• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جی، آج بھی سیاست سے کنارا کشی کی ہے، یہ تو آپ دن رات ٹی وی پر دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ میں آپ کی خدمت میں چند معلوماتی مفید باتیں پیش کروں جو ہمارے لئے اور ہماری نوجوان نسل کیلئے بھی مشعل راہ ہو۔
1۔ آئیے سب سے پہلے ہمارے مرحوم، نہایت قابل سول سرونٹ اور نہایت اعلیٰ ادیب و مصنف قدرت اللہ شہاب کی تصنیف ’’شہاب نامہ‘‘ میں بیان کردہ ایک واقعہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ پہلے یہ عرض کرتا چلوں کہ میں اگست 1961 ءمیں اعلیٰ تعلیم کیلئے برلن کی مشہور ٹیکنیکل یونیورسٹی میں داخلہ لے کر چلا گیا تھا۔ اس سے پیشتر میں نے کراچی (ڈی جے سندھ گورنمنٹ کالج) سے بی ایس سی کرکے تین سال سرکاری ملازمت بطور انسپکٹر اوزان و پیمانا جات کی تھی۔ نوکری سے دل بھر گیا اور اعلیٰ تعلیم کا شوق پیدا ہوا تو جرمنی کو انگلستان پر ترجیح دی۔ حالانکہ یہ فیصلہ چند ماہ بہت ہی مہنگا پڑا تھا کہ نہ زبان آتی تھی، نا وہاں انگریزی پروگرام، نا آجکل کی موبائل سہولت، تنہائی نے سخت پریشان کردیا تھا۔ وہاں سے ستمبر 1963 میں اپنی ڈچ منگیتر (اور 54 سال سے موجودہ بیگم) کی وجہ سے ہالینڈ میں ڈیلفٹ کی ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں منتقل ہوگیا۔ کراچی میں قیام کے دوران ایوب خان کا مارشل لا دیکھا تھا اور اکثر وزیروں کے ناموں سے واقف تھا مگر سول سرونٹس سے واقفیت نہ تھی۔ جب ہم ہیگ (ہالینڈ) چلے گئے تو وہاں ہماری شناسائی جناب قدرت اللہ شہاب صاحب سفیر، اور جناب جمیل الدین حسن صاحب فرسٹ سیکریٹری (یا منسٹر) سے ہوگئی۔ 9 مارچ 1964 کو ہماری شادی طے پاگئی۔ جمیل الدین حسن اور قدرت اللہ شہاب صاحب نے آفر کی کہ ہمارا نکاح سفارت خانے میں ادا کیا جائے اور انہوں نے اس کے بعد استقبالیہ بھی دیا۔ میری بیگم فیروزی رنگ کی ساڑھی میں تھیں اور میں چارکول سوٹ میں، یہ ساڑھی میری چھوٹی بہن رضیہ نے خاص طور پر کراچی سے بھجوائی تھی۔
جب تک یہ دونوں نہایت پرخلوص و قابل افسران وہاں رہے ہمارا تعلق رہا۔ 1967میں ماسٹرز کی ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کرکے میں بین الاقوامی شہرت یافتہ پروفیسر ڈاکٹر برگرس کا ریسرچ اسسٹنٹ بن گیا تھا اور اس وقت مجھے لیوون ( بلجیم) کی یونیورسٹی سے Ph.D کی فیلوشپ مل گئی تھی وہاں جانے سے پہلے ہم دونوں نے سوچا کہ کراچی آکر سب سے مل لیں۔ میرے بہن بھائی اور والدہ میری بیگم سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ ہم نے پھر پورے مغربی پاکستان (کوئٹہ، لاہور، پنڈی، پشاور، لنڈی کوتل، سوات، نتھیا گلی، مری، ایبٹ آباد وغیرہ) کا دورہ کیا۔ پنڈی میں ہم ہوٹل میںٹھہرے اور ٹیکسی لے کر وزارت تعلیم گئے جہاں شہاب الدین صاحب وفاقی سیکرٹری تھے وہ مل کر بے حد خوش ہوئے خاص طور پر یہ جان کرکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہوں۔ پھر ہم جمیل الدین حسن صاحب سے کوہسار مارکیٹ کے قریب سرکاری مکان میں ملے وہ بھی بے حد خوش ہوئے۔ اس دورے میں مجھے موقع ملا کہ بیگم کو بھوپال، آگرہ اور دہلی بھی دکھادوں، یہ دورہ ہمارا بہت دلچسپ اور یادگاری رہا۔
