• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق وفاقی وزیر اور سابق سینیٹر نثار اے میمن کی کتاب ’’ان سائٹ ان ٹو دی سینیٹ آف پاکستان‘‘ کی تقریب رونمائی تین ہفتے قبل کراچی کے این جے وی اسکول میں منعقد ہوئی۔ اس کتاب سے میرے خیال میں ایک پیمانہ طے ہو گیا ہے کہ سیاست دانوں خصوصاً منتخب نمائندوں کو کیا ہونا چاہئے اور کیا کرنا چاہئے۔مذکورہ بالا کتاب سینیٹ آف پاکستان کے ایک رکن کی حیثیت سے ان کے چھ سالہ تجربات کا انتہائی دلچسپ بیان ہے ، جس کے ذریعہ ایک عام آدمی کو بھی پاکستان کے منتخب اداروں خصوصاً ایوان بالا یعنی سینیٹ کے آئینی کردار ، اس کی کارکردگی اور اس کو درپیش مسائل کا ادراک کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ اس کتاب سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر کوئی منتخب نمائندہ اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل ہو اور وہ کچھ کرنا چاہتا ہو تو وہ حائل رکاوٹوں اور سسٹم کی پیچیدگیوں کے باوجود بہت کچھ کر سکتا ہے ۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے سے پہلے نثار اے میمن کی شخصیت کے ایک اور پہلو کے بارے میں جاننا ضروری ہے ۔ وہ طویل عرصے تک انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بزنس کے شعبہ سے وابستہ رہے ۔ وہ 30 سال تک دنیا کی معروف کثیر القومی ٹیکنالوجی ’’ آئی بی ایم ‘‘ پاکستان ، یورپ اور مڈل ایسٹ میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرتے رہے اور تقریباً 10 سال تک آئی بی ایم پاکستان کے چیف ایگزیکٹو رہے ۔ انہوں نے ’’ امریکن بزنس کونسل پاکستان ‘‘ اور اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز پاکستان ‘‘ کے صدر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بزنس کے شعبوں میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور بلند پایہ ( High Calibre ) ٹیکنو کریٹ کے طور پر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں ان کی شناخت ہوئی ۔ اسی شناخت کی وجہ سے پاکستان میں وفاقی وزیر اور سینیٹر کے طور پر ان کا انتخاب ہوا لیکن انہوں نے ان عہدوں پر کام کرتے ہوئے یہ بتا دیا کہ وہ ’’ گراس روٹ ‘‘ سیاست دان ہیں ۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ٹیکنو کریٹس کو حکومتوں میں اعلیٰ عہدوں کے لیے نامزد کیا جاتا ہے اور منتخب ایوانوں میں نمائندگی دی جاتی ہے ۔ پاکستان کے تمام منتخب ایوانوں میں ٹیکنو کریٹس کی مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں لیکن عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ عوامی اور سیاسی عہدوں پر کام کرنے والے ٹیکنو کریٹس کی وہ اپروچ نہیں ہوتی ہے ، جو نچلی سطح ( گراس روٹ لیول ) پر کام کرنے والے ایک عام سیاست دان کی ہوتی ہے ۔ گراس روٹ سیاست دان اگرچہ زیادہ تعلیم یافتہ نہ ہو لیکن ان کی اپچ بہت بلند ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں شوکت عزیز اور معین قریشی جیسے ٹیکنو کریٹس کو وزارت عظمی کے عہدے بھی ملے لیکن وہ پاکستان کے لوگوں کو ایک عام سیاست دان کی طرح بھی متاثر نہیں کر سکے ۔ نثار میمن کا معاملہ یگر ٹیکنو کریٹس کے قطعی برعکس ہے ۔ اس لیے میں نے انہیں گراس روٹ سیاست دان قرار دیا ہے ۔ ٹیکنو کریٹس کے طور پر ان کی صلاحیتوں نے انہیں ایک بلند پایہ سیاست دان بنا دیا ۔
یہ بات گلگت بلتستان کے لوگ جانتے ہیں کہ وہاں نثار میمن کس قدر مقبول ہیں۔ ریاستوں، سرحدی علاقوں، آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے وزیر کی حیثیت سے انہوں نے 1993 سے 2002 ء تک خدمات انجام دیں۔ اس عرصے میں انہوں نے شمالی علاقہ جات خصوصاً گلگت بلتستان کے عوام کے لیے وہ کام کیے ، جنہیں بعد ازاں سیاسی حکومتوں کے لیے جاری رکھنا اور آگے بڑھانا مجبوری ہوگیا۔ انہوں نے نچلی سطح پر عوام اور ان کے نمائندوں سے مسلسل رابطہ رکھ کر گلگت بلتستان کے لئے اصلاحات کا پیکیج دیا۔ انہوں نے وفاقی حکومت ، عالمی مالیاتی اداروں اور انٹرنیشنل این جی اوز کے تعاون سے ان علاقوں میں کئی ترقیاتی منصوبے مکمل کیے ۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں آباد لوگ اور معززین انہیں آج بھی اپنے معاملات اور دکھ سکھ میں شامل رکھتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ نثار میمن اگر گلگت بلتستان کے کسی علاقے سے الیکشن لڑیں تو انہیں غیر معمولی کامیابی حاصل ہو گی ۔ صرف گلگت بلتستان ہی نہیں ، انہوں نے اپنے آبائی علاقے ٹھٹھہ کے مختلف علاقوں خصوصاً انتہائی پسماندہ اور غربت کا شکار ساحلی علاقوں کے عوام کے لیے بھی بہت کام کیا ۔ وفاقی وزیر اور سینیٹر کی حیثیت سے انہوں نے ٹھٹھہ کے مختلف علاقوں میں تعلیم ، صحت اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں ( این جی اوز ) سے کئی منصوبے مکمل کرائے ۔ ان علاقوں میں بھی نثار میمن اور ان کی صاحبزادی رکن قومی اسمبلی ماروی میمن بہت مقبول ہیں اور انہیں بہت احترام کی نظر سے دیکھا جا سکتا ہے ۔ سندھ کی پولیٹکل ڈائنا مکس اگرچہ بہت ہی مختلف ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نثار میمن اور ان کی صاحبزادی ماروی میمن کو ٹھٹھہ میں ان کی پارٹی کی طرف سے ٹکٹ ملے تو وہ گراس روٹ سیاست دان کی حیثیت سے بہت اچھا نتیجہ دے سکتے ہیں ۔
کسی دوسرے ٹیکنو کریٹ کو میں نے نہ تو گراس روٹ سیاست کرتے دیکھا اور نہ ہی کبھی ان میں دلچسپی دیکھی۔ دیگر ٹیکنو کریٹس کے مقابلے میں نثار میمن کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ ’’ٹیکنو کریٹ کم پولٹیشن‘‘ ہیں ۔ نثار میمن وہ واحد سینیٹر تھے، جنہوں نے کراچی میں اپنا سیکرٹریٹ قائم کیا، جہاں عام لوگ اپنے مسائل لے کر آتے تھے اور سینیٹر سیکرٹریٹ ان مسائل کے حل کے لئے متعلقہ وزارتوں، محکموں اور اداروں سے رجوع کرتا تھا اور مسائل حل ہونے تک مسلسل رابطے میں رہتا تھا۔ نثار میمن کی کراچی میں رہائش ہے، اس لئے انہوں نے کراچی میں ہی سیکرٹریٹ قائم کیا۔ سیکرٹریٹ کے لئے جگہ تلاش کرنے میں میرا بھی کچھ کردار ہے۔ کلفٹن کے علاقے میں جگہ کا انتخاب کیا گیا، جہاں لوگوں کی رسائی آسان ہو۔ سیکرٹریٹ کے لئے اسٹاف کا تقرر بھی کیا گیا۔ تمام اخراجات نثار میمن خود ادا کرتے تھے۔ وہاں ہر وقت لوگوں کا رش رہتا تھا کیونکہ وہاں لوگوں کے مسائل حل ہوتے تھے۔ نثار میمن جب بھی کراچی میں ہوتے، وہ سارا دن اپنے سیکرٹریٹ میں موجود رہتے۔ انہوں نے محنت کشوں، کسانوں، ماہی گیروں، وکلاء اور دیگر شعبوں کی نمائندہ تنظیموں سے گہرے روابط قائم کئے۔ وہ پاکستان کی سیاست، طبقاتی، قومی اور لسانی تضادات اور سیاسی تاریخ کا گہرا ادراک رکھتے ہیں اور ان کے سیاسی نظریات بہت واضح ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی جمہوری، ترقی پسند، قوم پرست سیاسی قوتوں کے ساتھ مذہبی اور دینی قوتوں میں بھی بہت احترام حاصل کیا ہے۔ ایسا سیاسی ادراک بہت کم ٹیکنو کریٹس میں ہوتا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کی حیثیت سے انہوں نے اس حقیقت کو ثابت کیا ہے۔
اس تناظر میں ان کی کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو یہ مطالعہ بہت مفید ہوگا۔ سینیٹر کی حیثیت سے وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع و دفاعی پیداوار کے چیئرمین رہے اور آبی وسائل پر سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ بھی رہے۔ انہوں نے اس پوزیشن میں جو کام کیا، وہ دیگر منتخب نمائندوں کے لئے قابل تقلید ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ اگر پارلیمانی نظام احتساب قائم ہو جائے تو سارا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کے پانی کے مسئلے پر جو رپورٹ تیار کی، وہ ہمیشہ اس مسئلے کو سمجھنے اور حل کرنے میں ایک اہم دستاویز رہے گی۔ ایوان میں ان کی تقاریر کا بیانیہ سیاست دانوں سے زیادہ سیاسی اور عوامی مقبولیت کا حامی رہا۔
عام لوگوں خصوصاً منتخب نمائندوں کو ان کی کتاب کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ نثار میمن نے ایک تھنک ٹینک بھی قائم کیا تھا، جس نے پاکستان کے اہم سلگتے ہوئے مسائل پر فکر انگیز رپورٹس تیار کیں۔ سینیٹ میں ان کی آخری تقریر کے اختتام پر اجلاس کی صدارت کرنے والے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ جان محمد جمالی کے یہ تاریخی الفاظ نثار میمن کی صلاحیتوں کا بہترین اعتراف ہیں، جس میں جمالی صاحب کا کہنا تھا کہ ’’نثار میمن صاحب، مجھے اس ایوان میں آپ کے ساتھ تین سال کا تجربہ ہے ۔ آپ نے جو بات پہلے دن کی، اس پر آپ قائم رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی پارٹی آپ کی صلاحیتوں کا پورا فائدہ نہیں اٹھا رہی ہے۔‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ نثار میمن کی صلاحیتوں کا اس ملک نے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین