• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان دنیا کے سب سے خوبصورت پھولوں میں سب سے زیادہ خوبصورت پھول ہے ۔ ہم میں سے کچھ بدبخت اس پھول کی پتیاں نوچنے کی کوشش کرنے میں لگے رہتے ہیں لیکن ہر بار ان کی جگہ نئی پتیاں کھل اٹھتی ہیں۔ میری زندگی کی سب سے بڑی محرومی یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے وقت چار سال کا ہونے کی وجہ سے میں قائد اعظم ؒ کی قیادت میں قیام پاکستان کی جدوجہد میں شریک نہیں ہو سکا تھا اور میری سب سے بڑی خوش نصیبی یہ ہے کہ جب میں نے شعور کی آنکھ کھولی تو میں پاکستان میں تھا۔یہ پاکستان اگرچہ لٹا پٹا پاکستان تھا، اس کے پاس کچھ نہیں تھا،انڈیا نے ہمارے حصے کا ترکہ بھی ہمیں نہیں دیا تھا۔ مگر ہم سب پاکستانی اپنی تمام سرگرمیوں کے باوجود خوش تھے کہ ہم اپنے خوابوں کی سر زمین حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے ۔ ہم سب نے پاکستان میں اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا۔ جدوجہد کی اور آہستہ آہستہ کچھ نہ کچھ بہتری کی طرف بڑھتے چلے گئے ۔ ہم نے بے شمار محرومیوں کے باوجود ایک خوبصورت پاکستان میں اپنی زندگی کے دن گزارے۔ ہم چٹنی سے روٹی کھاتے تھے، خربوزے کے ساتھ روٹی کھاتے تھے، کئی ’’عیاش‘‘ لوگ روٹی آم کے ساتھ بھی کھایا کرتے تھےلیکن ان سب کے باوجود ہمارا پاکستان دنیا کا سب سے خوبصورت ملک تھا۔ ہر طرف امن و امان تھا لوگوں کی جان اور عزت محفوظ تھی۔ نہ اس وقت فرقہ پرست مولوی تھے اور نہ جمہوریت پر شب خون مارنے والا کوئی تھا۔ فرد کی آزادی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ رکاوٹ صرف اس صورت میں تھی جب آپ دوسر ے کی آزادی میں رکاوٹ ڈالتے تھےلاہور پیرس جیسا تھا اور اس کی مال روڈ پر شانزے لیزے کا گمان گزرتا تھا۔ آپ چیرنگ کراس سے بھنگیوں کی توپ تک مشاہیر کو واک کرتے دیکھتے تھے ۔ یہاں قطار اندر قطار ریستوران تھے، جہاں محفلیں جمتی تھیں۔ چائنہ لنچ ہوم میں مولانا چراغ حسن حسرت، آغا شورش کاشمیری، حبیب جالب، مولانا عبدالستار خان نیازی، اور دیگر مختلف الخیال اکابرین جمع ہوتے تھےاور بغیر ایک دوسرے کو لہولہان کئے اختلافی مسائل پر بحثیں کرتے تھے ۔ یہ بہت زندہ دل بھی تھے اور ان کے شگوفے چشم زدن میں پورے شہرمیں پھیل جاتے تھے۔ مثلاً ایک دفعہ مولانا چراغ حسن حسرت نے چائے کا آرڈر دیا، جب کافی دیر تک چائے نہ آئی تو انہوں نے منیجر سے شکایت کی، منیجر نے پوچھا’’جس بیرے کو آپ نے آرڈر دیا وہ سفید بالوں والا تو نہیں تھا، ’’مولانا بولے، اس وقت اس کے بال کالے تھے، اب تک سفید ہو چکے ہیں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔اس نوع کی زیادہ تر محفلیں چائنیز لنچ ہوم میں جما کرتی تھیں اور رات گئے تک جمتی تھیں۔ ایک دن حبیب جالب نے آدھی رات کو ریستوران سے نکلتے ہوئے مولانا عبدالستار خان نیازی کو بھی ساتھ لیا اور کہا کہ ان کے والد آپ کے بہت مداح ہیں، وہ کئی دفعہ مجھے کہہ چکے ہیں کہ کبھی مولانا سے ملائو، آج آپ میرے ساتھ چلیں ، مولانا ساتھ چل دئیے ، جالب کے والد نے دروازہ کھولا تو مولانا نیازی کو اپنے سامنے پا کر خوشی سے نہال ہو گئے اس دور ان جالب نے اپنے والد کو مخاطب کیا اور کہا ’’ آپ روزانہ مجھے کہتے تھے کہ رات گئے تک کن لفنگوں کے ساتھ بیٹھا رہتا ہوں ، سوچا آج آپ کو ان سے ملا ہی دوں۔‘‘
تفنن بر طرف، یہ وہ دور تھا ، جب نہ ڈاکے پڑتے تھے ، نہ کوئی کسی سے بھتہ لیتا تھا، نہ اشیائے خورد و نوش میں ملاوٹ کرنے والے مفتی موجود تھے ، نہ اسلحہ بردار تھے اور نہ ہیروئن نے اس پاک خطے کارخ کیا تھا۔مگر پھر حالات بدلتے چلے گئے ،1953میں جمہوریت کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع ہوا اور 1958میں جنرل ایوب خان نے جمہوریت کی بساط الٹ دی۔ جمہوریت جیسی بھی بری بھلی ہو، یہ عوام کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی ہے ، عوامی نمائندے اپنے ووٹروں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں ، مشرقی پاکستان کو کچھ شکایات پہلے ہی سے تھیں حالانکہ یہاں کی لیڈر شپ تحریک پاکستان کے ہر اول دستے میں شامل تھی۔ اس لیڈر شپ کی جگہ ان لوگوں کو آگے لانے کی کوشش کی گئی جن کا عوام سے کوئی تعلق نہ تھا، مگر پھر اس دلخراش کہانی کا اختتام سقوط مشرقی پاکستان کی صورت میں ہوا اور پاکستان کے دو ٹکڑے ہو گئے........پھر جنرل ضیا ءالحق اور پھر جنرل پرویز مشرف........ اور پھر آج کا پاکستان جہاں عوام کے ووٹوں سے اقتدار کسی کو اور اختیار کسی اور کو ملتا ہے، وجود میں آیا۔ میں تاریخ کے اس بدترین موڑ کے حوالے سے اپنی بات یہیں ختم کرتا ہوں اور اب ذرا آگے بڑھتا ہوں!
قائد اعظم ؒ کے پاکستان اور ان کے خواب کی دھجیاں اڑائے جانے کے باوجود پاکستان اس وقت ایک ایٹمی ملک ہے، ہم اپنا بویا ہوا کاٹ بھی رہے ہیں ، مگر اب چٹنی روٹی نہیں کھانا پڑتی ۔ تمام ریاستی اداروں میں لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے لیکن الحمدللہ ایک نئی سوچ بھی پیدا ہو رہی ہے ۔ بے ضمیروں کے ہجوم میں ضمیر کی آواز پر بولنے اور لکھنےوالے دن بدن تعداد میں زیادہ ہو رہے ہیں،یہ ہر قسم کی سختیاں برداشت کرتے ہیں لیکن یہ بضد ہیں کہ وہ قائد اعظم کو ان کا اصل پاکستان لوٹا کر ہی دم لیں گے۔ اب لیفٹ اوررائٹ کی جنگ ختم ہو گئی ہے ۔ اب ضمیر اور بے ضمیری کی جنگ جاری ہے۔ لوگوں کے دل خوف سے بے گانہ ہوتے چلے جا رہے ہیں، بے ضمیروں کا ٹولہ ایک مافیا کی صورت اختیار کر چکا ہے انہیں دنیا کی ہر آسائش مہیا کی جاتی ہے اور ہر طرح کا تحفظ فراہم کیا جاتا ہے مگر پاکستان سے عشق کرنے والے ان آسائشوں کی طرف راغب نہیں ہوتے ،وہ20 کروڑعوام کی آسائشوں کے لئے بے ضمیری کے خلاف برسر پیکار ہیں۔انہیں غدار کہا جاتا ہے ، ملک دشمن کہا جاتا ہے، انڈین ایجنٹ کہا جاتا ہے مگر یہی لوگ محب وطن ہیں اور انڈیا جیسے گھٹیا دشمن کو مات دینے کے لئے جمہوریت ،فرد کی آزادی ، اسلامی نظام مملکت کے قیام اور اپنی بہادر افواج کو عوام کی امنگوں کے محافظ بنانے کے لئے اپنی نخیف سی آواز کو بلندتر کرنے کی کوششوں میں مشغول ہیں۔ ہم سب کو علم ہے کہ انڈیا اب مذہبی جنونیت اور پاکستان دشمنی کے حوالے سے ایک گٹر کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
ہم نے اس سے مشرقی پاکستان کی ہزیمت کا بدلہ بھی چکانا ہے اور اس کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ہم پاکستان کو ترقی کا کوہ ہمالہ بنا دیں........اور ہمارا یہ خواب صاحب ضمیر لوگ ہی پورا کریں گے ، بے ضمیر تو کسی بھی ملک کے سامنے گھٹنوں کے بل ہو سکتے ہیں اگر ان کی زیادہ سے زیادہ بولی لگا دے ....... یہ پاکستان کے دوست نہیں ، یہ صرف اپنے دوست ہیں ۔ پاکستان کے دوست صرف وہی ہیں جو قائد اعظم کو اس کا اصل پاکستان لوٹانے کے لئے اپنے ضمیر کی آواز پر اپنی جانیں بھی قربان کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔پس نوشت: سنجیدہ طبقے سے گذارش ہے کہ وہ میرے اس کالم کو سنجیدہ نہ سمجھیں بلکہ ماخولیہ کالم سمجھ کر نظر انداز کردیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین