• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ حکومت کی مدت مئی 18ء کے آخری ہفتے میں ختم ہورہی ہے اور اس سے پہلے حکومت اپنا چھٹا بجٹ پیش کرنے جارہی ہے۔ موجودہ حالات میں ملکی معیشت کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے، کرنٹ اکائونٹ خسارہ 50 فیصد بڑھ کر 10.82 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور اُمید ہے کہ جون 2018ء تک کرنٹ اکائونٹ خسارہ 12.2 ارب ڈالر یعنی جی ڈی پی کا 6.3 فیصد تک ہوجائے گا جو آئی ایم ایف کے مطابق ہدف سے 2 فیصد زیادہ ہے۔ گزشتہ 8مہینوں (جولائی سے فروری18) میں ملکی امپورٹس 42.6ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جبکہ اس عرصے میں ایکسپورٹس 19.4 ارب ڈالر تک رہیں اور حکومت کو 23.2 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا ہے جو جون 2018ء تک 30ارب سے زیادہ ہوسکتا ہے۔
بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں اور تجارتی خسارے کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 12 ارب ڈالر سے کم رہ گئے ہیں اور دبائو کی وجہ سے ایک دن میں پاکستانی روپیہ تقریباً 5 فیصد ڈی ویلیو ایشن کے بعد انٹربینک مارکیٹ میں 115 روپے کی نچلی ترین سطح پر آگیا جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 116.25 پر فروخت ہورہا تھا۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال8 دسمبر کو بھی روپے کی قدر میں تقریباً 5 فیصد کمی آئی تھی اور اس طرح گزشتہ 3 سے 4 ماہ میں روپے کی قدر میں مجموعی 10 فیصد کمی ہوئی۔ ڈالر کی قدر بڑھنے سے پاکستان کے 89 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں میں 10 فیصد اضافہ یعنی تقریباً 900 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ اس موقع پر وزیر مملکت خزانہ رانا محمد افضل کا کہنا ہے کہ حکومت روپے اور ڈالر کی قدر پر کنٹرول نہیں کرسکتی کیونکہ اس تعین ریٹ کا تعین مارکیٹ قوتیں اور ڈالر کی طلب و رسد کرتی ہے۔ آج روپیہ تاریخ کی کم ترین سطح 115.50 روپے فی امریکی ڈالر پر پہنچ گیا ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارے اور بھاری درآمدی بلوں کی ادائیگی کے نتیجے میں حکومت کو ہر ہفتے 200 سے 300 ملین ڈالر کی ادائیگی کرنا پڑرہی ہے جس کا دبائو روپے کی قدر پر پڑرہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ روپے کی قیمت میں کمی عالمی مالیاتی اداروںسے قرضوں کی ادائیگی کیلئے کئے گئے وعدے ہیں کی گئی ہے، آئی ایم ایف کے مطابق ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قیمت اب بھی زیادہ ہے اور اس کا اصل لیول 120 سے 125 روپے ہے۔ فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان ہوتی کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف کے کہنے پر ہتھیار پھینک دیئے ہیں اور اسٹیٹ بینک نے اعلان کئے بغیر روپے کی سپورٹ ختم کرکے روپے کی قدر گرنے دی جبکہ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے روپے کی گرتی ہوئی قدر کو ریکارڈ کرنٹ اکائونٹ اور تجارتی خسارہ بتایا ہے۔ قرضوں کی حد کے قانون (Fiscal Responsibility Debt Limitation Act 2005) کے تحت حکومت جی ڈی پی کا 60 فیصد سے زیادہ قرضے نہیں لے سکتی لیکن ہمارے قرضے اس حد سے تجاوز کرگئے ہیں۔ موجودہ حکومت نے قرضوں کے علاوہ گلوبل کیپٹل مارکیٹ میں 2 بلین ڈالر کے یورو بانڈ اور 2.5 بلین ڈالر کے سکوک بانڈز بھی جاری کئے ہیں جن کی ادائیگیاں 2017، 2019ء، 2025ء اور 2036ء میں کرنا ہیں۔حکومت کو 2022ء تک تقریباً 5 ارب ڈالر سالانہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے جبکہ اس سال 2017-18ء میں 6 ارب ڈالر قرضوں کی ادائیگیاں ہیں جس میں سے 2.4 ارب ڈالر کی ادائیگی کردی گئی ہے اور مزید 3.6 ارب ڈالر کی ادائیگی جون 2018ء تک کرنی ہے۔ گزشتہ سال ایف بی آر کے 3500 ارب روپے کے ریونیو وصولی میں سے 1482 ارب روپے (42.36 فیصد)قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلے گئے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور ہمارا زیادہ تر ریونیو اور وسائل قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں۔ملکی بیرونی ذخائر مستحکم رکھنے کیلئے حکومت پاکستانیوں کے غیر ملکی اثاثے ملک میں لانے اور ڈکلیئر کرنے کی ایک نئی ایمنسٹی اسکیم (FADS)لارہی ہے۔ یہ اسکیم پرائیویٹ سیکٹر اور بزنس مینوں کیلئے ہے،جس میں پارلیمنٹرینز، بیورو کریٹس، ججز اور سرکاری ملازمین حصہ نہیں لے سکتے۔
بیرونی اثاثوں کو ظاہر کرنے کیلئے یہ پہلی حکومتی اسکیم ان پاکستانی بزنس مینوں کیلئے ہے جنہوں نے ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث اپنے اثاثے بیرون ملک منتقل کردیئے تھے اور اب امن و امان کی بہتر صورتحال کے باعث سرمایہ کاری کیلئے وہ ان اثاثوں کو 2 سے 5 فیصد ٹیکس جرمانہ ادا کرکے اپنے ملک میں واپس لانا یا انکم ٹیکس میں ڈکلیئر کرنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی ہارون اختر کے مطابق اس اسکیم سے حکومت کو 4 سے 5 ارب ڈالر حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے سے ٹیکس کی ایک خطیر رقم بھی حاصل ہوگی۔
وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے روپے کی قدر کم ہونے کو خوش آئند قرار دیا ہے کیونکہ اس سے ملکی ایکسپورٹس میں اضافہ ہوگا لیکن میری ناقص رائے میں ڈالر اور دیگر بیرونی کرنسیوں کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی سے افراط زر اور مہنگائی میں اضافہ ہوگا، ہماری پیٹرولیم مصنوعات اور دیگر خام مال جو ہم ایکسپورٹ کیلئے منگواتے ہیں، ڈالر مہنگا ہوجانے کی وجہ سے مہنگے ہوجائیں گے، جس کا ایکسپورٹرز کو فائدہ اور امپورٹر کو نقصان ہوگا۔ گزشتہ چند مہینوں میں ڈالر کی قدر میں تقریباً 10 فیصد اضافے سے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں بڑھ جائیں گی جو قومی خزانے پر ایک اضافی بوجھ ہوگا۔ افراط زر یعنی مہنگائی میں اضافے کو روکنے کیلئے اسٹیٹ بینک ڈسکائونٹ ریٹ میں اضافہ کرے گا جس سے بینکوں کے قرضوں کی سود کی شرح میں اضافہ ہوگا اور پرائیویٹ سیکٹر کی مالی لاگت بڑھ جائے گی جو ملکی گروتھ کو متاثر کرے گی۔ بیرونی سرمایہ کار ایک عرصے سے روپے کی ڈی ویلیو ایشن کے منتظر تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم کی جائے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 115 پہنچنے پر بیرونی سرمایہ کاروں نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بھاری سرمایہ کاری کی جس سے پی ایس ایکس انڈیکس 45,000 کی حد عبور کرگیا۔
معیشت کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے میری یہ رائے ہے کہ روپے کی 6 سے 8 مہینے تک مزید ڈی ویلیو ایشن ملکی معیشت کے مفاد میں نہیں۔ وزیراعظم کے مشیر خزانہ کے مطابق 115 روپے ڈالر کی صحیح مارکیٹ ویلیو ہے اور اب ملکی برآمدات میں اضافہ، درآمدات اور کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی ہوگی اور ہم6 فیصد گروتھ کا ہدف حاصل کرلیں گے۔ان حالات میں میرے نزدیک قرضوں کی بھاری ادائیگی، کرنٹ اکائونٹ اور تجارتی خسارے میں ریکارڈ اضافہ، زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں کمی، خسارے میں چلنے والے قومی اداروں اسٹیل ملز، پی آئی اے اور واپڈا کے تقریباً 500 ارب روپے سالانہ کے نقصانات، 900 ارب روپے کے گردشی قرضے، 160 ارب روپے کے ایکسپورٹرز کے ریفنڈ کی عدم ادائیگیاں موجودہ حکومت کے معیشت کو درپیش وہ گمبھیر چیلنجز ہیں جن سے چند مہینوں میں نکلنا نہایت مشکل نظر آتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین