• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی تاریخ میں2008-18کارواں اختتام پذیر عشرہ، ہماری آنے والی نسلوں میں ملک کو مسلسل بحرانی کیفیت میں جکڑ کر روایتی سیاسی قوتوں کی گرفت بڑھائے جانے والے اسٹیٹس کو اور رائج ا لوقت متفقہ آئین اور قیام ریاست کے مقصد کے مطابق اسے حقیقی اسلامی جمہوریہ بنانے کی کشمکش کے عشرے کے طور پر زیر مطالعہ رہے گا۔
یہ بنتی ملکی تاریخ، شعور پکڑتی موجود اور ان کے بعد آنے والی نسلوں کو باآسانی باور کرائے گی کہ قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد کیا تھے؟ جنہیں ہم عدم آئین یا حکمرانوں کی من مانی سے ادھورا نفاذ کرکے جمہوری و سیاسی عمل کو کمزور ہی کرتے رہے کیونکہ پاکستان کے قیام کا مقصد وحید تو’’اسلامی جمہوری مملکت‘‘ کا قیام ہی ہے جو 1971میں ملک ٹوٹنے کے بعد بھی فقط ’’متفقہ آئین کی تیاری‘‘ سے تو پورا نہیں ہوا، اس کا اس کی اصل روح کے مطابق مکمل اختیاریت اور اس کی روشنی میں ریاست کے تمام شہریوں پر قانون کا یکساں نفاذ اور انصاف اور مواقع کی فراہمی، وہ مسلسل قومی ضرورت تھی جس سے اسلامی جمہوریہ وجود میں آتی تھی لیکن ہمارے جملہ اقسام کے حکمرانوں نے اس کے خلاف ممکنہ مزاحمت کی۔
اس تاریخی پس منظر میں پاکستان مسلسل سیاسی عدم استحکام میں مبتلا رہتے ہوئے دنیا میں مارشل لائوں، ان کی تشکیل پائی کنٹرولڈ ڈیموکریسی، جعلی عوامی حکومتوں اور اصل فوجی اور کچھ سول حکومتوں کی سرزمین کے طورہی اپنا سیاسی و حکومتی تشخص قائم کرسکا ۔
یہ تاریخی امر اطمینان بخش رہا کہ ریاستی قیام کے اصل مقصد اسلامی جمہوریت سے دور رہتے اور اس میں ملاوٹ کے بعد دولخت ہونے پر بھی سماجی انصاف سے عاری پاکستان ترقی کرتا رہا۔ تقریباً ہر شعبے میں لیکن ہماری ترقی، ترقی جاریہ(Sustainable development)ثابت نہ ہوئی، تاہم کئی شعبوں میں اتنی وسعت اور توانائی آئی کہ یہ کتنی بار اور مسلسل بحران میں رہ کر آج بھی جیسے تیسے اپنی تشویشناک صورت میں قائم ہیں۔
آج پوری قوم ان تلخ حقائق سے بخوبی باخبر ہے کہ ہمارے ابتدائی چند سالوں کے بعد ہر دور اور عشرے کے حکمرانوں نے اس مملکت خداداد کے ساتھ کیا کیا نہیں کیا، اس کے باوجود بنگلہ دیش کا بھارت سے الگ ریاست کے طور قائم رہ کر اب ترقی کرنا اور پاکستان کا ایٹمی اور دنیا کی چھٹی بڑی عسکری طاقت بن جانا ، بین الاقوامی اور علاقائی سیاست میں سرگرم رہنا اور بعض شعبوں میں دنیا میں نام پیدا کرلینا ہمارے یقین کو آج بھی یقین محکم بنائے ہوئے ہے کہ اگر جاری اختتام پذیر عشرے میں اسٹیٹس کو کی حکومت و سیاست پر گرفت کے مقابل ملک کے’’متفقہ دستور (1973)کے مکمل اور قانون کے تمام شہریوں پر یکساں نفاذ‘‘ کی جدوجہد میں کامیاب ہوگئے تو یقیناً ناصرف موجودہ ڈگمگاتی اقتصادی و سیاسی بحرانی کیفیت سے ہمیشہ کے لئے نکل آئیں گے۔ ہماری سیاسی و اقتصادی حیثیت مستحکم ہوجائے گی اور ترقی جو ہو ہو کر ریورس ہوتی(اور کچھ قائم رہتی ہے) ہے ترقی جاریہ میں بدل جائے گی۔
آج ڈیویلپمنٹ سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ ترقیاتی عمل وہی Sustainableرہتا ہے جس کے بینی فشری گراس روٹ کی سطح پر عوام الناس ہوں اور مملکت کے پاس پارٹی سپیٹری اپروچ کا ایسا میکنزم ہو جو(Intended benificaries)کی ترقیاتی عمل میں شرکت کو ممکن بناسکے۔ ہمارا آئین مطلوب میکنزم کے لئے منتخب اور ایمپاورڈ مقامی حکومتوں کے قیام کا تقاضا کرتا ہے، جس سے گلی محلے، گائوں گوٹھ اور قصبے اور شہری کی سطح پر امن عامہ، پینے کے صاف پانی کی سپلائی، کمیونٹی انفراسٹرکچر، بنیادی اسکولنگ، صحت عامہ ، چائلڈ اینڈ وویمن ڈیویلپمنٹ اور نوجوانوں کے لئے کھیل و تفریح کی فطری ضرورتیں ’’بذریعہ کمیونٹی ڈیویلپمنٹ اپروچ‘‘ پوری کرنے کا نظام ہے لیکن ہمارے ہر دور کے سول حکمرانوں منتخب یا نیم جمہوری نے، اس آئینی ضرورت کو خود منتخب ہو کر اور حکمران بن کر دبائے رکھا۔ جاری عشرے کے آخری تین سالوں میں بڑھتے جمہوری شعور کے باعث عدلیہ کے آئینی کردار سے اس آئینی نظام کو انتخابات کی حد تک بحال کرایا بھی گیا تو اسٹیٹس کو کی ماڈل حکومتوں نے بدستور ان کے انتظامی و مالی اختیارات کو غصب کرکے حکومتی قانون سازوں میں ڈیویلپمنٹ فنڈز کی غیر آئینی بندر بانٹ جاری رکھی ہوئی ہے، یہ حربہ ہنوز جاری ہے۔
2008-18کا عشرہ اس لحاظ سے جمہوری ہے کہ اس عشرے میں حکومتی مرضی و منشا اور اقدامات کے بغیر آئینی تقاضوں کو پورا کرنے میں جو وسعت قدرتی راہوں(جیسے پاناما لیکس) اور پاکستان کے سماجی پسماندہ معاشرے کے پوٹینشل طبقات، میڈیا، وکلاء نئی سوچ اور تبدیلی کی حامل جماعتوں کی سرگرمی اور دبائو سے وارد ہوئی اور ہورہی ہے، جن کا زور پکڑتے اسٹیٹس کو میں ہونا ناممکن ہوگیا تھا، وہ ممکن ہوگیا۔ مثلاً اسٹیٹس کو کے زور پر تھانہ کچہری نظام کے بددستور برقراررہنے اور عوام پر ظلم جاری رکھنے کے متوازی اعلیٰ ترین سطح پر آئین کی پاسداری کا راستہ نکل ہی آیا، ڈوگر اور قیومی عدلیہ کے برعکس آج سپریم کورٹ آف پاکستان ملک کے بگڑے حکومتی نظام اور حکمرانوں کے من مانے اختیارات سے آئین کے بگڑے حلیے کو درست کرنے کا اہتمام کررہی ہے۔سب سے بڑھ کر قومی خزانے کی انتہا کی لوٹ مار، کنبہ پروری کی انتہا اور ملوکیت اختیار کرتی جمہوریت سپریم کورٹ پاکستان کے آئینی کردار سے زیر عتاب آگئی۔ ایک وزیر اعظم عدلیہ کی حکم عدولی پر منصب ہی نہیں گنوا بیٹھا، پانچ سال کے لئے نااہل ہوا، دوسرے پر مقدمے بنے، تیسرا وزیر اعظم بیرون ملک غیر معمولی جائیدادوں کا حساب نہ دینے پر نااہل ٹھہرا۔کمال یہ ہے کہ نہ پہلے وزیر اعظم کے بذریعہ عدلیہ انصاف ملنے پر حکومت و پارلیمان ڈگمگائی نہ دوسرے تیسرے کے، حکومت اکثریتی جماعتوں کی ہی برقرار رہی پارلیمان کام کرتی رہی، سینیٹ کا انتخاب وقت پر ہوا۔ اس مرحلے پر بلوچستان سے تازہ دم سیاست کی نمود ہوئی، صوبے کے بزرگ روایتی سیاستدان بھی اپنا پارلیمانی کردار ادا کررہے ہیں۔ نئی قیادت کے ابھرنے پر ان کی تشویش و تنقید کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں۔ کراچی میں خوف کا راج تمام ہوا۔ آج سیاسی پولیس راج بھی ڈگمگارہا ہے اور آئین و قانون پر اسٹیٹس کو کی ضرب کاری’’جعلی پولیس مقابلے‘‘ قانون کی پکڑ میں آگئے۔ سب سے بڑھ کر ٹاپ۔ ڈائون احتساب ممکن ہوا جو اسٹیٹس کو میں ڈائون۔ ڈائون ہی بذریعہ تھانہ کچہری مزاحمتی انداز میں اختتام عشرہ پر تادم تحریر جاری ہے لیکن جتنا ممکن ہوا، اب وہ ہی انشا اللہ الیکشن18کے بعد اسٹیٹس کو کے اس ظالمانہ حربے(سیاسی تھانہ کچہری نظام) کو ختم کردے گا۔ آئین و قانون کی بالادستی کے مقابل’’عوامی عدلیہ‘‘ کا بیانیہ پٹ گیا اور روایتی برسراقتدار آنے والی اور اپنے کرتوتوں سے مدت پوری کئے بغیر ختم ہوجانے والی جماعتوں کا یہ رونا دھونا بھی کہ ہمیں باری پوری نہیں کرنے دی جاتی حالانکہ ہر ایسی باری کے خاتمے پر عوام ہی نہیں حکومت سے باہر اپوزیشن کی خوشی اور مبارک سلامت اپنی جگہ ہماری تاریخ کا مصدقہ حوالہ ہے۔ عشرے کی زیر بحث تمام تر صورتحال واضح کرتی ہے کہ اسٹیٹس کو کی قوتوں کے بےلچک رویے بلکہ نئے غیر جمہوری حربوں کے باوجود آئین و قانون کی بالادستی کی راہیں نکلیں۔ فوج نے دہشت گردی کے خاتمے کا عزم کرتے ہوئے حکومتی امور میںاپنی مداخلت اور حکومت سنبھالنے کی مہم جوئی کی راہیں، اپنی طاقت اعتراف سے خود بند کردیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ زیر بحث عشرہ اسٹیٹس کو کی حکومتیں قائم دائم رہتے ہی ، اختتام پذیر ہے، یوں ان کے لئے گزشتہ عشروں کے برعکس عشرہ جمہوریت ہی ہے اور وہ جو’’آئین کی مکمل اور قانون کے یکساں نفاذ‘‘ کے متمنی ہیں، وہ سمجھیں کہ اس راہ پرچلنے اور آئینی احتسابی عمل کی راہ نکلنے سے ختم ہونے والا عشرہ ملک میں حقیقی جمہوریت کا حقیقی آغاز بھی ہے۔ یوں پاکستان کا مستقبل تابناک ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

 

 

 

 

 

تازہ ترین