میں عرض کررہا تھا کہ قدرت اللہ شہاب صاحب ایک اعلیٰ ادیب اور مصنف بھی تھے۔ شہاب نامہ ایک سوانح حیات ہی نہیں تاریخ ہے اور بہت اہم وقت کی۔ اس شہاب نامہ سے آپ کی خدمت میں ایک نہایت سبق آموز اور ہماری بچی کھچی تہذیب و کردار و اخلاق کا واقعہ بیان کرتا ہوں۔ ضلع جھنگ کے ایک سابق ڈپٹی کمشنر قدرت اللہ شہاب اپنی آپ بیتی ’’شہاب نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں: ایک روز جھنگ کے ایک پرائمری اسکول کا استاد رحمت الٰہی میرے دفتر میں آیا۔ وہ چند ماہ کے بعد ملازمت سے ریٹائر ہونے والا تھا۔ اس کی تین جوان بیٹیاں تھیں‘ رہنے کیلئے اپنا گھر بھی نہ تھا۔ پنشن نہایت معمولی ہوگی، اسے یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کہاں رہے گا۔ لڑکیوں کی شادیاں کس طرح ہوں گی،کھانے پینے کا خرچ کیسے چلے گا۔ اس نے مجھے سرگوشی میں بتلایا کہ پریشانی کے عالم میں وہ کئی ماہ سے تہجد میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فریادیں کرتا رہا ہے۔ چند روز قبل اسے خواب میں حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی جس میں حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم جھنگ جا کر ڈپٹی کمشنر کو اپنی مشکل بتائو، اللہ تمہاری مدد کرے گا۔ پہلے تو مجھے شک ہوا کہ یہ شخص جھوٹا خواب سنا کر مجھے جذبانی طور پر بلیک میل کرنے کی کوشش کررہا ہے میرے چہرے پر شک اور تذبذب کے آثار دیکھ کر رحمت الٰہی آبدیدہ ہوگیا اور بولا جناب میں جھوٹ نہیں بول رہا، اگر جھوٹ بولتا تو شاید خدا کے نام پر تو بول لیتا لیکن حضور نبی کریم ﷺ کے نام پر کیسے جھوٹ بول سکتا ہوں، اس کی اس منطق پر میں نے حیرانی کا اظہار کیا کہ آپ نے سنا نہیں کہ ’’باخدا دیوانہ و با مصطفی ہشیار باش‘‘ یہ سن کر میرا شک پوری طرح رفع تو نہ ہوا لیکن سوچا کہ اگر یہ شخص غلط بیانی سے بھی کام لے رہا ہے تو ایسی عظیم ہستی کے اسم مبارک کا سہارا لے رہا ہے جس کی لاج رکھنا ہم سب کا فرض ہے۔ چنانچہ میں نے رحمت الٰہی کو تین ہفتوں کے بعد دوبارہ آنے کیلئے کہا۔ اس دوران میں نے خفیہ طور پر اس کے ذاتی حالات کا کھوج لگایا اور یہ تصدیق ہوگئی کہ وہ اپنے علاقے میں نہایت سچا،پاکیزہ اور پابند صوم و صلوٰۃ آدمی مشہور ہے اور اس کے گھریلو حالات بھی وہی ہیں جو اس نے بیان کئے تھے۔ اس زمانے میں کچھ عرصے کیلئے صوبائی حکومت نے ڈپٹی کمشنروں کو یہ اختیار دے رکھا تھا کہ سرکاری بنجر زمین کے آٹھ مربع تک ایسے خواہش مندوں کو طویل میعاد پر دے سکتے تھے جو انہیں آباد کرنے کیلئے آمادہ ہوں۔ میں نے اپنے مال افسر غلام عباس کو بلا کر کہا کہ وہ کسی مناسب جگہ کرائون لینڈ کے ایسے آٹھ مربع تلاش کرے جنہیں جلد از جلد کاشت کرنے میں کوئی خاص دشواری پیش نہ آئے۔ مال افسر نے غالباً یہ سمجھا کہ شاید یہ اراضی میں اپنے کسی عزیز کو دینا چاہتا ہوں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پکی سڑک کے قریب نیم آباد سی زمین ڈھونڈھ نکالی اور رحمت الٰہی کے نام الاٹمنٹ کی ضروری کارروائی کرکے سارے کاغذات میرے حوالے کردیئے۔ دوسری پیشی پر جب رحمت الٰہی حاضر ہوا تو میں نے یہ نذرانہ اس کی خدمت میں پیش کرکے اسے مال افسر کے حوالے کردیا کہ یہ قبضہ وغیرہ دلوانے اور باقی ساری ضروریات پوری کرنے میں اس کی مدد کرے۔ تقریباً 9 برس بعد میں کراچی میں فیلڈ مارشل جنرل ایوب کے ساتھ کام کررہا تھا کہ ایوان صدر میں میرے نام ایک رجسٹرڈ خط موصول ہوا (اس زمانے میں پاکستان کا صدر مقام اسلام آباد کے بجائے کراچی تھا)۔ یہ ماسٹر رحمت الٰہی کی جانب سے تھا کہ اس زمین پر محنت کرکے اس نے تینوں بیٹیوں کی شادی کردی ہے اور وہ اپنے اپنے گھروں میں خوش و خرم آباد ہیں۔ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ فریضہ حج بھی ادا کرلیا ہے، اپنے گزارے اور رہائش کیلئے تھوڑی سی ذاتی زمین خریدنے کے علاوہ ایک کچا کوٹھا بھی تعمیر کرلیا ہے۔ اسی خوشحالی میں اب اسے آٹھ مربعوں کی ضرورت نہیں، چنانچہ اس الاٹمنٹ کے مکمل کاغذات اس خط کے ساتھ واپس ارسال ہیں تاکہ کسی اور حاجت مند کی ضرورت پوری کی جاسکے۔ یہ خط پڑھ کر میں کچھ دیر کیلئے سکتے میں آگیا، میں اس طرح گم سم بیٹھا تھا کہ صدر پاکستان کوئی بات کرنے کیلئے میرے کمرے میں آگئے ’’کس سوچ میں گم ہو‘‘ انہوں نے حالت بھانپ کر پوچھا،میں نے انہیں رحمت الٰہی کا سارا واقعہ سنایا تو وہ بھی نہایت حیران ہوئے،کچھ دیر خاموشی طاری رہی پھر وہ اچانک بولے۔ تم نے بہت نیک کام سر انجام دیا ہے۔ میں گورنر کو لاہور ٹیلیفون کر دیتا ہوں کہ وہ یہ اراضی اب تمہارے نام کردیں، میں نے نہایت لجاحت سے گزارش کی کہ میں اس انعام کا مستحق نہیں ہوں یہ سن کر صدر پاکستان بولے کہ تمہیں زرعی اراضی حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ’’جی نہیں سر‘‘ میں نے  التجا کی۔ ’آخر میں فقط دو گز زمین ہی قبر کیلئے کام آتی ہے‘ وہ کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی طرح سے مل ہی جاتی ہے۔
قارئین ! اس واقعہ کے پانچوں کردار آج ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن جھنگ کے ایک پرائمری ٹیچر رحمت الٰہی کا کردار ہم سب کیلئے منارہ نور ہے۔ منقول (شہاب نامہ قدرت اللہ شہاب رحمہ اللہ)۔2۔ایک اور نہایت اہم پیغام ہمارے بھوپال کے سابق وزیر اعظم اور پھر ہندوستان کے 1992 سے 1997 تک صدر رہنے والے جناب ڈاکٹر پنڈت شنکردیال شرما کا ہے۔ یہ اردو، فارسی کے ماہر تھے اور ہردلعزیز وزیر اعظم تھے۔ ذرا پڑھئے اور سردھنئے! یہ نظم انہوں نے تقریباً 35 سال پیشتر کہی تھی اور یہ قرآن و مسلمان کیلئے ہے۔
عمل کی کتاب تھی ۔ دُعا کی کتاب بنا دیا
سمجھنے کی کتاب تھی ۔ پڑھنے کی کتاب بنا دیا
زندوں کا دستور تھی ۔ مُردوں کا منشور بنا دیا
جو علم کی کتاب تھی ۔ لاعلموں کے ہاتھ تھما دیا
تسخیر کائنات کا درس دینے آئی تھی ۔ صرف مدرسوں کا نصاب بنا دیا
مُردہ قوموں کو زندہ کرنے آئی تھی ۔ مُردوں کی بخشش پر لگا دیا
اے مُسلمانوں ! یہ تم نے کیا کیا؟

تازہ ترین