• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہو سکتا ہے کہ آپ نے یہ سب پہلے سے پڑھ رکھا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بظاہر یہ گھسی پٹی باتیں آپ کو بور کردیں ،لہذا پیشگی معذرت لیکن یہ چند واقعات پڑھنے اس لئے ضروری کہ انہیں پڑھے بغیر آپکو بات سمجھ نہیں آئے گی اس لئے گزارش یہ کہ پڑھئے گا ذرا غور سے ۔
1918میں جب قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی شادی ہوئی تو اُس وقت اُنہوں نے اپنے غسل خانے کی تعمیر پر 50ہزار خرچ کر ڈالے مگر یہی جناح جب گورنر جنرل بنتے ہیں تو ڈیڑھ روپے کا موزہ خریدنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیتے ہیں کہ’’ غریب ملک کے گورنر کو اتنی مہنگی چیز نہیں خریدنی چاہئے‘‘۔ ایک دفعہ برطانیہ کے سفیر نے قائدِ اعظم سے کہا کہ’’ برطانیہ کے بادشاہ کا بھائی کراچی آرہا ہے ،آپ انہیں لینے ائیر پورٹ جائیں ‘‘، قائداعظم کا جواب تھا ’’میں اسے ائیر پورٹ لینے چلا جاتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ جب میرا بھائی برطانیہ جائے گا تو پھر بادشاہ بھی اسے لینے ائیر پورٹ آئے‘‘ ۔ ایک بار کہیں جاتے ہوئے قائد کی گاڑی کو جب ایک بند ریلوے پھاٹک پر رکنا پڑا تو ڈرائیور نے کہا’’ سر میں جا کر پھاٹک والے کو بتاتا ہوں کہ گاڑی میں گورنر جنرل ہیں تاکہ وہ پھاٹک کھول دے ‘‘، یہ سن کر قائد ِ اعظم نے کہا ’’ پھاٹک کھلنے کا انتظار کرو ،میںکوئی ایسی مثال قائم نہیں کرنا چاہتا کہ جس سے لگے کہ میں کوئی خاص آدمی ہوں ‘‘۔ یہ تب کی بات ہے کہ جب یہ قانون نیا نیا بنا تھا کہ ہر سائیکل والا اپنی سائیکل کے آگے لائٹ لگائے گا ، انہی دنوںبچوں کا ایک وفد قائدِ اعظم سے ملنے آیا، دورانِ گفتگو اچانک قائد نے پوچھا ’’ پاکستان بننے پر تم میں سے کون کون وہاں جانا پسند کرے گا ‘‘ سب بچوں نے ہاتھ کھڑے کر دیئے پھر جناح نے دوسرا سوا ل کیا ’’ تم میں سے کس کس کی سائیکل پر لائٹ لگی ہوئی ہے ‘‘ اس بار صرف ایک بچے نے ہاتھ کھڑا کیا ، یہ دیکھ کر قائد بولے ’’صرف اس بچے کو پاکستان جانا چاہئے ‘‘ جب باقی بچو ں نے پوچھا کہ ’’ ہم کیوں نہیں ‘‘ تو قائد کا جواب تھا کہ ’’ جو قانون پر عمل نہیں کرتا اسے ہمارے ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں ‘‘ ۔ اسٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریب اور جناح مہمانِ خصوصی ، وقت ِمقررہ پرپہنچ کر قائد نے جب دیکھا کہ زیادہ تر حکومتی عہدیدار تو ابھی آئے ہی نہیں ، تو قائد نے منتظمین سے کہا کہ ’’ سب خالی کرسیاں اٹھا کر پروگرام شروع کر دیاجائے اور پھر سب نے دیکھا کہ لیٹ پہنچنے والے وزیراعظم لیاقت علی خان کئی وزراء اور متعدد سرکاری افسر انتہائی شرمندگی کی حالت میں تمام وقت تقریب میں کھڑے رہے ۔
یہ سب غور سے پڑھوانے کا مقصد جہاں یہ تھا کہ آپ کو پتاچل سکے کہ قائد اعظم زندہ تھے تو صورتحال کیا تھی وہاں یہ سب پڑھوانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ آپ کو بتا سکوں کہ قائداعظم گئے تو پھر قائد کا ملک کن لوگوں کے ہتھے چڑھا ،لہٰذا آئیے لگے ہاتھوں اب قائد کے بعد ’’اندھیر نگری چوپٹ راج‘‘ پر اِک نظر ڈال لیتے ہیں ۔ قائداعظم رخصت ہوئے تو پھر قائد کی کرسی پر وہ بھی بیٹھا کہ جسے آخری دنوں میں دیکھتے ہی اچھے بھلے قائد کا موڈ آف ہو جاتااورجس کی بیگم ہر وقت قائد کے بارے میں انٹ شنٹ پھیلا تی رہتی ،یہاں قائد کا گدی نشین وہ بھی بنا کہ جسے ایک بار قائد نے شٹ اپ کال دیتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ ’’ آئندہ مجھے اپنا چہر ہ نہ دکھانا ‘‘ ،یہاں قائد کا جانشین وہ بھی ٹھہرا کہ جو اکثر اپنے قریبی دوستوں سے کہا کرتا کہ ’’ہندوستان کی تقسیم ایک تاریخی Blunder اور گاندھی یا نہرو کو توچھوڑیں محمد علی جناح سے تو ابوالکلام آزاد بھی بڑا رہنما تھا‘‘ ،یہاں رالیں بہاتا وہ مفلوج بھی قائد کا خلیفہ ہوا کہ جس نے اپنی غیر ملکی سیکرٹری کو اپنی محبت کا ایک ثبوت یہ بھی دیا کہ کئی ماہ تک گورنر جنرل ہاؤس میں جناح کی تصویر کی جگہ اس خاتون کی تصویر لگائے رکھی ،قائد کی کرسی اس نشئی کے ہتھے بھی چڑھی کہ جس نے حالتِ ٹن میں دو چار مرتبہ تو کرسی پر ہی پیشاب کر دیا اور اکثرجس کی بلیاں تو کرسی پرہوتیں مگریہ خود قدرتی لباس میں زمین پر پڑا خراٹے مار رہا ہوتا ، یہاں قائد کا وہ بھَگت بھی گزرا کہ جس نے وقت آنے پر قائد کی بہن کو ہی بھگتا دیا اور یہاں قائد کی جانشینی کا وہ بھی دعویدار نکلا کہ جس کی تربیت اُس باپ نے کی کہ جس باپ نے جھوٹے پاور آف اٹارنی کے زور پر اپنے باپ کویوں در بدر کیا کہ پھر وہ سسک سسک کر مرا، یہ قائداعظم ثانی خود جب میٹرک میں تھا تو ایک رات اپنے شہر کا بینک لوٹنے جاپہنچا، سیکورٹی گارڈ جاگا، دونوں اطراف سے فائرنگ ہوئی اورپھر گارڈ کی ایک گولی اعلیٰ حضرت کے کولہے کی ہڈی کو چھوتی ہوئی گزر گئی ، اس واردات کی ایف آئی آر آج بھی موجود اور محفوظ ، یہی صاحب جس نے زندگی میںکوئی براکام نہ چھوڑااور جو جوانی میں ہر دوسری رات ڈسکو کلب کے باہر بلوچستان کے ایک بڑے رہنما کے بیٹے کے ہاتھوںپٹتا ،یہ بھی 5سال تک قائد کی کرسی پر بیٹھا۔
یہ تو صرف چند نمونے تھے ،ورنہ اگر بات کی جاتی ان قائداعظم ثانیو ں کی کہ جنہوں نے آئین توڑا یا جنہوں نے پھر ملک ہی توڑ دیا ،جنہوں نے بندوق کے زورپر من مانیاں کی یا جو جہالت کے کندھوں کو سیڑھی بنا کر کرسی ٔ اقتدار تک پہنچے اور جو کرپشن کے چیمپئن نکلے یاجو اقربأپروری میںورلڈ ریکارڈ بنا گئے مطلب یہ سب کچا چٹھا کھولا جاتا تو پھر بات لمبی ہو جاتی اور بات لمبی کرنے کی بجائے اگر بات سمجھنی ہے تو ان قائداعظم ثانیوں کے نظام کے چند ٹریلرز دیکھ لیں ، یہاںدفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنیو الے تو اندر مگر میمو گیٹ سے لیکر بھارت سے مدد مانگنے والوں تک سب باہر ، یہاں بم کی جھوٹی اطلاع دینے والے تو فوراً پکڑے جائیں مگر اصلی دھماکے کرنے والوں کو ڈھونڈا ہی نہ جا سکے ، یہاں ایک طرف پانی چوری کرنے والا دوسال سے ضمانت نہ کرواسکا اور یہاں جیب کاٹنے والا ڈیڑھ سال سے جیل میں لیکن دوسری طرف ایفیڈرین کیس سے رینٹل پاور اسکینڈل تک یہاں میگا کرپشن کر چکے سب میگا شرفاء باہر اور یہاں ترک وزیراعظم کی بیوی کے ہارچرانے والوں سے عوامی مینڈیٹ چرانے والوں تک سب معصوم ، یہاں ایک طرف عام آدمی ناکے پر بر وقت شناختی کارڈ دکھا نہ سکے تومشکوک لیکن دوسری طرف جعلی ڈگریوں سے جعلی پرمٹوں تک سب کلیئر، یہاں ایک طرف امپورٹ لائسنس نہ ہونے پر ایک کبوتر باز تو اپنے 40کبوتروں کیساتھ اندر ہو جائے لیکن دوسری طرف 69سالوں سے ملک وقوم کو نوچتے کھسوٹتے گدِھ کھلی فضاؤں میں ، یہاں ایک طرف اگر معاملہ اسلام آباد کی کچی بستیوں پر’’ مک مکا‘‘ کا ہوتو چوہدری نثار کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے بیسیوں افسر اندر کروا دیں لیکن دوسری طرف خورشید شاہ کے جمہوری ’’ مک مکا ‘‘کا سب کچھ جان کر بھی چوہدری صاحب بے بس ، یہاں ایک طرف نیشنل ایکشن پلان کے ہر ایکشن کی بڑے زور وشور سے حمایت ہوتی ہوئی جبکہ دوسری طرف بڑی خاموشی سے میثاقِ جمہوریت پر بھی عملدرآمد ہوتا ہوا ، یہاں ایک طرف پہلے تاثر یہ دیا گیا کہ موجودہ حالات میں جنرل راحیل شریف کا رہنا ضروری جبکہ دوسری طرف پھر اس ایشو کو متنازع بنانے کیلئے پہلے منظم میڈیا مہم پھر مشرف سے یہ کہلوا کر کہ آرمی چیف کو Extensionملنی چاہئے جنرل علی قلی خان کے منہ سے یہ نکلوانا کہ Extensionنہیں ملنی چاہئے اور یوں صورتحال کو اس سطح ُپر لے آنا کہ 10ماہ پہلے ہی آرمی چیف کو کہنا پڑجا ئے کہ’’ بھائی جان مجھے نہیں چاہئے ایکسٹینشن ‘‘ ، یہاں ایک طر ف زرداری اور بلاول اتنے مصر وف کہ مخلوق مرتی مر گئی مگر وہ تھر نہ جاسکے جبکہ دوسری طرف ان کے پاس اتنا وقت کہ وہ امریکی صدر کی 10منٹ کی ایک جھلک کیلئے 18سو ڈالر Per Personکے حساب سے ناشتہ کرنے ہزاروں میل دور امریکہ پہنچ جائیں اور پھر ذرا ان قائد ِاعظم ثانیوں کے نظام کی خوبصورتی تو دیکھیں کہ یہاں وہ شخص جو خود یہ سر ٹیفکیٹ پیش کرے کہ ’’ میری ذہنی حالت ٹھیک نہیں ‘‘ پھر وہی شخص 5سال ملک چلائے اور وہ’’بھلا مانس ‘‘ جو یہ لکھ کر دے کہ وہ اور ان کے قائدین نے منی لانڈرنگ کی پھر اس تحریرکے بعد بھی یہی سب قائدین قوم کے متفقہ قائدین تو قارئین کرام ! مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ اگر آمنا سامنا ہونے پر اپنی’’تابعدار ‘‘ قوم سے قائدِ اعظم کیا سلوک کریں گے لیکن مجھے یہ یقین ضرور ہے کہ اگر قائد ِ اعظم ثانیوںکا کہیں قائداعظم سے آمنا سامنا ہوگیا تو اکثر قائداعظم ثانی قائداعظم کو دیکھ کر خود ہی مر جائیں گے جبکہ باقیوں میں سے زیادہ تر کوقائداعظم مار دیں گے۔
تازہ ترین