• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسٹیفن ہاکنگ کی نظری سائنس اورزندگی کے حالات طالب علموں کیلئے مشعل راہ

اسٹیفن ہاکنگ کی نظری سائنس اورزندگی کے حالات طالب علموں کیلئے مشعل راہ

ہرجاندار شے کی طرح اسٹیفن ہاکنگ کی زندگی کے ساتھ موت پیدا ہوئی لیکن اس کی زندگی میں جسم نے ذہن کا ساتھ نہیں دیا۔ صرف دماغ ہی کام کرتا تھا۔ دل دھڑکتا تھا صرف اس لئے کہ وہ سانس لے سکے۔ 

ڈاکٹروں نے اسے 21 سال کی عمر میں بتا دیا تھا کہ اسے ایک ایسی اعصابی بیماری لاحق ہو گئی ہے کہ وہ صرف دو سال ہی جی سکتا ہے۔ اسٹیفن نے کہا کہ دو سال بہت ہیں وہ اس عرصے میں فزکس میں پی ایچ ڈی کرے گا۔ 

اس باہمت شخص نے نہ صرف پی ایچ ڈی کی بلکہ وہ مردہ جسم کے ساتھ دل کی دھڑکن اور دماغ کی بصیرت افروزی اور آنکھوں کی بصارت کے ساتھ آئن اسٹائن اور نیوٹن کی ایجادات کی تشریح کرتا رہا ہے اور وقت کو چوتھی (ڈائیمینشن) سمت کے طور پر پیش کرتا تھا۔ اس کا علم اس کے تصور کا تعاقب کرتا رہا اور جب کبھی علم کسی تصور یا خیال کو پا لیتا تھا تو اسٹیفن ایک تھیوری پیش کر دیتا تھا۔ 

اس نے بلیک ہول تھیوری دی۔ اس کا خیال تھا کہ اس میں کائنات بھی گم ہو سکتی ہے۔ اور یہ بھی کہ بخارات کی طرح اُڑ سکتا ہے۔ اگرچہ اس میں ناقابل تصور طویل عرصہ درکار ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ جب بلیک ہول پھٹے گا تو اس میں ’’گاماریز‘‘ خارج ہوں گی اس نے ایک کتاب لکھی جو بہت مقبول ہوئی اس کا نام ’’وقت کی مختصر تاریخ‘‘ ہے۔ یہ بہترین فروخت ہونے والی کتابوں میں ایک ہے اہل بصیرت و ادراک بڑے ذوق و شوق اسے پڑھتے ہیں۔ اسٹیفن ہاکنگ کا کہنا ہے ’’کئی آسمان ہیں کئی کائناتیں ہیں کئی سورج اور ستارے ہیں۔ 

سیارے ہیں جو ایک دوسرے سے ہزاروں گنا بڑے اور لاکھوں میل دُور ہونے کے باوجود مکان زیادہ تر خالی ہے۔ مکان کے معنی Space ہے۔ باالفاظ دیگر خلاء ہی خلا ہے جب ستارے مکان کی پہنائیوں میں سفر کرتے ہیں ان کا درمیانی فاصلہ عموماً کئی لاکھ میل ہوتا اور یہ سب پیچھے کی طرف ہٹ رہے ہیں۔ سائنس دانوں کو خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ پیچھے ہٹنے سے کسی وقت ٹکرائو نہ ہو جائے لیکن جگہ زیادہ تر خالی ہی خالی ہے۔

اسٹیفن ہاکنگ کادعویٰ ہے کہ ریاضیاتی طور پر اس نے ثابت کیا ہے کہ آئن اسٹائن کا نظریہ اضافیت سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ کائنات کا یقیناً کوئی آغاز ہو گا اور ممکنہ طور پر اختتام بھی‘‘ لیکن سائنس کی دنیا ہو یا سول سائنس کی دنیا اس میں کوئی شے حتمی نہیں ہے ابھی سربستہ راز کائنات کے افشاں ہونے باقی ہیں۔ 

کیونکہ BigBang سے پہلے زماں اور مکاں کا کوئی وجود نہ تھا۔ (زماں وقت،مکان جگہ) اسٹیفن ہاکنگ نے ایک لیکچر کے دوران کہا تھا کہ ستاروں کی دُنیا میں اگر کوئی مخلوق زمین کے لوگوں سے زیادہ ذہین ہوتی تو وہ ضرور زمین پر اتر کر قبضہ کر لیتے۔ 

اسٹیفن ہاکنگ کہتے ہیں کہ ’’کیا ہم کسی سیارے کو نو آبادی بنا سکتے ہیں اور کیوں کوئی مسافر مستقبل سے کرئہ ارض پر نہیں اترا انہو ں نے یہ بھی کہا کہ کیا کمپیوٹر بنی نوع انسان پر مسلط ہو سکتا ہے۔ ایک عرصے سے مادیت پسندوں (ہیگل اور کارل مارکس ) اور خیال پرستوں کے درمیان مباحثہ چلا آیا ہے۔ 

مادیت پسند کہتے ہیں جو کچھ دنیا میں ہے جسے حواس خمسہ سے دیکھ، سونگھ، محسوس وغیرہ کر سکتے ہیں۔ وہی موجود ہے جو معروض میں ہے اور اس کا تجربہ کر سکتے ہوں مثلاً اگر میں نے املی کھائی ہو تو اسے دیکھ کر میرے منہ میں پانی بھر آئے گا۔ جس نے نہیںکھائی اس کے ساتھ ایسا نہیں ہو گا خیال پرست کہتے ہیں جن میں اسٹیفن ہاکنگ بھی شامل ہے ’’یہ حقیقت یہ ہے کہ وہی اشیاء ایک دوسرے پر اثر انداز ہو سکتی ہیں جن کے درمیان کچھ مشترک ہو۔ 

مثلاً پتھر ماریں تو ہم تتلی کو کچل کر رکھ سکتے ہیں کیونکہ دونوں مادی چیزیں ہیں اور جگہ بھی گھیرتی ہیں لیکن پتھر کسی خواہش کو کس طرح کچل سکتا ہے یا کوئی خیال پتھر پر کیسے اثر انداز ہو سکتا ہے۔

اسٹیفن ہاکنگ اور اس کی پہلی بیوی

ہاکنگ نے ہمیشہ اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ کہنے سے گریز کیا۔ اس کی بیوی جینی ہمیشہ مہر بہ لب رہی۔ وہ اپنے اور اسٹیفن کے بارے میں ہر ایک سوال کو رد کر دیتی تھی جب ’’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘‘ کی فلم کے پروڈیوسروں نے جینی پر بہت زور دیا کہ ان کی فلم میں وہ کام کرے تو اس نے ایک انٹرویو میں شریک ہونے پر رضا مندی ظاہر کر دی لیکن شرط یہ تھی کہ وہ بطور صحافی شریک ہوں گی۔ وہ اپنی گزشتہ زندگی کے بارے میں کسی قسم کی کوئی حاشیہ آرائی کے حق میں نہ تھی۔ 

اسٹیفن ہاکنگ بہت تکلیف میں رہتا تھا تو اپنی بیویوں کے ساتھ بہت سختی سے پیش آتا اور بعض اوقات وہیل چیئر اس طرح تیزی سے گھماتا کہ زخمی ہونے کا خوف رہتا۔ جب وہ کھانا نرسوں کے ذریعے کھاتا ۔اکثر کھانا پھیپھڑوں میں چلا جاتا اور پھر اسے صاف کرنا پڑتا۔ اسٹیفن ہاکنگ کا کہنا ہے کہ چار ہزار سال بعد آبادی اتنی بڑھ جائے گی کہ زمین پر ایک کمرہ بنانا مشکل ہو جائے گا۔

زمان و مکان کا کوئی وجود نہ تھا

اس تھیوری کے مطابق BigBangسے پہلے زمان و مکان کا کوئی وجود نہ تھا جب کائنات کا تمام تر مادہ مبینہ طور پر ایک واحد ناقابل بیان حد تک چھوٹے نقطہ پر مرکوز تھا جسے ریاضی داں اکائیت کہتے ہیں (Singularity) ہاکنگ بذات خود اس کائناتی تبدیلی میں ملوث پیمائشوں کو اس طرح بیان کرتا ہے۔

’’اب ہم جانتے ہیں کہ ہماری کہکشاں ان ہزاروں لاکھوں کہکشائوں میں سے ایک ہے جنہیں جدید دُور بینوں کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے، ہر کہکشاں بذات خود کئی کروڑ ستاروں پر مشتمل ہوتی ہے ہم جس کہکشاں میں رہتے ہیں وہ تقریباً ایک نوری سال دوری اور آہستہ آہستہ گردش کر رہی ہے اس کے خمیدہ بازئوں پر موجود ستارے اس کے مرکز کے گرد کئی سو ملین سال میں ایک گردش مکمل کرتے ہیں۔ ہمارا سورج محض ایک عام اوسط حجم کا زرد ستارہ ہے جو اس کے خمیدہ بازئوں کے اندرونی طرف واقع ہے۔ ہم ارسطو اور بطلیموس کے دور سے بہت آگے نکل آئے ہیں جب ہمارا خیال تھا کہ ہماری دنیا کائنات کا مرکز ہے۔‘‘

سائنس دان یہ بھی کہہ رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ مادے کے جن عظیم ذخائر کا یہاں ذکر ہوا ہے وہ کائنات میں موجود مادے کا عشر عشیر بھی نہیں ہے اور نت نئی کہکشائیں دریافت ہوتی ہیں اور اس عمل کا کوئی اختتام نہیں‘‘

ہم کائنات کے بنیادی قوانین دریافت کر سکتے ہیں

اسٹیفن ہاکنگ سے پوچھا گیا کیا علم اور ترقی کی آن لائن ورچوئل دنیا باالفاظ دیگر علم کی آخری سرحدیں کہاں تک پھیل سکتی ہیں؟ جواب میںکہا کہ اگلے سو سال یا 20برس میں بھی ہوسکتاہے کہ ہم کائنات کے بنیادی قوانین دریافت کرلیں۔

ایک نام نہاد نظری مؤ قف ’’ ہرچیزکا نظریہ The theory of everythingبھی ہے جس کے تحت کوانٹم تھیوری کو یکجا کر دیا گیاہے اور ایک تھیوری آئن اسٹائن کی اضافت بھی ہے لیکن حیاتیاتی اور برقی پیچیدگیاں ان کی کوئی حد نہیں ہے۔ ڈی این اے کے سلسلے میں گزشتہ دس ہزار برس میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں کر سکے لیکن مجھے اُمید ہے کہ جلد ہی جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے اندرونی پیچیدگیوں کے ریکارڈ میں اضافہ کر لیں گے۔ 

اگلے ایک ہزار سال تک یہ ری ڈیزائن ہو جائے گا اگر ہم دماغ کو مزید پیچیدہ اور سائز میں بڑا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو کائنات اور حیات کے کئی مسائل حل کر لیں گے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے فزکس میں کافی کچھ لے لیا ہے۔ اس لئے فزکس میں نیا اضافہ ضروری ہو گیا ہے ورنہ اس کے بغیر کائنات کے بنیادی قوانین مزید دریافت کرنا دشوار ہو جائے گا۔

تازہ ترین