• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یومِ جمہوریہ (Republic Day) کیا سے کیا ہو گیا اور ہم ہاتھ ملتے رہ گئے۔ 23؍ مارچ 1940ء کو جو لاہور میں اجتماع ہوا تھا اور اگلے روز جو قراردادِ لاہور پاس کی گئی تھی، اُس کی منشا تو بس اتنی پوری ہوئی کہ علیحدہ مملکت تو وجود میں آ گئی جس کے مقدر سے جمہوریہ ہونے کی لکیر بنتی ٹوٹتی رہی اور ملک دو لخت ہوا۔ جمہوریہ کا دن منانے کے دن کا مزہ آیا بھی تو اسی روز 1956ء کے آئین کی منظوری کے ساتھ، لیکن 1958ء کا مارشل لا لگتے ہی، یومِ جمہوریہ، یومِ پاکستان ہوا بھی تو جمہوریہ کی فاتحہ پڑھ کر۔ قراردادِ لاہور (بعد ازاں قراردادِ پاکستان) تو فقط بانیانِ پاکستان کی حقِ خودارادیت، رضاکارانہ وفاقیت اور جمہوریہ سے وابستگی کی موہوم یاد دلاتی ہے جو کہیں فوجی پریڈ کی مارشل دھنوں میں ڈوب کر رہ گئی ہے۔ بھارت میں بھی یومِ جمہوریہ کا منظر کچھ ایسا ہی عسکریت پسندانہ ہے۔ شاید نوآبادیاتی کروفر کی دھاک بٹھانے کو۔ قائداعظم کا تو بنیادی جھگڑا ہی یہ تھا کہ گاندھی جی بہت ہی ہندوتوائی ابلاغ و اظہار میں پھنس گئے ہیں جو فرقہ واریت کا موجب بنے گا (اور بن بھی گیا) اور کانگریس کی قیادت متحدہ ہندوستان کی ثقافتی، نسلیاتی، علاقائی اور مذہبی کثرت کو نظرانداز کرتے ہوئے نوآبادیاتی مرکزیت اور ایکتا پہ مصر ہے جس کے باعث مختلف قومیتوں اور مذہبی اقلیتوں پہ ایک نیا بعد از نوآبادیاتی تسلط قائم ہو جائے گا۔ متحدہ ہندوستان کے لیے سائمن کمیشن سے کیبنٹ مشن کی تمام وفاقی و نیم وفاقی اسکیموں بارے جناح اور ڈاکٹر امبیدکر جیسے جمہوریت پسند بہت ہی پُرجوش تھے۔ قراردادِ لاہور بھی چار اُصولوں پہ مبنی تھی: اوّل: حقِ خودارادیت یعنی مسلم اکثریتی آبادی کے مسلمانوں (نہ کہ ہندو اکثریتی علاقوں کی مسلم اقلیت) کے لیے حقِ علیحدگی؛ دوم: علاقائی یعنی زمینی بنیاد: ہندوستان کے شمال مغرب اور مشرقی علاقوں کی گروپ بندی؛ سوم: وفاقیت اور نیم وفاقیت: ایسی ’’آزاد ریاستوں‘‘ کی تشکیل جن میں ’’اکائیاں‘‘ خود مختار اور آزاد ہوں ؛ چہارم: اقلیتوں کے مساوی حقوق: مسلم اکثریتی علاقوں میں ہندو اقلیت اور ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمان اقلیت کے بطور شہری بلاتفریق مذہب مساوی اور موثر حقوق کی گارنٹی۔ ان پیمانوں پہ بھارت ایک جمہوریہ اور سیکولر ملک ہونے کے باوجود صحیح معنوں میں وفاقی بنا نہ اقلیتوں کو مساوی حقوق دے سکا۔ اور پاکستان عوام الناس کی جمہوریہ بننے اور وفاقی اکائیوں کی ایک رضاکارانہ اور شراکتی وفاقیت کا حصہ بننے کی منشاؤں کے باوجود، جمہوریہ بن پایا نہ شراکتی وفاق۔ پاکستان کے ٹوٹنے کی بھی یہی وجوہات تھیں اور ’’آزادی‘‘ کے 26 برس بعد 1973ء کے آئین کے سماجی معاہدے اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کے باوجود جمہوریہ اور وفاقیت کو بدستور جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، ایسا کیوں ہوا؟
آزادی ملی بھی تو گہنائی ہوئی۔ برطانوی دولت مشترکہ کی راجگزار ریاست (Dominion)، 1935ء کا گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ، وائسرائی گورنر جنرل، وحدانی طرز کی وفاقیت جمہوریہ بننے کا مسلسل التوا اور نظریاتی خلجان۔ اوپر سے یہ مصیبت کہ بھارت تو نوآبادیاتی ریاستی ترکے کا وارث بنا، جبکہ نوزائیدہ مملکت پاک کی بے سروسامانی میں قومی ریاست بننے کی لاچاری کے ہوتے ہوئے بھی قائم و دائم رہنے (Survival) کی ناتمام جہد۔ ارتقا تو ہوا لیکن ایک ہی منجدھار میں گھومتا ہوا۔ مملکت بچی بھی تو نصف سے زائد حصہ گنوا کر۔ پھر بھی کونسے تجربے تھے کہ ’’اسلام کی تجربہ گاہ‘‘ قرار دیئے جانے والے ملک میں نہ ہوئے اور پھر بھی وہی ڈھاک کے تین پات اور چال ویسی ہی بے ڈھنگی۔ اس خلجان کا باعث تو بہت سے تضادات ہیں جو مسلسل بحرانوں کو جنم دیتے رہتے ہیں۔ مگر یہاں ہم فقط ایسے پانچ تضادات کو دیکھیں گے جن کا حل کیے بنا ہم ایک ’’غیرمعمولی بحران زدہ ریاست‘‘ رہیں گے۔ اول: نظریاتی تضاد ہے جو اس وقت مذہبی انتہاپسندی کی مختلف فسطائی صورتوں میں بنیادی تضاد (Principal Contradiction) بن چکا ہے۔ اس کی جڑیں تحریکِ پاکستان میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ ’’دو قومی نظریہ‘‘ کا ظہور 1857ء کی جنگِ آزادی کی شکست اور مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد مسلم اقلیتی علاقوں کے اشراف کی محرومی کے بطن سے ہوا، جسے ایک واضح نظریہ کی صورت سرسیّد احمد خان اور اُن کے علی گڑھ کے ساتھیوں نے دی۔ یہ دو قومی دعویٰ ہندوؤں سے علیحدہ ایک برابری کی حقدار مسلم قوم کے لیے تھا۔ جس نے مسلم لیگ کو جنم دیا۔ لیکن سوائے بنگال کے مسلم اکثریتی علاقے کے اسے کسی دوسرے مسلم اکثریتی علاقے میں پذیرائی نہ ملی۔
اور جب 1940ء میں لاہور میں قرارداد پاس ہوئی تو اُس میں مذہبی اکثریتی علاقوں کے حوالے سے مختلف علاقوں کی ’’علاقائی خودمختاری اور اقتدارِ اعلیٰ‘‘ پہ زور دیا گیا۔ نہ کہ اسلامی ریاستوں پہ۔ یعنی نظریہ آیا تو مسلم اقلیت کی جانب سے لیکن پاکستان کی بنیاد بنے بھی تو مسلمانوں کے اکثریتی علاقے۔ اور ہندو اکثریت کے علاقے مسلم اقلیت سمیت بھارت کے نقشے میں شامل ہوئے۔ اگر کیبنٹ مشن پلان پہ اتفاق ہو جاتا تو نقشہ کچھ اور ہوتا۔ بس یہ کہ قائداعظم راضی تھے لیکن کانگریس والے نہیں۔ اور جب برصغیر کی تقسیم فرقہ وارانہ فسادات کی نذر ہو گئی تو آبادیوں کا خون آشام انخلا ہوا۔ دو علیحدہ علیحدہ ملک دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئے۔ تضاد حل تو ہوا لیکن جس اقلیتی سوال پہ جمہوریہ تقسیم ہوئی وہ آج بھی برصغیر کے تینوں ملکوں میں حل طلب ہے۔ بجائے اس کے کہ پاکستان 1940ء کی قرارداد پہ چلتا اور ایک جمہوری وفاق بنتا، ’’دو قومی نظریہ‘‘ کو ’’نظریہ پاکستان‘‘ کے طور پر نئی ریاست کی تعمیر کے لیے اختیار کر لیا گیا۔
دوم: سول ملٹری تضاد: پاکستان کے جمہوریہ بننے نہ بننے کی راہ میں سول ملٹری تضاد حائل رہا ہے جس کے باعث ملک کے مقدر میں چار طویل مارشل لا اور نیم سویلین حکومتیں رہیں جو نوکر شاہی کے رحم و کرم پر تھیں۔ یہ ایک طرح سے نوآبادیاتی دور کے مقتدرہ کا بعد از نوآبادیاتی تسلسل ہی تھا جس نے جمہوریہ کے پاؤں نہ جمنے دیئے۔ پاکستان کے حکمران طبقے مفت خور اور کمزور تھے جنہوں نے ریاستی نوکرشاہانہ سرپرستی میں خوب ترقی کی اور جب ان کا زور بڑھا تو یہ سول و ملٹری نوکرشاہی سے کبھی کبھار ٹکراتے بھی رہے۔ گو کہ افواجِ پاکستان کا ترقی یافتہ اور مضبوط ڈھانچہ پاکستان کی بیرونی سلامتی کا ضامن اور ریاست کے وجود کے لیے ضروری شرط ہے۔ لیکن غیردفاعی شعبوں تک اس کے پھیلاؤ نے جمہوری و سول ڈھانچوں پہ زمین تنگ کر دی۔ نتیجتاً آئین کی جمہوری وفاقی منشا کے برعکس بالواسطہ یا براہِ راست آہنی گرفت نے جمہوری نشوونما اور جغرافیائی اکائیوں کی وفاقی جذب پذیری کے عمل کو بگاڑ کر رکھ دیا۔ اب ریاست نہ صرف طاقت یا تشدد کی اجارہ دار ہے بلکہ سماجی و سیاسی توازن کی اکلیم بھی اس کے پاس ہے۔ آج کل کی اصطلاح میں حکومت سے مراد سویلین سیاسی حکومت اور ریاست سے مراد اس کے غیرمنتخب ادارے یعنی افواج اور عدلیہ ہیں جن کا اداراتی احترام حب الوطنی کی لازمی شرط ہے۔
اور منتخب حکومتوں پر فوجی قیادت حاوی ہے، بھلے فوج کا سربراہ جنرل باجوہ جیسا آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کا حامی جرنیل ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے میں جب حکمران طبقوں کی جماعتیں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی دوڑ میں جمہوریت کو بٹہ لگانے میں مصروف ہوں تو جمہوریہ کا خواب تو خواب ہی رہنا ہے۔
سوم: وفاق اور اس کی اکائیوں میں تضاد: ایک کثیر القومیتی ملک میں ایک معاون وفاق ہی اس کے اندرونی اتحاد کو بنیاد فراہم کر سکتی ہے۔ مگر ایسا نہ ہوا اور ملک کو دو لخت کر کے مرکزیت پسند قوتوں کو پھر بھی چین نہ ملا۔ 1940ء کی قرارداد، 1973ء کا آئین اور متفقہ اٹھارویں ترمیم نے نہ صرف صوبائی خودمختاری کے مسئلے کا حل فراہم کیا بلکہ وفاق کو مضبوط کیا۔ لیکن مقتدرہ ہے کہ قومی یکجہتی کو نوآبادیاتی دور کے آمرانہ مرکز سے یقینی بنانے پہ مصر ہے، جس کے نتائج وہ برآمد نہیں ہوں گے جیسی کہ یکجہتی کی منشا ہے جو صرف کثرت میں وحدت سے پوری ہو سکتی ہے۔ چہارم: ایک دست نگر، استحصالی اور غیرپائیدار معاشی ساخت کی طبقاتی و علاقائی تفریق، جس میں سول و ملٹری اشرافیہ کے چند ہزار خاندان نہ صرف ملک کے سارے ذرائع پہ قابض ہیں بلکہ محنت کش عوام اور محروم علاقوں کی غریبی، محرومی اور استحصال کا باعث بھی ہیں۔ علاوہ ازیں: ایک نحیف معاشی بنیاد پر آپ ایک بھاری بھر کم بالائی ڈھانچے کو مسلط نہیں کر سکتے۔ نتیجتاً، ایوب خان، بھٹو اور شریفوں تک تمام معاشی ماڈل ناکام رہے۔ آزاد منڈی کے اندھے چلن سے یہ تضاد حل ہونے والا نہیں۔ جب تک جمہوریہ کو ایک آزاد سماجی بنیاد فراہم نہیں ہوتی جمہوریت پھلنے پھولنے والی نہیں۔ یہ اقتدار کی ثانوی بندر بانٹ کا باعث تو ہو سکتی ہے، اقتدارِ اعلیٰ کے عوام کو مستقل ہونے کا ذریعہ نہیں۔
پنجم: پاکستان نے ایک فلاحی ریاست بننا تھا، لیکن بن یہ گئی قومی سلامتی کی ریاست۔ بیرونی خطرے نے عوام کی سلامتی کی قیمت پر قومی سلامتی کو حاوی کر دیا اور اس کے داعی سلامتی کے نظریات نے سلامتی کے لامتناہی ایجنڈوں کو تقویت بخشی۔ پاکستان کا ہمسایوں سے تضاد یونہی برقرار رہا تو ہم اس کے بوجھ تلے دب کے رہ جائیں گے۔ ضرورت ہے علاقائی مصالحت، علاقائی تجارت اور جیواسٹرٹیجک ڈاکٹرائنز کی جگہ اکنامک اسٹرٹیجک نظریے کی جس کی راہ ہمیں چین پاکستان معاشی راہ داری نے سجھائی ہے جو جنوبی اور وسطی ایشیا کو ایک معاشی بلاک میں اکٹھا کر سکتی ہے جس کا مرکز پاکستان اور افغانستان بنیں اور جس کی پشت پر چین بھی ہو اور بھارت بھی۔ ایک انسان دوست جمہوریہ، رضاکارانہ وفاق، عوام کے اقتدارِ اعلیٰ، اُن کی سماجی نجات اور خطے میں تعاون کے بغیر پاکستان کو جنت ارضی بنانے کا خواب بس خواب ہی رہے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین