• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر سے کسی نے سوال کیا کہ دنیا میں رونما ہونے والے ہر واقعہ میں امریکہ کا نام کیوں آتا ہے؟ ہر چیز کا ذمہ دار اسی کو کیوں ٹھہرایا جاتا ہے؟ ہنری کسنجرمسکرائے اور کہنے لگے کہ امریکہ کا کسی بھی معاملے میں کوئی کردار نہیں ہوتا بلکہ جو چیزیں خود بخود رونما ہورہی ہوتی ہیں ،امریکہ اس میں اپنا کردار پیدا کردیتا ہے۔اسی طرح وطن عزیز میں بھی بہت سے معاملات سے اداروں کا کوئی تعلق نہیں ہوتا مگر بوقت ضرورت یہ اس میں اپنا کردار پیدا کردیتے ہیں۔سانحہ ماڈل ٹاؤن،پانامالیکس،ڈان لیکس سمیت بہت سے واقعات خو د بخود رونما ہوئے مگر اداروں نے اپنی ضرور ت کے مطابق ان میں اپنا کردار پیدا کردیا۔آج انہی کرداروں کی وجہ سے حکمران جماعت اور اداروں کے درمیان فاصلے بڑھتے جارہے ہیں۔سابق وزیراعظم نوازشریف نے عام انتخابات کی بھرپور تیاری کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مرضی کے عسکری سربراہ لگائے۔ذاتی دوستوں کی رائے کو ترجیح دیتے ہوئے انٹیلی جنس چیف کی تعیناتی کے حوالے سے اپنا کردار بھرپور استعمال کیا اور من پسند افسر کو ادارے کا سربراہ لگوایا۔مگر کوئی کچھ نہ کرسکا اور تخت سے تختہ ہوگیا۔ہمیشہ سویلین بالادستی اور جمہوریت کی مضبوطی کا داعی ہوں مگر آج چند تلخ حقائق کو قارئین کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں ۔جن کی وجہ سے معاملات یہاں تک پہنچے ہیں۔
سابق وزیراعظم نوازشریف سول عسکری تعلقات کے حوالے سے موقف رکھتے ہیں کہ جتنا برداشت انہوں نے حالیہ چار سالوں کے دوران کیا ہے ۔اتنا پورے سیاسی کیر ئیر کے دوران نہیں کیا۔پاناما کیس میں یقین دہانی کے باوجود نااہلی ملی ،اس لئے مزید اعتماد کرنا اور برداشت کرنا ممکن نہیں تھا۔مگر میں گزشتہ سالوں کو ایک طرف رکھ کر حالیہ تعیناتیوں کے بعد کی غلطیاں بیان کرنا چاہتا ہوں۔سویلین بالادستی پر سمجھوتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر حالات کے مطابق چلنے میں ہی عافیت ہوتی ہے۔عسکری عہدوں پر تعیناتی میں پہلی مرتبہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور دیگر غیر سیاسی لوگوں سے مشاورت کی گئی۔راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان کوئی ایک بھی گارنٹر ایسا نہیں تھا ،جو دونوں کو نیوٹرل مقام پر لے جاکر بات کو آگے بڑھا سکتا۔نومبر2016میں ہونے والی اہم عہدے پر تعیناتیوں کا مجھے چھ ماہ قبل علم تھا۔جس کا تذکرہ میں نے دو سینئر بیوروکریٹ دوستوں اور ایک سینئر صحافی سے کیا تھا۔موقع ملا تو ان کے نام بھی کبھی ضرور لکھوں گا۔بہرحال حالیہ قیادت سے حکمران جماعت کے تعلقات پہلے دن سے ہی بگڑنا شروع ہوگئے تھے۔مجھے سمجھ نہیں آتی ہے وہ کون سے مشیر ہیں جو چند عہدوں کے لئے غلط مشورے دیتے ہیں اور اچھے بھلے بندے کو آپ سے متنفر کردیتے ہیں۔تعیناتی کی پہلی شام جو تصویر اور ویڈیو جاری کی گئی۔مجھے اسی دن بو آگئی تھی کہ معاملات زیادہ چلنے والے نہیں ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے کہ ایک شخص کو آپ اپنی مرضی سے چن کر لگا رہے ہیں۔اسے تو مزید عزت دیں اور ایسی تصاویر جاری کریں ،جس سے اس کے ادارے میں تاثر جائے کہ ہمارے باوری سربراہ کی منتخب وزیراعظم سے برابری کی سطح پر ملاقات ہوتی ہے۔جو لوگ سول عسکری تعلقات اور معاملات حکومت سے تھوڑا سا بھی واقف ہیں۔وہ یہ جانتے ہونگے کہ آرمی چیف جتنا بھی مضبوط اور سخت ہو۔جب وزیراعظم سے ملتا ہے تو بے پناہ عزت اور ادب سے بات کرتا ہے۔آرمی چیف کو غیر معمولی عزت دینے سے وزیراعظم کا منصب کم نہیں ہوتا البتہ باہمی محبت ضرور بڑھتی ہے۔دلیل دی جاتی ہے کہ دیگر افسران اوراداروں کے سربراہ کی طرح عسکری سربراہ بھی وزیراعظم کو جوابدہ ہوتے ہیں اور وزیراعظم کو انہیں ایسے ٹریٹ کرنا چاہئے جیسا وزیراعظم دیگر اداروں کے سربراہ اور وفاقی سیکرٹریز کو کرتے ہیں۔کتابوں اور فلسفوں تک تو یہ بات ٹھیک ہے مگر پاکستان جیسے ملک میں کم از کم آئندہ 20سال یہ ممکن نہیں ہے۔ہماری جغرافیائی صورتحال اور جمہوریت کا تسلسل نہ ہونااداروں کی اہمیت بڑھا دیتا ہے۔بدقسمتی سے گزشتہ 70سالوں کے دوران سیاستدانوں کے غیر جمہوری رویے نے عوام کا جمہوریت سے اعتما د اٹھانے میں اہم کردار ادا کیا۔عوام کو ایسا کچھ نہیں ملا ،جس کے بعد عوام سیاستدانوں پر اعتماد کرتے اور ان کے حق میں سڑکوں پر نکل کر لڑتے۔بلکہ برصغیر کے عوام کی تو کبھی مزاحمتی تاریخ ہی نہیں رہی۔سکندر اعظم سے لے کر محمد بن قاسم تک اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد تک ۔ہم نے ہر طاقتور کو خوش آمدید کہا ہے۔جب کہ ترک قوم کی ایک ہزار سالہ تاریخ مزاحمت سے بھری پڑی ہے۔اس لئے کسی کا سرخ منہ دیکھ کر اپنا منہ تھپڑ مار کر سرخ نہیں کیا جاتا۔بہرحال پھر معاملہ ڈان لیکس کے ٹوئٹس کا آیا۔جس دن سے ٹوئٹ واپس لیا گیا ،اسی دن سے معاملات بند گلی میں داخل ہونا شروع ہوئے۔جو لوگ ٹوئٹ کی واپسی کو ہزاروں سال یاد رکھنا قرار دے رہے تھے۔آج وہ کہاں ہیں؟ ۔ٹوئٹ واپسی کے بعد عسکری سربراہ کے لئے ادارے کی سوچ کے خلاف چلنا مشکل ہوگیا تھا۔اسی طرح معیشت کے حوالے سے بھی بہت سی سفارشات کو ڈار صاحب نے نظر انداز کیا۔سی پیک کے حوالے سے سخت موقف اپنا یا گیا۔فوج بڑا ادارہ ہے۔سویلین اداروں کو مل جل کر کردار بانٹنا چاہئے تھا۔مگر مشورہ دیا گیا کہ یہ سیاسی حکومت کا کریڈٹ ہے۔عسکری اداروں کا ایک حد سے زیادہ کردار نہیں ہوگا۔بہر حال آج وہ کریڈٹ کہا ںگیا۔مجھے یاد ہے کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی پرنسپل سیکرٹری نرگس سیٹھی کو سیکرٹر ی دفاع کا بھی اضافی چارج دیا ہوا تھا۔اس کا مقصد یہی تھا کہ پنڈی اور اسلام آباد میں فاصلے کم کئے جاسکیں۔راولپنڈی کے90فیصد کام تو نرگس سیٹھی نپٹا دیا کرتی تھیں۔مگر اس مرتبہ ہمارے کچھ بیوروکریٹ دوستوں نے معاملات مزید پیچیدہ کرنے میں کردار ادا کیا۔
آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی تعریف کرنی چاہئےکہ وہ جمہوریت کے حامی اور اداروں کی مضبوطی کے قائل ہیں۔مگر حکمران جماعت کے کچھ لوگوں نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو ایسے مشورے نہیں دئیے ۔جس سے حالات بہتر ہوں بلکہ مزاحمتی سیاست کے نام پر تخت سے تختہ کردیا۔آندھی تیز ہو تو بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔مفاہمت اور اداروں سے بات چیت پر آج راضی ہوا جارہا ہے۔اگر یہی کام چند ماہ پہلے ہوجاتا تو حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔ایسے راستے کا کیا فائدہ جس پر لمبے عرصے تک چلنا ممکن نہ ہو۔آج ملکی معیشت اور حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔پاکستان کا کیا ہوگا؟ غریب لوگوں کا کیا بنے گا؟ آج مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی اولین ذمہ داری ہے کہ پاکستان کی خاطر اداروں سے بات چیت کریں۔جھکا ہوا درخت ہی پھل دار ہوتا ہے۔شہباز شریف اس وقت واحد شخص ہے جو پاکستان کو اس گرداب سے نکال سکتا ہے۔لیکن اگر آج بھی شہباز شریف نے Statesman والا کردار ادا نہ کیا تو شاید تاریخ کبھی بھی معاف نہ کرے۔یہ سب ہمارے اپنے ادارے ہیں،بس کچھ غلط فہمیوں کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی ضد اور انائیں آڑے آئی ہوئی ہیں۔جو فریق بھی پہل کرتے ہوئے ان اناؤں کو وطن پر قربان کرے گا ،تاریخ میں وہی مینڈیلا، ڈیسمن ٹوٹواورچو این لائی کے ساتھ کھڑا ہوگا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین