• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پرویز مشرف صاحب! پلیزواپس نہ آئیں

خواہش تو تھی کہ نقیب اللہ محسود جیسے بے گناہ نوجوانوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں مارنے والے رائو انوار کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے مگر یہ سفاک قاتل جس کروفر اور طمطراق سے سپریم کورٹ میں پیش ہوا ،وہ مناظر دیکھنے کے بعد دل سے اِک ہوک سی اٹھتی ہے، کاش وہ مفرور اور روپوش ہی رہتا ، کم ازکم قانون کی حکمرانی کا بھرم تو نہ ٹوٹتا ۔ ایک رائو انوار نے پوری ریاست کو ننگا کر دیا ۔اور اب سنتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی کی رہی سہی خوش فہمی دور کرنے کیلئے پرویز مشرف تشریف لانے اور عدالتوں کا سامنا کرنے کوتیار بیٹھے ہیں ۔جانے کیوں ہمارے اذہان و قلوب سے یہ خناس نہیں جاتا کہ یہ دھرتی ایک دن ضرور دھڑ دھڑ دھڑکے گی ، بجلی کڑ کڑ کڑکے گی اور ہم دیکھیں گے ۔تکلف برطرف ،اب تو دیکھتے دیکھتے آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔
آپ نے بھلے نہ دیکھا ہو مگر پوری دنیا نے دیکھا کہ ہم نے ایوب خان کو پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیا،ہم نے یحییٰ خان کی بے توقیری نہیں کی،ہم نے ضیا الحق کو سینے سے لگا کر رکھا تو کسی نے یہ سوچ کیسے لیا کہ پرویز مشرف کو نشان عبرت بنا دیا جائے گا؟جوش نہیں ہوش سے کام لیں تو پتہ چلے کہ ہم گوروں کی طرح کم ظرف نہیں جنہوں نے شعور بیدار ہونے پر کرام ویل کی ہڈیاں قبر سے نکال کر اس کا ٹرائل کیایا پھر شاہ چارلس اول کو تختہ دار پر لٹکادیا۔ہم تو وضعدار اور بامروت لوگ ہیں۔ہم رومانویوں کی طرح منتقم مزاج اور سنگدل بھی نہیں جنہوں نے اپنے ڈکٹیٹر نکولی چائو شسکو کو مختصر ٹرائل کے بعد فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے گولیوں سے بھون ڈالا۔ہم ایرانیوں کی طرح پتھر دل بھی نہیں جنہوں نے رضا شاہ پہلوی کو مرنے کے بعد بھی وطن واپس آنے کی اجازت نہ دی۔ہم فرانسیسیوں جیسے جلاد صفت بھی نہیں جنہوں نے شاہ لوئی ششم کو گلوٹین سے مار ڈالا۔ہم روسیوں کے مثل بے رحم بھی نہیں جنہوں نے زار نکولس دوئم کو پھانسی دیدی۔چاڈ کے ڈکٹیٹر حسینی ہبرے گزشتہ سترہ برس سے سینیگال میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ان کو وطن واپس لانے کی کوششیں بار آور ثابت نہ ہوئیں تو چاڈ کی عدالت نے غیر حاضر ی میں ہی موت کی سزاسنا دی۔مالی کے ڈکٹیٹر جنرل موسیٰ تروڑا کو منتخب حکومت کا تختہ الٹنے پر حراست میں لیا گیا تو عدالت نے 12ہفتے میں مقدمے کی سماعت مکمل کر کے سزائے موت سنا دی۔یونان کے ڈکٹیٹر جارج پاپڈوپولس کو دو برس قبل سزا سنائی گئی۔ترکی میں فوجی بغاوت سے پہلے جب سے رجب طیب اردوان نے اقتدار سنبھالا ،کم از کم 20جرنیلوں سمیت 50سے زائد فوجی افسروں کو حکومت مخالف سرگرمیوں پر جیل بھیجا جا چکا تھا اور بغاوت کے بعد تو ان کو ان کی اوقات یاد کرادی گئی ہے۔ لیکن یہ سب غیر مہذب اور بد تہذیب اقوام ہیں۔ انہیں انسانیت کی کوئی قدر ہے ناں وردی کی توقیر و عظمت کا کوئی احساس۔ انکے برعکس ہم پاکستانی اپنی مثال آپ ہیں۔ہم نے تو ایوب خان کے فرزند گوہر ایوب،انکے پوتے عمر ایوب، ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق،جنرل اختر عبدالرحمان کے صاحبزادگان ہمایوں اختر خان اورہارون اختر کو آج تک سر آنکھوں پر بٹھا رکھا ہے۔وہ اور ہی تھے کم ظرف جنہوں نے عدم موجودگی میں سزائیں سنائیں۔ ہم نے تو اپنے ہر دلعزیز ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو ان کی عدم موجودگی میں باعزت بری کر دیا۔ کوئٹہ کی خصوصی عدالت جس میں پرویز مشرف کیخلاف اکبر بگٹی قتل کیس کی سماعت ہو رہی تھی،باربار نوٹس جاری کرنے کے باوجود پرویز مشرف حاضر نہ ہوئے تو انہیں باعزت بری کر دیا گیا۔اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت جس میں لال مسجد کیس کی سماعت ہو رہی تھی اسکی طرف سے متعدد مرتبہ وارنٹ جاری کئے گئے، حکومت کو کہا گیا کہ ملزم کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے مگر جنرل پرویز مشرف ایک بار آنے اور جھلک دکھانے پر بھی آمادہ نہ ہوئے۔وہ خصوصی عدالت جس میں غداری کے مقدمے کی سماعت التوا کا شکار ہے، اس میں بھی خاصی منت سماجت کے بعد صرف ایک مرتبہ تشریف لائے ۔اور پھر ای سی ایل سے نام ہٹا کر حیلے بہانے سے انہیںملک سے باہر بھیجا گیا تاکہ کم از کم قانون کا بھرم تو باقی رہے ۔
آپ شکریہ راحیل شریف کہیں یا پھر پرویز مشرف کو دعائیں دیں کہ انہوں نے ـ’’دردِ کمر‘‘ کا بہانہ کرکے ہمارے نظام عدل کی لاچارگی و بے بسی پر پردہ ڈالے رکھا ۔ورنہ وہ بیرون ملک نہ جاتے اور جنرل (ر) حمید گل کی طرح للکار للکار کر کہتے رہتے کہ کرو میرا کورٹ مارشل ،تو بھی ہم کیا کر لیتے ؟اب بھی وقت ہے کسی سیانے آدمی کے ہاتھ پرویز مشرف کو عرضی بھیجیں کہ جہاں پناہ! آپ کو واپس آکر یہ ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ عروجِ آدم خاکی سے سویلین سہمے جاتے ہیں ؟ یہ لولا لنگڑا جمہوری نظام آپکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا یہ بات سب جانتے ہی نہیں مانتے بھی ہیں مگر واپس آنے اور جتلانے کی کیا ضرورت ہے حضور! یہ جو کبھی کبھی قانون کی حکمرانی کے خواب آتے تھے اور ہم آپے سے باہر ہوئے جاتے تھے ،اس آشفتہ سری کے سارے کس بل تو بہادر آدمی رائو انوار نے ہی نکال دیئے ،آپ کیوں یہ زحمت اٹھائیں اور واپس آئیں ۔ارے صاحب ! کیا پدی کیا پدی کا شوربہ ،یہ جو مختاری کی ناحق تہمت ہے ناں ہم پر ،ہمیں اس کی حقیقت خوب معلوم ہے ،بار بار لگاتار باور کروانے سے کیا حاصل ؟چھوڑو ناں جانے دو غصہ، بیرون ملک خوش رہو ،موج مستی کرو ۔ہم لوگوں کو بے وقوف بنانے کیلئے سمن اور ریڈ وارنٹ جیسی شعبدہ بازیاں کرتے رہیں گے اور یہ بہت ضروری ہے ۔وہ کیا ہے ناں کہ بھرم نہ ٹوٹے ،مجبور و مقہور لوگوں کے ضبط کا بندھن نہ ٹوٹے ،اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ ویسے خوش فہمی کے ساتویں آسمان پر بیٹھے ان لاڈلوں کو بھی اکیس توپوں کی سلامی پیش کرنی چاہئے جو پیڑ پر لگے آم کی طرح کھیلن کو چاند توڑنا چاہتے ہیں اور یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ پرویز مشرف کو سنگین غداری کے مقدمے میں سزا ہو گی اور تاریخ بدل جائیگی ۔حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کا قانون رائو انوار نامی ایک مہرے کابال بیکا نہ کر سکا اور آپ چلے ہیں پرویز مشرف کا احتساب کرنے ۔میں کسی کو مایوس نہیں کرنا چاہتا ،یقینا ناامیدی کفر ہے لیکن خوش فہمی کفر سے بھی بدتر ہے۔حضور ! جذباتی نہ ہوں ،ٹھنڈے دل سے غور کریں یہ ملک رائوانوار جیسے مہروں کا ہے۔میں اور آپ نقیب اللہ محسود ہیں۔ ہمارے ہاں محض دکھائوے، بھرم قائم رکھنے اور طاقتورلوگوں کی سرپرستی کرنے والوں کو مطمئن کرنے کی غرض سے سزا دینے کے یہ نمائشی اقدمات تو کئے جاسکتے ہیں مگر سزا دینا مجھے ممکن نظر نہیں آتا۔خدا کرے میری باتیں غلط ثابت ہوں ،رائو انوار کو نقیب اللہ قتل کیس میں پھانسی ہو جائے یا پھر پرویز مشرف کو سنگین غداری کے مقدمے میں تختہ دار پر لٹکادیا جائے۔ایسی صورت میں میں معافی کا خواستگار ہوں گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین