• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم صاحب اور عزت کی تلاش

ارادہ تھا کہ آج 23مارچ یوم پاکستان کے حوالے سے کچھ مستند وضاحتیں لکھوں گا لیکن دریں اثناء ہمارے وزیر اعظم صاحب کے مجاہدانہ بیان نے ساری توجہ اپنی طرف مبذول کرالی ہے۔ وزیر اعظم صاحب کے بیان میں ہماری سیاست کی دکھتی ہوئی رگ کی دھڑکن بھی سنی جاسکتی ہے اور اس بیان کو تجاہل عارفانہ کی ایک قسم بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ملک کے وزیر اعظم کا یوں سینیٹ کے چیئرمین پر حملہ آور ہونا بےشک جمہوریت کا حسن سمجھا جائے گا لیکن یہ بیان جمہوری نظام کے اعلیٰ اداروں کے تصادم کا راز بھی فاش کرتا ہے۔ جمہوریت پر لکھی گئی معیاری کتابیں اس اصول پر متفق ہیں کہ اس طرح کا تصادم جمہوریت کے وقار کو گہری ٹھیس لگاتا ہے اور اداروں کو کمزور کرتا ہے۔ چلئے کتابی باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم اپنے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب نے فرمایا ہے کہ’’چیئرمین سینیٹ کی کوئی عزت نہیں، سنجرانی کو ووٹ خرید کر چیئرمین بنایا گیا۔ اسے ہٹا کر متفقہ چیئرمین لایا جائے۔‘‘ مجھے وزیر اعظم صاحب کے بیان میں جس لفظ نے سب سے زیادہ متوجہ کیا وہ’’عزت‘‘ کا لفظ تھا کیونکہ عزت کمانے اور گنوانے کا نسخہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ قرآن مجید کا فرمان ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ جسے چاہیں عزت عطا کرتے ہیں اور جسے چاہیں ذلت دیتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ عزت و ذلت کا تعلق ہمارے کاموں، کارناموں ا ور اعمال سے ہوتا ہے۔ ہماری تاریخ گواہی دیتی ہے کہ ہماری سیاست کا ایک المیہ دوہرا معیارDouble Standardہے، اگر حکمران جماعت کے امیدواران ووٹ خرید کر منتخب ہوں یا ان کے اسمبلیوں کے اراکین اپنے ووٹوں کی قیمت کروڑوں میں وصول کریں تو اس سے مسلم لیگ(ن) کی عزت کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا لیکن اگر مخالف یہی ہتھکنڈے استعمال کرکے اور حکمران جماعت کے اراکین خرید کر اپنی مرضی کا چیئرمین منتخب کروالیں تو اس کی عزت خطرے میں پڑجاتی ہے۔عالمی تاریخ یا مذہبی احکامات کا ذکر تو کٹھن وادی میں قدم رکھنا ہے لیکن اگر ہم صرف اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو عزت کمانے کے چند واضح اصول ہماری تاریخ کا روشن باب ہیں۔ ظاہر ہے میں اس عزت کی بات نہیں کررہا جو عہدے خوف یا اختیار سے جنم لیتی ہے، میں اس عزت کی بات کررہا ہوں جو دلوں کی دھڑکنوں سے پھوٹتی اور عقیدت کا روپ دھار لیتی ہے۔ اس طرح کی عزت صرف اور صرف اعلیٰ کردار، ایثار اور قوم و ملک کی بےلوث خدمت سے پیدا ہوتی ، پروان چڑھتی اور تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح، نوبزادہ لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، خواجہ ناظم الدین، سہروردی، مولوی تمیزالدین اور ان کے بہت سے ساتھیوں نے عزت و وقار کا دائمی مقام کس طرح حاصل کیا؟ واقعات گنوائوں تو کتاب کا موضوع ہے لیکن ان واقعات کی روح کے بطن سے اعلیٰ کردار، ایثار اور قوم سے بےلوث محبت کے اصول جنم لیتے اور نکھر کر سامنے آتے ہیں۔ ان حضرات کے صاف دامن اور کردار پر ان کے بدترین دشمن بھی انگلی نہ اٹھاسکے۔ اثاثے بنانے، سیاسی خرید و فروخت میں ملوث ہونے، منی لانڈرنگ، کمیشن خوری اور بیرون ملک جائیدادیں خریدنے کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، ان حضرات پر تو قومی خزانے سے ایک پائی بھی ناجائز خرچ کرنے یا اقرباء پروری اور دوست نوازی کرنے کا الزام تک نہیں تھا۔ قائد اعظم اور نوابزادہ لیاقت علی خان نے تو اپنی جائیدادیں اور جمع پونجی بھی قوم کو دے دی اور زندگی کا ایک ایک لمحہ قوم کے لئے وقف کرکے تاریخ میں امر ہوگئے۔ جو لیڈران ان اصولوں سے انحراف کرکے عزت پانا چاہتے ہیں انہیں وقتی طور پر تو سیاسی غلبہ حاصل ہوسکتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ تاریخ انہیں معاف نہیں کرتی، چنانچہ وزیر اعظم صاحب کے بیان کی روشنی میں عزت کی تلاش سے چند ایک بنیادی سوالات جنم لیتے ہیں۔ اول کیا صادق سنجرانی صاحب جمہوری اصولوں کے مطابق اکثریت حاصل کرکے منتخب نہیں ہوئے؟ اگر ان کے لئے اراکین اسمبلیوں کے ضمیر خریدے گئے تو کیا یہ الزام سینیٹ کے نو منتخب اراکین کی اکثریت پہ نہیں لگتا؟ یہ ایسی تلخ حقیقت ہے جس کا ببانگ دہل اعتراف سارے لیڈران کرچکے ہیں اور اب تک اپنی صفوں میں کالی بھیڑیں تلاش کررہے ہیں، جب سینیٹ کی اکثریت اسی طرح منتخب ہوئی ہے تو کیا ایسی سینیٹ عزت و احترام کی مستحق ہے؟ اگر آپ تھوڑا سا ماضی میں جائیں تو راز کھلے گا کہ بہت سے اراکین اسمبلی نے بھی دولت کے زور پر انتخاب جیتے تھے۔ خود وزیر اعظم صاحب اس مشاہدے پر غور فرمائیں اور اس الزام کا جواب تلاش کریں کہ کیا ان کی قیادت نے سینیٹ کے لئے ٹکٹ میرٹ پر دئیے تھے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اکثریت کو ٹکٹ قابلیت کے بجائے ذاتی وفاداری اور ذاتی خدمت کے عوض دئیے گئے۔ کیا ایسی سینیٹ یا اس کے اراکین عوامی نگاہوں میں معزز یا عزت دار ہوسکتے ہیں؟ اور تو اور مسلم لیگ(ن)نے ایک عدالتی مفرور، جس پر اربوں کی کرپشن کے الزامات ہیں، کو سینیٹ کا رکن منتخب کروا کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے جس کے سامنے وفاداریاں خریدنا ہیچ لگتا ہے۔ اس اقدام کا قانونی جواز تو دیا جاسکتا ہے لیکن اخلاقی جواز کہاں سے لائیں گے جبکہ عزت اخلاقی جواز کا ثمر ہوتی ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ عزت کا لفظ اور تصور ہماری معاشرتی اقدار میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور اس حوالے سے سینکڑوں لطیفے مشہور ہیں۔ رہی ہماری سیاست تو اس میدان میں جس طرح عزت کے اصولوں اور اقدار کو پامال کیا گیا ہے اس کے بعد حکمرانوں اور سیاستدانوں کے منہ سے عزت کا لفظ محض ایک مذاق لگتا ہے۔ سیاست اور جمہوریت میں عزت پارٹی وفاداری، میرٹ، جمہوری اصولوں کی پاسداری، اعلیٰ کردار اور کرپشن سے پاک دامن سے ملتی ہے لیکن ہماری نگاہوں کے سامنے ان اصولوں کو جس طرح پامال کیا گیا اس کے بعد بدقسمتی سے ہماری سیاست عزت سے محروم ہوگئی ہے ۔ حکمران جماعت کو 2013میں ایک سنہری موقع ملا تھا کہ وہ پاکستان میں نئے دور کا آغاز کرتی اور اصولی سیاست کو پروان چڑھاتی۔ اصولی سیاست کا تقاضا تھا کہ پارٹی اور قوم کے لئے قربانیاں دینے والے کارکنوں کو اعلیٰ مقامات پر بٹھایا اور سجایا جاتا اور ابن الوقت حواریوں اور درباریوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی۔ اس اصول کے برعکس مشرفی دور میں قربانیاں دینے والے کئی کارکنوں کو نظر انداز کردیا گیا کیونکہ وہ بوجوہ قیادت کو ناپسند تھے اور مشرف کے بہت سے حواریوں کو سینے سے لگا کر وزارتیں، سفارتیں اور اعلیٰ عہدے عطا کردئیے گئے ۔ وزیر اعظم غور فرمائیں تو شاید انہیں احساس ہو کہ نئے جمہوری دور میں بگاڑ کا سلسلہ یہیں سے شروع ہوا اور اسی سلسلے کی انتہا یہ ہے کہ اسمبلیوں کے اراکین نے پارٹی سے بے وفائی کرکے اپنے ووٹوں کی قیمت وصول کی۔ واہ سبحان اللہ چند اراکین اسمبلی کھانے پہ بیٹھے تھے اتفاق سے میں بھی موجود تھا۔ سینیٹ کے حوالے سے خرید و فروخت کا ذکر ہوا تو ایک رکن نے سچی بات کہہ دی۔ کہا جب سب دولت بنارہے ہیں تو کیا اراکین اسمبلی پر چند کروڑ بنانا حرام ہے؟ وزیر اعظم صاحب سینے پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ کیا کبھی ایسی بات قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں کے عہد میں کہی یا سنی گئی؟ نہیں بالکل نہیں تو پھر وزیر اعظم صاحب اس کرپٹ دور میں عزت کہاں سے ڈھونڈرہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ سینیٹ کے انتخابات نے ہماری جمہوریت کے وقار کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے اور آنے والے انتخابات کی جھلک دکھا دی ہے۔

تازہ ترین