• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس مرتبہ جب ہم یوم پاکستان منا رہے تھے تو ہمارے اقتصادی اشاریے ( Indicators ) واضح طور پر ہمیں یہ باور کرا رہے تھے کہ ہم نے حقیقی آزادی حاصل نہیں کی ہے ۔ انگریزوں کی براہ راست غلامی سے نجات حاصل کرنے کے بعد ہم جدید نو آبادیاتی جکڑ بندی میں چلے گئے ہیں ، جو غلامی کی بدترین شکل ہے ۔ یوم پاکستان سے تین روز قبل 20مارچ 2018ء کو پاکستانی کرنسی روپے کی امریکی ڈالر کے مقابلے میں قیمت 6فیصد کم کر دی گئی اور ڈالر ایک دم 115.5 روپے کا ہو گیا ۔ اگرچہ دنیا کے دیگر ممالک بشمول معاشی طور پر مستحکم اور ترقی یافتہ ممالک بھی اپنی کرنسی کی قدر کم کرتے ہیں اور پاکستان میں بھی پہلی مرتبہ ایسا نہیں ہوا ہے لیکن پاکستان میں روپے کی حالیہ بے قدری نے اس حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے کہ پاکستان اپنی قومی معیشت استوار نہیں کر سکا ہے ، جس میں جدید نو آبادتی معیشت کے خلاف مزاحمت ہوتی ہے ۔ افسوس کہ معاشی طور پر ہم تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں کیونکہ ہم معاشی طور پر آزاد نہیں ہیں اور ہمارا مستقبل ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ 23 مارچ کو ہم علامتی طور پر مناتے ہیں ۔ جبکہ 23 مارچ علامتی طور پر نہیں ، نظریاتی طور پر منانے کی ضرورت ہے ۔ 23 مارچ کی تقریبات کے حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب ’’ آزادی موہوم ‘‘ میں جو تبصرہ کیا ہے ، اسے یہاں دہرانا آج کے حالات میں بہت زیادہ تکلیف دہ ہو گا لیکن وہ تبصرہ حقیقت پر مبنی ہے ۔ کرنسی کی قدر میں کمی کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے لیکن پاکستان کی موجودہ اقتصادی صورت حال میں روپے کی قدر میں کمی کے پس پردہ حقائق انتہائی خوف ناک ہیں ۔
جب کسی بھی ملک میں قومی معیشت کی ترقی کیلئے حالات سازگار نہ ہوں ، اس ملک کے پاس اپنی کرنسی کی قدر کم کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا ۔ کرنسی کی قدر میں کمی مارکیٹ کے تقاضوں اور اقتصادی حقائق کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے ۔ گزشتہ چار عشروں میں برطانوی پونڈ کی قدر میں ڈالر اور دیگر غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں تین مرتبہ کمی کی گئی ہے ۔ ہمارے پڑوسی ملک ایران میں بھی اس عرصے میں کرنسی کی قدر میں کئی مرتبہ کمی ہوئی ہے ۔ یہ کمی خاص طور پر اسلئے کی جاتی ہے کہ درآمدات مہنگی ہو جائیں اور برآمدات سستی ہو جائیں تاکہ درآمدات کی حوصلہ شکنی اور برآمدات کی حوصلہ افزائی ہو۔ اس سے قومی معیشت بین الاقوامی مقابلے کی صلاحیت حاصل کر لیتی ہے ۔ پاکستان میں اگرچہ کرنسی کی قدر کیلئے مذکورہ بالا جواز پیش کیا جاتا ہے لیکن در حقیقت یہ وجہ نہیں ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ تجارتی اور مالیاتی خسارے میں مسلسل اضافے کی وجہ سے پاکستان ادائیگیوں کے دباؤ کا شکار تھا لیکن یہ صورتحال پاکستان کو مستقل درپیش ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیشہ مزید قرضے حاصل کئے گئے اور پاکستان کی قومی معیشت لمحہ بہ لمحہ نو آبادیاتی معیشت کے سانچے میں ڈھلتی گئی ۔ روپے کی قدر میں حالیہ کمی سے ادائیگیوں کا دباؤ کم نہیں ہو گا ۔ حالات ویسے ہی رہیں گے بلکہ مزید ابتر ہوں گے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا تجارتی خسارہ اتنا زیادہ ہے کہ روپے کی قدر میں کمی سے کبھی ختم یا کم نہیں ہو گا ۔ پاکستان عالمی تجارت میں کہیں مقابلے میں بھی شامل نہیں ہے ۔ برآمدات کا حجم اس قدر کم ہے کہ برآمدات کی وجہ سے مہنگے ڈالر کی صورت میں جو غیر ملکی زرمبادلہ پاکستان آئے گا ، وہ بھوکے اونٹ کے منہ میں زیرہ ہو گا ۔
اصل حقائق کیا ہیں ؟ اگر قوم یہ جان لے تو اسے صدمے کے ساتھ یہ احساس ہو گا کہ 23 مارچ کو علامتی طور پر منانے والی قوم کہاں کھڑی ہے ۔ روپے کی قدر میں حالیہ کمی سے پاکستان کے 26 ہزار ارب کے قرضوں میں ایک دم 500 ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ہے ۔ آئندہ چھ ماہ کے دوران بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا جو دباؤ پاکستان پر پڑے گا ، وہ تاریخ میں پہلے کبھی نہیں پڑا۔ تیل کی درآمد کا بل بھی ایک دم بڑھ جائے گا اور اس کی ادائیگی پاکستان کیلئے شدید مشکلات پیدا کرے گی ۔ روپے کی قدر میں کمی سے توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے بھی ایک ٹریلین ( ایک ہزار ارب ) روپے سے تجاوز کر گئے ہیں ۔ روپے کی قدر میں کمی کے یہ ظاہری اثرات ہیں ۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ روپے کی پہلی قدر مصنوعی تھی اور اسے برقرار رکھنے کیلئے اسٹیٹ بینک کو ہر ماہ اربوں روپے ادا کرنا پڑتے تھے ۔ اب روپیہ اپنی حقیقی قیمت پر آ گیا ہے ۔ ان کے اس دعوے کا ثابت ہونا ابھی باقی ہے ۔ وہ ایک بڑے بزنس مین ہیں ۔ معیشت کا بھی ادراک رکھتے ہیں لیکن ’’ پولیٹیکل اکانومی ‘‘ کو سمجھنا مجھ سمیت ہر ایک کے بس کی بات نہیں ۔ تاریخ انسانی کے بڑے بڑے معیشت دان پولیٹیکل اکانومی کا ادراک نہیں کر سکے یا انہوں نے جان بوجھ کر دنیا کو دھوکا دیا ۔ مفتاح اسماعیل بھی اس بات کا اعتراف کریں گے کہ روپے کی قدر میں کمی مارکیٹ کے تقاضوں اور اقتصادی حقائق کی بنیاد پر نہیں بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن پر کی گئی ہے ۔ پاکستان میں حکومتیں سیاسی ہوں یا غیر سیاسی ، پاکستانی معیشت اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ آزادانہ فیصلے کر سکے ۔ جس طرح پاکستانی معیشت جدید نو آبادیاتی اور عالمی مالیاتی اداروں کی جکڑ بندی میں ہے اور وہ جس طرح بیرونی اور اندرونی طاقتور حلقوں کی لوٹ مار کے خود کار نظام کے تحت چل رہی ہے ۔ اس طرح کی مزاحمت نہ کرنے والی اور کمزور معیشت شاید دنیا کے چند ملکوں میں رہ گئی ہے ۔ جسے قومی معیشت قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ پاکستان کی تباہ حال معیشت میں ایک امید پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی ۔ معیشت میں نمو کا کوئی اور سبب باقی نہیں رہا تھا ۔ سی پیک کے منصوبوں میںچین کی سرمایہ کاری نے آکسیجن سلنڈر کا کام کیا ہے لیکن ان منصوبوں کیلئے جو مشینری ، آلات اور دیگر سامان درآمد کیا جا رہا ہے ، وہ پاکستان کی اپنی مجموعی درآمدات سے کہیں زیادہ ہے ۔ اب چینی سرمایہ کاروں کو روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے 6 فیصد زیادہ ادائیگیاں کرنا پڑیں گی ۔ اس بات کو بین الاقوامی سیاست اور پولیٹیکل اکانومی کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایک ہولناک حقیقت آشکار ہو جائے گی ۔ پاکستان کی امریکہ اور مغرب پر انحصار کرنے والی اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے مالیاتی اداروں کے ذریعہ چلنے والی جدید نو آبادیاتی معیشت چین کی جدید نو آبادیاتی معیشت پر منتقل ہونے جا رہی تھی ، جو امریکہ اور اس کے حواریوں کو قبول نہیں ہے اور وہ اپنے مالیاتی اداروں کے ذریعہ اس منتقلی کو روکنا چاہتے ہیں ۔دوسری طرف اندرونی طاقتور حلقے بھی تشویش کا اظہار کررہے ہیں ۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ایک بیان کے ذریعے پاکستانی معیشت کی خراب صورت حال پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں ۔
جبکہ سویلین حکومت کی طرف سے دفاعی اخراجات میں اضافے پر بار بار تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ دونوں طرف کی باتوں میں وزن ہے ۔ دہشت گردی کی وجہ سے دفاعی اخراجات میں بے تحاشا اضافہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے ۔ ان اخراجات میں اضافے کی وجہ سےبجٹ اور مالی خسارے میں مسلسل اضافے کی وجہ سے معاشی بحران میں دھنستا چلا جا رہا ہے ۔ ایک اور بات بھی لوگ نظر انداز کر رہے ہیں ۔ متحدہ عرب امارات نے یہ پالیسی بنائی ہے کہ وہاں جو بھی غیر ملکی 10 ہزار درہم سے زیادہ لائے گا ، وہ رقم کے جائز کے بارے میں ضرور بتائے گا ۔ اس پالیسی کا اطلاق شاید 28 اپریل سے ہو جائے گا ۔ پہلے متحدہ عرب امارات میں لوگ کروڑوں درہم لے جاتے تھے اور وہاں کی رئیل اسٹیٹ اور دیگر شعبوں میں سرکاری کاری کرتے تھے ۔ اب ایسا نہیں ہو گا ۔ صرف متحدہ عرب امارات ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں کرپشن اور ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ دولت کو چھپانا آسان نہیں رہے گا ۔ متحدہ عرب امارات میں کرپشن اور ناجائز ذرائع سے جو دولت بھیجی گئی ہے ، وہ اب واپس آئے گی ۔ وہ رقم چھ فیصد مہنگے ڈالر کی صورت میں آئے گی ۔ رقم لانے والا اس پر 5 یا 6 فیصد ٹیکس ادا کرے گا اور اس کی ساری رقم مجوزہ ایمنسٹی اسکیم کے تحت سفید ہو جائے گی ۔ روپے کی قدر میں کمی کا ایک یہ سبب بھی ہو سکتا ہے ۔ اور بھی بہت سے خوف ناک حقائق ہیں ۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ آج ہمارا مستقبل ہمارے ہاتھ میں نہیں ۔ 23 مارچ نظریاتی طور پر مناتے تو احساس ہوتا کہ ہماری حقیقی آزادی نہیں بلکہ آزادی موہوم ہے۔

تازہ ترین