• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ قومی دِن بہت جذباتی کر دیتے ہیں۔ ہر طرف بکھری روشنیاں دِل بڑا بھی کرتی ہیں۔ مگر بہت سے زخم بھی ہرے ہو جاتے ہیں۔ بہت خوشی بھی ہے کہ ہم فوجی اعتبار سے بہت مضبوط ہیں۔ میرے اور آپ کے سامنے سے اسلحہ بردار فلوٹ گزر رہے ہیں۔ نئے نئے ہتھیار ہمارے ترکش میں جمع ہو رہے ہیں۔اردن متحدہ عرب امارات کے جانباز بھی مارچ میں شامل ہیں۔
آج مجھے شہیدوں کی یادوں نے گھیر رکھا ہے۔ میرے نزدیک اپنے نصب العین کیلئے ہر غیرطبعی موت مرنے والا شہید ہے۔ واہگہ کی سرحد سے لے کر طورخم تک ان عظیم شہداء کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے جنہوں نے اپنے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے جان نثار کر دی۔ جنہوں نے اپنے نظریات کی پاسداری میں زندگی کا نذرانہ پیش کر دیا۔ جو اپنے مسلک کا تحفظ کرتے ہوئے جیون کی سرحد پار کرگئے۔ ان کا کوئی بھی مسلک تھا، کوئی بھی نظریہ تھا، لیکن وہ اپنے وطن کی حدود کے اندر ایک حسین صبح کیلئے جدوجہد کر رہے تھے۔ ان کے راستے جدا جدا تھے،مگر ان کی منزل ایک ہی تھی۔ ایک خوشحال، ترقّی کرتا پاکستان، غربت کو شکست دیتا، ہر پاکستانی کیلئے زندگی کی آسانیاں فراہم کرنے والا پاکستان، اچھی تعلیم، علاج کے اچھے انتظامات، بہتر سے بہتر ٹرانسپورٹ، اچھی شاہراہیں، صاف سُتھری گلیاں، ہر انسان کے حقوق کی ضمانت، کسی مذہب، کسی زبان، کسی نسل کے امتیاز کے بغیر ۔یہ سب شہداء اگر چاہتے تو زندگی سے، اسٹیبلشمنٹ سے، مافیائوں سے سمجھوتہ کر سکتے تھے۔ اپنی ڈیوٹی سے چھٹی لے سکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ صرف اپنے لیے اچھے دن قبول نہ کیے، وہ تو سب کیلئے اچھے دنوں کی خواہش میں اپنے سانس وار گئے۔ سرحدوں پر سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔ مافیائوں کی ہوس اقتدار کے سامنے ناقابل تسخیر فصیل کا کردار ادا کر گئے۔ ان میں فوجی بھی تھے، پولیس والے بھی، بیوروکریٹ بھی، ڈاکٹر بھی، حکیم بھی، پروفیسرز بھی، ادیب، شاعر، دانشور، صحافی، ایڈیٹر، سیاسی رہنما، سیاسی کارکن۔یہ ہم سب کیلئے لائق احترام ہیں۔ کتنے شہداء کو تو ہم بھول گئے۔ سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے جان دینے والوں کو تو منظم فوج یاد رکھتی ہے ان کیلئے یادگاریں بھی بنتی ہیں۔ ان کے خاندانوں کی دیکھ بھال بھی کی جاتی ہے۔ ہمیں اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر اَدا کرنا چاہیے کہ ایک ایسا اِدارہ موجود ہے جو اپنی آن پر مر مٹنے والوں کو یاد رکھتا ہے۔ ان کیلئے ایک الگ شعبہ موجود ہے۔ دلی تسکین ہوتی ہے کہ ان کی قربانیوں کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ اس میں سول حکومتیں بھی کسی حد تک اپنی ذمّہ داریاں پوری کرتی ہیں۔
لیکن سول حکومتوں نے اپنے سول شہداء کیلئے ایسا کوئی باقاعدہ شعبہ قائم نہیں کیا۔ پاکستان کی تو کہانی ہی شہیدوں کے لہو سے شروع ہوتی ہے۔ کتنے لاکھوں بزرگ، خواتین، بچّے متحدہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اپنے گھر بار چھوڑ کر مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کی سرحدوں تک پہنچتے ہوئے اپنے پیاروں کی بانہوں میں دَم توڑتے رہے، کتنے ہی ان کی آنکھوں کے سامنے بلوائیوں کی کرپانوں، تلواروں اور خنجروں کا نشانہ بن گئے۔ کہیں کسی سرکاری محکمے کے پاس ان کا ریکارڈ محفوظ ہے۔ کسی غیرسرکاری ادارے نے یہ تفصیلات جمع کرنے کیلئے زحمت کی۔ مشرقی پاکستان میں جبری ہجرت کا مرحلہ دوبارہ آیا تو کتنے پاکستانیوں کا لہو بہا۔
ان بزرگوں کی قربانیوں سے حاصل ہونے والی اس پاک سرزمین میں ایک مستحکم نظام کے قیام کیلئے بھی ان 70سالوں میں مسلسل قربانیاں دی جاتی رہی ہیں۔ بہت سے یہاں اسلامی نظام چاہتے تھے۔ اس کیلئے وہ اپنی جان تک پیش کر گئے۔ بہت سے سوشلسٹ نظام قائم کرنا چاہتے تھے۔ بہت سے جمہوری نظام کی خاطر دار کی ٹہنی پر وارے گئے، مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان دونوں مقدس بازئوں میں کتنے بزرگ، کتنے نوجوان اپنے اپنے آدرش کی خاطر زندگی جیسی قیمتی متاع نثار کرگئے۔
بلوچستان میں کتنے لاپتہ ہیں، سندھ میں کتنے نامعلوم ہیں، پنجاب میں کتنے گرد میں گم ہیں، کے پی میں کتنے بے نشاں ہیں، گلگت بلتستان میں بھی کتنے اپنے نصب العین کیلئے دُنیا سے اُٹھا دیئے گئے۔ آزاد کشمیر میں کتنے غیروں کی گولیوں کا لائن آف کنٹرول پر نشانہ بن گئے، کتنے اپنوں کی سفاکی کا ہدف بن گئے۔ فاٹا میں بھی نہ جانے کتنے ہوں گے جو اپنی روایات اقدار کی پاسداری میں اَجل کو گلے لگا گئے۔
اس عظیم ملک کی تاریخ کا پہلا باب اگر ہجرت کرنے والوں کے لہو سے سُرخ ہے تو آئندہ باب بھی مختلف علاقوں، مختلف تحریکوں کے دوران، مختلف زبانوں، مختلف مسالک سے وابستہ بزرگوں، جوانوں کے خون سے ہی رقم کیے جاتے رہے ہیں۔ مسلّمہ دُشمنوں غیرملکی افواج کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں سے کہیں زیادہ بڑی تعداد ان پاکستانیوں کی ہے جن کی زندگی کی کہانی پاکستانیوں کے ہاتھوں ہی اَدھوری رہ گئی۔ دونوں طرف ایک ہی کلمہ پڑھنے والے تھے۔ دونوں طرف سے نعرئہ تکبیر لگتا تھا۔
میں تو ہر مسلک، ہر سیاسی جماعت، ہر ادارے کا احترام کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا نائب انسان جہاں بھی ہے، جس کے ساتھ ہے، وہ قابل عزت ہے۔ زندگی اور موت کا اختیار اللہ کے ہاتھوں میں ہے۔ انسان خواہ کسی بھی منصب پر ہو۔ اسے انسان کی جان لینے کا اختیار نہیں ہے۔مجھے بہت سی تحریکیں یاد آ رہی ہیں۔ تحریک پاکستان، تحریک ختم نبوت، ایوبی آمریت کے خلاف تحریک، تحریک نظام مصطفٰی، ایم آر ڈی، تحریک نجات، سرحد بلوچستان اور شہری دیہی سندھ میں اپنے اپنے حقوق کیلئے چلنے والی تحریکیں۔ انہیں قوم پرست کہیں، علیحدگی پسند کہیں، پشتونستان کہیں، عظیم تر بلوچستان کا نام دیں، بنیادی طور پر یہ انسانی زندگی کو آسان بنانے کیلئے تھیں۔ اپنے انسانی حقوق کے حصول کیلئے تھیں، جمہوری آئینی تقاضا تو یہ تھا کہ متعلقہ حکومتیں ان سے مذاکرات کرتیں، انہیں مطمئن کرتیں، لیکن سیاسی حکمران تھے یا فوجی۔ تدبر کا ثبوت نہ دیا گیا۔ پھر دہشت گرد تنظیمیں خوفناک عزائم لیے یلغار کرتی نظر آتی ہیں۔ فوجی جنرل، بریگیڈیئر، جوان شہید ہوتے ہیں۔ عام پاکستانی خاک و خون میں غلطاں ہوتے ہیں، کراچی میں 90 کی دہائی یاد آتی ہے۔ ہر روز کتنی لاشیں گرتی تھیں۔
کیا کسی سرکاری یا غیرسرکاری تنظیم نے جائزہ لیا کہ عام سول پاکستانیوں میں ایسے شہداء کی کتنی تعداد ہے۔ ان کے گھروں پر کیا گزر رہی ہے۔ پاکستان میں کتنی بیوائیں ہیں، کتنے یتیم، کتنے معذور ہیں، کتنے طویل بے ہوشی میں ہیں، کتنے دماغی توازن کھو بیٹھے، کتنوں کے کاروبار تباہ ہوگئے۔ کتنے وفادار سیاسی کارکنوں کی شہادتوں کےبعد ان کے خاندان کس طرح بے یار و مددگار ہوگئے۔
ان سب کی قربانیاں کیوں رنگ نہ لائیں، وہ گلرنگ سویرا کیوں نہ طلوع ہوا۔ کیا ان قربانیاں دینے والوں کے نصب العین دُرست نہیں تھے۔کیا اب ریاست، یونیورسٹیوں، سیاسی جماعتوں، تحقیقی اداروں اور تھنک ٹینکوں کی ذمّہ داری نہیں ہے کہ یہ سارے اعداد و شمار جمع کریں۔۔
ان شہداء کا خون، قربانیاں، ہم سب پر قرض ہے۔ اب اور لہو نہیں بہنا چاہئے۔
اب پاکستانیوں کے ہاتھ پاکستانیوں کی ہلاکت نہیں ہوئی چاہئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین