق، نزہت صادق 09-2007ء کے دوران قومی اسمبلی کی امیر ترین خاتون رُکن تھیں۔

ڈاکٹر مہر تاج روغانی :ان کا تعلق خیبر پختون خوا کے علاقے، مردان سے ہے۔ وہ پہلے خیبر پختون خوا اسمبلی کی پہلی خاتون ڈپٹی اسپیکر بنیں اور اب پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر سینیٹ کی رُکن منتخب ہوئی ہیں۔ 

ڈاکٹر مہر تاج طب کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد خیبر پختون خوا کے محکمۂ صحت سے منسلک رہیں اور پشاور کے لیڈی ریڈنگ ٹیچنگ اسپتال، خیبر میڈیکل کالج اور خیبر ٹیچنگ اسپتال میں تعیّنات رہیں۔ وہ2000 ء میں پرویز مشرّف کے دَورِ حکومت میں صوبائی وزیرِ صحت، جب کہ 2007ء میں نگراں وزیرِ صحت رہیں۔ انہوں نے 2007 ء میں باضابطہ طور پر پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔

عابدہ عظیم دوتانی:ان کا تعلق پختون خوا ملّی عوامی پارٹی سے ہے۔ عابدہ عظیم سیاسی پس منظر رکھتی ہیں کہ ان کے والد بھی اسی پارٹی کے مرکزی جنرل سیکریٹری رہے ہیں، جب کہ ان کے شوہر عظیم دوتانی بھی اسی پارٹی سے منسلک ہیں۔ ان کے علاوہ پختون خوا ملّی عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والی گل بشریٰ بھی سینیٹ کی رُکن ہیں۔

روبینہ خالد:پاکستان پیپلز پارٹی کی روبینہ خالد کا تعلق خیبر پختون خوا کے ایک سیاسی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد سیّد ظفر علی شاہ (مرحوم) اور بھائی سید ظاہر شاہ کا خیبرپختون خوا کی سیاست میں اہم کردار رہا۔ 

روبینہ خالد 2012 ء میں بھی سینیٹ کی رُکن منتخب ہوئی تھیں ۔ وہ مختلف موضوعات پر کُھل کر بات کرنے کے حوالے سے شہرت رکھتی ہیں۔ وہ سابق اداکار و ہدایت کار، عبدالرئوف خالد کی بیوہ ہیں۔

قراۃ العین مَری: صوبۂ سندھ کے ایک بڑے سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے والی قراۃ العین مَری پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں اور پہلی بار ایوانِ بالا کی رُکن منتخب ہوئی ہیں،جب کہ ان کی بہن شازیہ مری اس وقت قومی اسمبلی کی سرگرم رُکن ہیں۔

کرشنا کماری کوہلی:نئی خواتین اراکینِ سینیٹ کی فہرست میں شامل کرشنا کوہلی وہ واحد خاتون ہیں کہ جن کا تعلق کسی با اثر سیاسی گھرانے سے نہیں، بلکہ تھر کے ضلعے، ننگر پارکر کے غریب گھرانے سے ہے۔ ان کے والد، جگنو کوہلی ایک زمیں دار کے ہاں مزدوری کرتے تھے ۔کرشنا کوہلی، ’’کیشو بائی‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ 

ان کی شادی 16سال کی عُمر میں کر دی گئی تھی، شادی کے بعد انہوں نے سندھ یونی ورسٹی سے سوشیالوجی میں ماسٹرز کیا اور پچھلے 20برس سے تھر میں خواتین کی تعلیم اور صحت کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چُوں کہ وہ جنرل سیٹ پر منتخب ہوئی ہیں، اس لیے وہ زیادہ مٔوثر انداز سے کام کر سکتی ہیں۔

ثنا جمالی:بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ثنا جمالی پہلی بار خواتین کی مخصوص نشست پر سینیٹ کی رُکن منتخب ہوئی ہیں۔ دیگر خواتین ارکان کی طرح ان کا تعلق بھی ایک با اثر سیاسی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد، جان محمد جمالی بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ اور دو بار سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین رہے۔

بدلتی دیکھی ہیںوفاداریاں بھی وقت کے ساتھ وفا جہاں کے لیے ایک کاروبار رہی

حالیہ سینیٹ انتخابات میں ہونے والی ہارس ٹریڈنگ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔ یہ ناپسندیدہ بلکہ شرم ناک کام کم و بیش ہر سینیٹ الیکشن میں ہوتا آیا ہے، لیکن اس مرتبہ ایک ایک ووٹ کے لیے جس قدر خطیر رقم کی پیش کش کے انکشافات سامنے آئے، وہ سینیٹ کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے۔ 

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سینیٹ کے الیکشن سے پیش تر بلوچستان اسمبلی میں حکومتی ارکان کی بغاوت نے صورتِ حال تبدیل کر دی تھی اور پھر عمران خان نے اعلانیہ طور پر یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ ہر صورت مسلم لیگ (نون) کے امیدوار کا راستہ روکیں گے اور نواز شریف کو سینیٹ میں ہزیمت سے دوچار کریں گے۔ 

نیز، چیئرمین پی ٹی آئی نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ کے پی کے اسمبلی میں ان کے ارکان نے بھی اپنے ووٹ فروخت کیے، لیکن شاید وہ یہ بُھول گئے کہ ان کے اُصولی، نظریاتی اور شفّاف کردار کے دعوے دار ارکان نے ایسا کیوں کیا؟ شاید پاکستان تحریکِ انصاف کے ارکان کو یہ یاد ہو گا کہ عمران خان نے عوامی اجتماعات میں بار بار یہ بات دُہرائی تھی کہ انہیں ایک ووٹ کے لیے 40کروڑ کی پیش کش ہوئی ہے۔ 

چیئرمین پی ٹی آئی نے خود کو ایک مثالی اور اعلیٰ کردار کا شخص ثابت کرنے اور کریڈٹ حاصل کرنے کے لیے فخریہ انداز میں جلسوں میں یہ بات تو کر دی، لیکن انہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ان کے ارکانِ اسمبلی پر اس کے کیا نفسیاتی اثرات ہوں گے۔ 

عمران خان کے اس دعوے کے باعث کے پی کے اسمبلی میں موجود ان کے ارکان کے ذہنوں میں اس سوچ نے جنم لیا کہ’’ اگر ہمارے لیڈر کو 40کروڑ روپے کی پیش کش ہو رہی ہے، تو ہمیں اس سے نصف رقم بھی مل جائے، تو زندگی سنور سکتی ہے۔ 

پھر خفیہ رائے شماری میں یہ تھوڑا ہی پتا چلتا ہے کہ کس نے کس کو ووٹ دیا اور بالفرض محال پتا چل بھی جائے، تو اتنی خطیر رقم کے بدلے زیادہ سے زیادہ اسمبلی کی نشست ہی جا سکتی ہے اور وہ بھی مشکل ہے۔‘‘ اسی لیے پی ٹی آئی ارکان نے اپنے ووٹ فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ 

اب اگر لوگ یہ کہتے ہیں کہ کے پی کے اسمبلی میں تحریکِ انصاف کے ارکان کی جانب سے اپنے ووٹ فروخت کیے جانے کی ذمّے داری خود عمران خان پر عاید ہوتی ہے، تو یہ کچھ غلط بھی نہیں۔

وہ تِرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں

سینیٹ کا معرکہ: مسلم لیگ کی جیتی ہوئی ہار الذامات کا نیا پینڈورا بکس

اپنی سیاسی جماعت اور اس کی قیادت سے طویل و ابستگی رکھنے والے میاں رضا ربّانی کا چیئرمین سینیٹ کے لیے نام اپنے قائد، آصف علی زر داری کی جانب سے مسترد کرنا، اُن کے لیے یقیناً مایوسی کا باعث بنا ہو گا، لیکن اس سے زیادہ دِل گرفتگی کی وجہ یہ بنی ہو گی کہ اُن کے لیڈر نے اپنے اس فیصلے کا اظہار خلوت کی بہ جائے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ 

میاں رضا ربّانی نے عملی سیاست کا آغاز پاکستان پیپلز پارٹی ہی سے کیا اور محترمہ بے نظیر بُھٹّو کے بعد آصف علی زرداری ان کے قائد بنے، لیکن بعض واقعات اس اَمر کی غمازی کرتے ہیں کہ انہیں آصف علی زرداری کے ’’سیاسی قلب‘‘ میں وہ جگہ نہیں مل سکی، جو محترمہ بے نظیر بُھٹّو کے دِل میں ان کے لیے تھی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ 2015ء میں بھی آصف علی زرداری، میاں رضا ربّانی کو سینیٹ کا چیئرمین بنانے پر آمادہ نہیں تھے اور انہیں مجبوراً یہ فیصلہ کرنا پڑا تھا۔ 

اس سے قبل جب میاں نواز شریف، اسفند یار ولی خان اور آصف علی زرداری نے جمہوریت کے استحکام کے لیے مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا، تو اس وقت بھی میاں نواز شریف، میاں رضا ربّانی کے سیاسی کردار کے بڑے حامی تھے اور اکثر و بیش تر آصف علی زرداری کی موجودگی میں ان کی تعریف کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس بات کا اعلانیہ اظہار کیا کہ اگر پاکستان پیپلز پارٹی میاں رضا ربّانی کو چیئرمین سینیٹ کے لیے نام زد کرتی ہے، تو مسلم لیگ (نون) ان کی حمایت کے لیے تیار ہے۔ 

میاں نواز شریف کے علاوہ اسفند یار ولی بھی میاں رضا ربّانی کے بڑے حامی تھے اور اَمرِ واقعہ یہ ہے کہ 2015ء میں چیئرمین سینیٹ کے لیے ان کا نام اسفند یار ولی خان نے نہ صرف تجویز کیا تھا، بلکہ اس پر آصف علی زرداری کو آمادہ بھی کیا تھا۔ 

تب اسفند یار ولی کی سربراہی میں عوامی نیشنل پارٹی کے ایک وفد نے، جس میں سینیٹر افراسیاب خٹک اور سینیٹر زاہد خان بھی شامل تھے، بعض اُمور پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے ایوانِ صدر میں آصف علی زرداری سے ملاقات کی۔ اس موقعے پر پیپلز پارٹی کے دیگر رہنمائو ں کے علاوہ رضا ربّانی بھی موجود تھے۔ 

غیر رسمی گفتگو کے دوران جب صدر (سابق) زرداری نے اپنی ٹیم میں شامل اہل افراد کی کام یابی کا ذکر کیا، تو اسفند یار ولی خان نے کہا کہ ’’آپ کے پاس رضا ربّانی جیسے زبردست لوگ موجود ہیں۔ آپ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ کیوں نہیں اُٹھاتے؟‘‘ اس پر آصف علی زرداری نے رضا ربّانی کی طرف دیکھتے ہوئے معنی خیز لہجے میں جواب دیا کہ ’’ یہ تو بڑا انقلابی ہے۔ بابائے جمہوریت بنتا ہے۔ مُجھے انقلابی نہیں چاہئیں۔‘‘ تاہم، اس موقعے پر اسفند یار ولی خان کی تجویز کو اہمیت دی گئی اور رضا ربّانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

’’اے کمپنی چلنی کوئی نئیں‘‘

سینیٹ میں مسلم لیگ (نون) کے نام زد کردہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین منتخب کروانے کی راہ میں دیوار کھڑی کرنے کے لیے عمران خان اور آصف علی زرداری اور ان کی جماعتوں نے جو سمجھوتا کیا، کیا وہ مُلک میں ہونے والے عام انتخابات تک برقرار رہے گا اور کیا مصلحت کی بنیاد پر دونوں جماعتیں اکٹھی رہ سکیں گی؟ اس سوال کا جواب اور اس پر تبصرہ اس انتہائی دِل چسپ اور معنی خیز لطیفے میں پوشیدہ ہے، جو ان دنوں خُوب گردش کر رہا ہے اور اس کے راوی ایک اہم مسلم لیگی وزیر ہیں۔ 

سینیٹ کا معرکہ: مسلم لیگ کی جیتی ہوئی ہار الذامات کا نیا پینڈورا بکس

لطیفہ کچھ یوں ہے کہ سردار امر سنگھ کو کثرتِ مے نوشی سے ایک تجربہ یہ بھی حاصل ہوا کہ وہ آنکھیں بند کر کے اور محض ایک چُسکی لے کر یہ بتا دیا کرتا تھا کہ’’دُخت ِرَز‘‘ کا برانڈ کون سا ہے، یہ کتنی پُرانی اور کون سی کمپنی کی ہے۔ وہ ہر ہفتے کی شب مے خانے میں اپنے اس فن کا مظاہرہ کرتا۔ 

اس دوران اس کی آنکھوں پر پٹّی باندھ دی جاتی اور گلاس سامنے بَھر کر رکھ دیا جاتا۔ پھر وہاں موجود لوگ آپس میں شرطیں لگاتے اور سردار جی پہلی ہی چُسکی میں ’’دُختِ رز‘‘ کا خاندان اور پس منظر بیان کرتے ہوئے کمپنی کا نام بھی بتا دیتے اور مالا مال ہو جاتے۔ 

ایک مرتبہ حاسدین نے مختلف برانڈز کی’’ دُختِ رَز‘‘ کی آمیزش کر کے گلاس سردار جی کے سامنے رکھ دیا کہ اب سردار جی کا تجربہ اور ذہانت کیا رنگ لاتی ہے۔ سردار جی نے ایک چُسکی لی، پھر دوسرا گھونٹ بھرا اور پھر تیسرا پیگ لیا، لیکن کچھ سمجھ نہ آیا ،تو ہتھیار ڈالنے کے انداز میں بولے،’’ سجنو! اے تے مینوں پتا نئیں کہ اے کیہڑی کمپنی دی شراب ہے۔ 

فیر وی اے دس دیاں کہ اے کمپنی چلنی کوئی نئیں۔‘‘ ( دوستو! مُجھے یہ تو معلوم نہیں کہ یہ کون سی کمپنی کی ہے۔ تاہم، اتنا ضرور بتا دیتا ہوں کہ یہ کمپنی چلے گی نہیں۔‘‘

تازہ ترین