• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’اصفہان نصفِ جہان‘‘ کی کہاوت صدیوں پرانی ہے ۔ اللہ بخشے ، ہمارے دادا چوہدری نور محمد نے 1986ء میں لگ بھگ سو برس کی عمر میں اس دنیائے رنگ و بو سے عالم باقی کی طرف کوچ فرمایا۔انہوں نے عالم شباب میں سپاہی کی حیثیت سے برٹش انڈین آرمی میں شمولیت اختیار کی اور 1914ء میں شروع ہونے والی پہلی جنگِ عظیم کے دوران ایران، عراق، مصر اور فرانس کے محاذوں پر دشمن کے دانت کھٹے کیے ۔
اپنی فصلیں اور ڈھور ڈنگر خدا کے حوالے کر کے دیارِ غیر میں دادِ شجاعت دینے کی بہشتی کے پاس دو عدد ٹھوس وجوہات تھیں ۔ پہلی یہ کہ تاج برطانیہ سے اپنی غیر مشروط وفاداری اور اس کا تحفظ قبلہ دادا کو بہت عزیز تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ انگریز سرکار اپنی کالونیوں کی رعایاکو زبردستی فوج میں بھرتی کرلیتی تھی۔ جس گھر میں دو جوان بھائی ہوتے ، سرکاران میں سے ایک کو اٹھا کرلے جاتی اور تاج برطانیہ کے دفاع پر مامور کردیتی ۔ ہر دو وجوہ کی بنا پر چوہدری صاحب کے پاس اس کارِ خیر سے انکار کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز باقی نہیں رہا تھا۔ ویسے بھی ہمارے ہاں بہادری کی ایسی درخشاں روایات کافی پختہ ہیں ۔ آج اگر کہا جاتا ہے کہ ضلع چکوال کے ہر چھوٹے بڑے قبرستان میں کسی فوجی کی قبر موجود ہے تو ایسا بھی دو وجوہ کی بنا پر ممکن ہوا ہے ۔ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہاں کے غیور اور پر اسرار بندے دفاع ِ وطن کے لازوال جذبے سے سرشار ہیں، جبکہ دوسری وجہ ان کی گزر اوقات کے لئے ناکافی بارانی زمینیں ، بے روزگاری اور بھوک ہے جو انہیں مادرِ وطن کی حفاظت کرنے پر مجبور کر دیتی ہے اور وہ دس جماعتیں پاس کر کے فوج میں بھرتی ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح ان کا دفاعِ وطن کا ٹھرک بھی پورا ہو جاتا ہے اور بال بچوں کا دال دلیا بھی چلتا رہتا ہے ۔
آمد م برسر مطلب ! دادا جان گائوں میں آرام کرسی پر نیم دراز سردیوں کی دھوپ سینکتے جنگِ عظیم اول کی یادداشتیں ہم لوگوں کے ساتھ شیئر کیا کرتے تھے ، جن کی تفصیل ہم پھر کبھی سنائیں گے ۔ وہ فرماتے تھے کہ ایران میں ان کے قیام کے دوران جب ایرانی اپنے خوبصورت تاریخی شہر اصفہان کا ذکر کرتے ہوئے فخر سے کہتے ’’اصفہان نصفِ جہان‘‘ ( آدھا جہان اصفہان ہے) تو انڈین فوجی جواب دیتے ’’گر لاہور نہ با شد‘‘ (اگر لاہور نہ ہوتا تو ) لاہور اور لہورئیے تو ہم نے بہت دیکھ رکھے تھے ،بابا جا ن کی اس گفتگو سے اصفہان دیکھنے کا ہمارا اشتیاق بھی دو چند ہوتا گیا۔ آخر جب ہم دوستوں کے ہمراہ ایران کے لئے عازمِ سفر ہوئے تو مشہد اور تہرا ن کی سڑکیں ماپتے ایک دن اصفہان بھی جا پہنچے ۔ یا حیرت ! شنیدنی مناظر دیدنی ہوئے تو ایسا طلسم ہوشربا نگارستان پایا کہ ہجوم بے کراں بھی سیاح کے استغراق میں مخل نہ ہوا۔ شاہ قاجاروں کے پر شکوہ محلات اور مبہوت کر دینے والی ہر تاریخی عمارت کی بو قلمونی چومن دیگرے نیست کی معلن تھی ۔ ہم کتنی ہی دیر اس گنبد کے نیچے کھڑے رفتگان کو آوازیں دیتے رہے ، جہاں ایک صداکی بازگشت سات مرتبہ سنائی دیتی ہے ۔
