• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’عدلیہ لگائے یا کوئی اور آئین میں جوڈیشل مارشل لا کی کوئی گنجائش نہیں،جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دینگے، میرے ہوتے عدلیہ کے اندر یا باہر سے مارشل لا نہیں آئے گا‘‘ یوم پاکستان کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کا یہ دوٹوک اعلان امید ہے کہ ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے پھیلی ہوئی بے یقینی کے خاتمے میں مؤثر کردار ادا کرے گا ۔ عدالتی مارشل لا کی خواہش کا اظہار ’’خود کوزہ وخود کوزہ گر خود گل کوزہ‘‘کے مصداق ایک سیاسی جماعت کے سربراہ نے حال ہی میں کیا تھا جبکہ پوری آئینی و جمہوری بساط لپیٹ دیے جانے کے لیے پچھلے پونے پانچ سال سے ایمپائر کی انگلی کے اٹھنے کی منتظر سیاسی شخصیات اور تجزیہ کاروں کی بھی ایک بڑی تعداد ملک میں موجود ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک ان عناصر کی عین تمنا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں میں جاری احتساب کے نتیجے میں ملک کے مقتدر سیاسی گھرانے کا کوچۂ سیاست سے صفایا ہوجائے اور میدان پوری طرح ان عناصر کے لیے خالی ہوجائے۔ تاہم چیف جسٹس نے اپنے تازہ اظہار خیال میں جہاں یہ صراحت کی ہے کہ ملک میں نہ فوجی یا عدالتی مارشل لا آئے گا ، نہ آئینی و جمہوری نظام معطل ہوگا وہیں اس امر کو بھی واضح کردیا ہے کہ احتساب کا عمل کچھ مخصوص شخصیات تک محدود نہیں رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ ملک کی ترقی کا اہم جز قانون کی حکمرانی، آزاد عدلیہ اور لوگوں کو بلاتفریق انصاف فراہم کرنا ہے۔ منصف کیلئے بلاتفریق انصاف کرنا ضروری ہے، ملک میں انصاف ہوتا ہوا دکھائی دینا چاہیے‘‘۔ کیتھڈرل چرچ لاہور میں یوم پاکستان کی تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے ووٹ کے تقدس ،آئین و قانون کی حکمرانی نیز بے لاگ و بلاتفریق انصاف سے اپنی مکمل وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ’’، ہمیں ووٹ کی عزت بھی ہے اور قدر بھی، پاکستان میں صرف ایک ہی طرز حکومت چل سکتاہے اور وہ جمہوریت ہے، ملک کو آئین اور قانون کے مطابق چلنا ہے، ماورائے آئین اقدام کو برداشت نہیں کیاجائے گا، جمہوریت کوڈی ریل ہونے نہیں دینگے، اچھے حکمران آنے سے ملک کی تقدیر بدلتی ہے، قسم کھاتا ہوں ملک میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں،کسی کوشک نہ ہو،انصاف بلا تفریق ہوگااو رہوتا نظر آئیگا‘‘۔ ملک کے منصف اعلیٰ کے یہ خوشگوار عزائم بلاشبہ ملک کے روشن مستقبل کی ضمانت ہیں کیونکہ قوموں کی بقا و سلامتی اور عزت و سرفرازی کے لیے عدل کا قیام پہلی اور لازمی شرط ہے۔ قومی یکجہتی اور اتحاد اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے جب اکثریت و اقلیت سمیت ہر طبقے اور فرد کو ظلم اور بے انصافی سے یقینی تحفظ حاصل ہو۔چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کو عدلیہ کی ذمہ داری قرار دے کر اسی امر کی یقین دہانی کرائی ہے۔انہوں نے اس آرزو کا اظہار بھی کیا کہ ملک کو عمر فاروقؓ جیسا کوئی حکمراں مل جائے اور پوری دنیا مانتی ہے کہ ان کے دور حکمرانی کا نمایاں ترین پہلو بے لاگ عدل ہی تھا جس میں امیر و غریب، کمزور اور طاقتور، مسلم اور غیر مسلم سب کو بے لاگ انصاف مہیا تھا۔ چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا یہ قول بھی اس حوالے سے ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے کہ’’معاشرے کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتے ہیں مگر ظلم و بے انصافی کے ساتھ نہیں‘‘۔پاکستان میں بہرحال بے لاگ عدل کے لیے ابھی خود عدالتی نظام میں بڑی اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں اٹھارہ لاکھ سے زیادہ مقدمات زیر التواء ہیں ، ایک مقدمے کا فیصلہ ہونے میں اوسطاً پندرہ سے بیس سال صرف ہوتے ہیں،نچلی عدالتوں میں ایک جج کو ایک دن میں ڈیڑھ سو سے دوسو تک مقدمات سننے ہوتے ہیں جو عملاً ناممکن ہے لہٰذا زیر التواء مقدمات کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے۔عوام بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ چیف جسٹس عدالتی نظام کی ان خامیوں پر قابو پانے کے لیے بھی نتیجہ خیز اقدامات کریں گے اور اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے جس تعاون کی ضرورت ہوگی وہ پوری کشادہ دلی سے فراہم کیا جائے گا۔

تازہ ترین