اللہ جانے یہ ہماری تنگ نظری تھی یا حقیقت مگر جب ہم نے اصفہان اور لاہور کے حسن کا موازنہ کیا تو ’’گر لاہور نہ باشد‘‘ کی کہاوت کا پلڑا بھاری نظر آیا۔ ہر دو شہروں میں فرق یہ ہے کہ ایرانیوں نے اپنے اس معمورے کی صفائی اور تاریخی عمارات کی حفاظت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جبکہ ہم نے لاہور میں گندگی پھیلانے اور تاریخی ورثے کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اہل تشہیرو تماشا کے طلسمات کی خیر…رہی سہی کسر اب میٹرو ٹرین کی اورنج لائن نکال دے گی ۔ ہم برادرم یاسر پیرزادہ سے اتفاق کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں کہ دو سال بعد جب اورنج لائن بچھا دی جائے گی تو لکشمی بلڈنگ سے لے کر چوبرجی تک ہر تاریخی ورثے کا نظارہ بری طرح متاثر ہوگا اور منصوبے کی تکمیل کے بعد ’’لہور ، لہور اے ‘‘ نہیں رہے گا۔ اول تو لاہور میں داخلے کے وقت اس شہر کا با رعب اور با وقار تعارف یعنی مینارِ پاکستان اور بادشاہی مسجد کے پر شکوہ مینارہی آزادی چوک پر بننے والے فلائی اوور کے پیچھے چھپ جائیں گے ۔ پھر دیگر تاریخی مقامات جی پی او بلڈنگ ، سپریم کورٹ، موج دریا کا مزار ،گورنمنٹ کالج اور ان جیسی پچیس کے قریب تاریخی عمارتیں بھی دیکھنے والوں کی نظروں سے اوجھل ہو جائیں گی۔ لاکھوں لوگوں کے گھروں ،قبرستانوں ، کھیل کے میدانوں اور اسپتالوں کے علاوہ تاریخی کپور تھلہ ہائوس ،نوابزادہ نصراللہ خان کا دفتر، پیراشوٹ کالونی جیسی قدیم آبادیاں ، سینٹ اینڈ ریوز چرچ اور نابھہ روڈ کی قدیم عمارتوں کو صفحہ اراضی سے مٹا کر یہ کیسی ترقی ہو گی کہ جس سے لاہور کا ماحول ، ورثہ ، ثقافت اور تاریخی چہرہ مسخ ہو کر رہ جائے گا۔ یا اخی! دوسرے ملکوں کی طرح اورنج لائن زیر زمین بھی بچھائی جا سکتی تھی مگر ہم اپنی گزری نسلوں کے ساتھ یہ کیسا سلوک کر رہے ہیں؟ ہم برپشم قلندر تو اپنی آنے والی نسلوں سے یہ اعزاز بھی چھین رہے ہیں کہ جب کوئی ایرانی اصفہان نصفِ جہان کی بڑھک مارے ۔تو وہ جواب میں یہ نعرہ مستانہ ہی بلند کر سکیں کہ گر لاہور نہ با شد۔ ایرانی تو فخر سے کہتے رہیں گے کہ
ملیں گے آئندگا ن کو تبریز اور حلب میں
گئے ہوئوں کی نشانیاں اصفہان سے لیں گے
البتہ ہمارے آئندگان کے لئے ایسی فخریہ نشانیاں حرفِ غلط کی طرح مٹائی جا رہی ہیں ۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ گر لاہور نہ با شد تو تختِ لاہور کے اہل تشہیر و تماشا کس شہر کو مشق ستم کا نشانہ بناتے ؟ ہمارے دیہات کے لئے ’’ خادمِ اعلیٰ رولر روڈ پروگرام‘‘ کی مد میں تیس ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ تاہم لاہور کی ’’بے ہنگم‘‘ ترقی اور تورا بورا برانڈ ہماری دیہی سڑکیں دیکھ کر تولگتا ہے کہ سارے فنڈز لاہور ہی کے لئے ہیں ۔اوپر سے ایسے ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن اور کمیشن کی ’’افواہیں‘‘سن سن کر ڈاکٹر محمد علی افضل یاد آتے ہیں کہ
یہ جو لاہور سے محبت ہے
کسی اور سے محبت ہے
کیا بات ہے ہمارے ہنگامہ ہائے شوق کی ۔دہشت گردی کے عفریت نے ملک بھر میں سراسیمگی پھیلا رکھی ہے ۔ انتہا پسندی کے کارخانے اپنی پیداوار بڑھاتے جارہے ہیں ۔ ہمارے بچے اسکولوں میں سیکورٹی گارڈز کی بندوقوں کے سائے میں انتہائی خوفزدہ حالت میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ غربت ،نا انصافی، جبر،جہا لت اور عدم مساوات کے مہیب سائے چھٹنے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔ مرے ہوئے کو مارے شاہ مدار، مستزاد یہ کہ عام ضرورت کی اشیا ء پر چالیس ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا دیئے گئے ہیں ، مگر ہماری ترجیحات میں میٹرو بس اور اورنج ٹرین ایسے منصوبوں پر کثیر رقوم لٹا کر اور اپنے تاریخی ورثے کو برباد کر کے تبدیلی لانا پہلے نمبر پر ہے ۔ سچ ہے کہ ہماری گڈ گورننس ، ترجیحات اور ترقی کا معیار دنیا بھر سے وکھرا ہے ۔ اکرم قاضی نے کہا تھا
کھبا پَیر تے سَجی جُتی
اُتلا بِیڑا، ہیٹھلی پھائی
تازہ ترین