• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک کرسی کی کہانی

آپ کو ایک حیرت انگیز کرسی کی کہانی سنانے کے لئے میں کہیں نہیں جارہا۔ اس لئے میں یہ نہیں کہتا کہ میں آپ کو آج ایک کہانی سنانے جارہا ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس لئے آپ کو کہانی سنانے کے لئے میں کہیں نہیں جارہا ۔ آپ اس ہال میں موجود ہیں۔ میں بھی اس ہال میں موجود ہوں۔ مہمان خصوصی بھی اسی ہال میں موجود ہیں اور ہم سب سے اچھے حال میں ہیں۔ وہ ایک خصوصی کرسی پر برا جمان ہیں۔ مہمان خصوصی ہمیشہ خصوصی کرسی پر بیٹھتے ہیں۔ وہ عام کرسی پر نہیں بیٹھتے۔ عام کرسی پر آپ بیٹھتے ہیں، آپ کے بچے بیٹھتے ہیں۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ ایک کرسی کی کہانی سنانے کے لئے میں کہیں نہیں جارہا ۔آپ یہیں موجود ہیں۔ میں بھی یہیں موجود ہوں۔ میں آج آپ کو ایک حیرت انگیز کرسی کی کہانی سناتا ہوں۔
اس کہانی کو آپ کہانی مت سمجھیں ۔ ویسے کہتے ہیں کہ کہانی سنی یا پڑھی جاتی ہے۔ مگر آج کی کہانی میری دیکھی بھالی کہانی ہے۔ یہ کہانی میں نے کسی کی زبانی نہیں سنی ہے۔ یہ کہانی میں نے پڑھی بھی نہیں ہے۔ یہ کہانی میں نے دیکھی ہے۔ اور جو کچھ میں نے دیکھا تھا وہ آپ کے گوش گزار کررہا ہوں۔ اس کہانی کو میں نے بچپن میں دیکھا تھا۔ اس کہانی کو میں نے لڑکپن میں دیکھا تھا۔ اس کہانی کو میں نے جوانی میں دیکھا تھا۔ اس کہانی کو میں نے ادھیڑ عمر میں دیکھا تھا۔ اس کہانی کو میں نے بڑھاپے میں دیکھا تھا۔ اور اب بوڑھا کھوسٹ ہوجانے کے بعد میں وہی کہانی دیکھ رہا ہوں۔
قصہ کچھ اس طرح ہے کہ ہم کراچی میں برنس گارڈن کے قریب ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ پڑوس کے ہم بچے کھیل کود کرنے کیلئے ہر شام برنس گارڈن کا رخ کرتے تھے۔ اور خوب بھاگ دوڑ کرتے تھے۔ برنس گارڈن کے بیچوں بیچ گنبد والی ایک بے انتہا خوبصورت عمارت ہوا کرتی تھی۔ پتھر سے بنی ہوئی وہ عمارت آج بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ تب وہ عمارت ہمیں بڑی پراسرار لگتی تھی۔ اس کے قریب جاتے ہوئے عجیب قسم کا خوف محسوس ہوتا تھا۔ اس عمارت کی الماریوں میں مورتیاں ٹوٹے پھوٹے برتن، پرانے سکے، جانوروں کے ڈھانچے اور اسی نوعیت کے بے شمار نوادرات بڑے سلیقے سے سجائے ہوئے ہوتے تھے۔ اس عمارت کو کچھ لوگ بت خانہ اور کچھ لوگ بھوت خانہ کہتے تھے۔ اصل میں وہ کراچی کا میوزیم Museum تھا۔ اب اس عمارت میں سپریم کورٹ کے مقدمے چلتے ہیں۔
بت خانہ یا بھوت خانہ کے عقب میں پیپل کے گھنے درخت لگے ہوتے تھے۔ پندرہ روزہ سردیوں کی چھٹیوں میں کراچی کے تمام اسکول بند ہوجاتے تھے۔ کلفٹن، کیماڑی، گاندھی گارڈن، جوکہ Zooبھی تھا، جہانگیر پارک، فرئیر ہال گارڈن، برنس گارڈن اور دیگر تفریح گاہوں میں چہل پہل بڑھ جاتی تھی۔ انہی دنوں میں برنس گارڈن میں بت خانہ یا بھوت خانہ کے قریب ایک لحیم شحیم شخص بچوں کو کرتب اور جادوئی کھیل دکھانے آتا تھا۔ باریش، سر کے بال شانوں تک بڑھے ہوئے، آنکھوں پر لوہے کے باریک فریم والی عینک اور اوور کوٹ پہننے ہوئے بوڑھے کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کون تھا کہاں سے آتا تھا، اور سردیوں کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد وہ کہاں چلا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ واپس جانے سے پہلے اس نے ہم بچوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگلی سردیوں کی چھٹیوں میں وہ ہمیں ایک ایسی کرسی دکھائے گا جس کرسی نے دنیا کو دیوانہ بنادیا ہے۔ دنیا بھر کے لوگ اس کرسی پر بیٹھنے کے لئے کچھ بھی کرگزرنے کو تیار رہتےہیں۔
اس پراسرار شخص کا نام بڑا عجیب اور انوکھا تھا۔ وہ کہتا تھا، میرا نام تارک الدنیا ہے۔ تم بچے مجھے تارک کہہ سکتے ہو۔ اور ہم بچے احتراماً اسے استاد تارک کہا کرتے تھے (طارق نہیں)۔ اگلا برس ہم نے بڑے تجسس میں گزارا اور بے چینی سے استاد تارک کے آنے کا انتظار کرتے رہے۔ خدا خدا کرتے سردی آئی۔ ہمیں سردی کی چھٹیاں ملیں۔ اسکول بند ہوگئے۔ کراچی کی تفریح گاہوں کی رونقیں بڑھ گئیں۔ ایسے میں ایک روز ہمیں استاد تارک برنس گارڈن میں دکھائی دئیے۔ استاد تارک نے کندھے پر ایک لکڑی سے بنی ہوئی معمولی کرسی اٹھا رکھی تھی۔ا ستاد تارک نے کندھے سے کرسی اتار کر پیپل کے درخت کے نیچے رکھ دی۔ کرسی دیکھ کر ہم بچے بہت مایوس ہوئے۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ کرسی سونے چاندی سے بنی ہوئی ہوگئی اور اس میں ہیرے جواہر لگے ہوئے ہوں گے۔ مگر وہ بڑی ہی بد نما کرسی تھی۔ لگتا تھا استاد تارک کسی کباڑ خانہ سے کرسی اٹھا کر لایا تھا۔
استا د تارک نے کرسی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: ایک مرتبہ ایک گونگا اس کرسی پر بیٹھا تھا۔ کرسی پر بیٹھتے ہی گونگا فر فر بولنے لگا تھا۔
بچوں نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ استاد تارک نے کہا: ایک مرتبہ ایک پاگل اس کرسی پر بیٹھا تھا۔ کرسی پر بیٹھتے ہی وہ عقلمند بن گیا تھا۔
بچوں نے دوسری طرف دیکھا۔ استاد تارک نے کہا: ایک مرتبہ ایک نابینا اس کرسی پر بیٹھا تھا۔ کرسی پر بیٹھتے ہی وہ سات سمندر پار دیکھنے لگا تھا۔
ایک بچے نے پوچھا:کیا کبھی کوئی بہرا اس کرسی پر بیٹھا تھا؟
استاد تارک نے کہا:ہاں وہ بیٹھا تھا۔ مگر بہرے کا بہرا ہی رہا۔
بچوں کو تعجب ہوا۔ سب کے منہ سے نکلا : اوہ۔
استاد تارک نے کہا: اس کرسی کی ایک بات بڑی عجیب ہے۔ اس پر بیٹھنے والا ہر شخص بہرا بن جاتا ہے۔ وہ کسی کی نہیں سنتا۔ صرف اپنی سنتا ہے۔
بات بچوں کے سر سے گزر گئی۔ا ستاد تارک نے کہا: ایک مرتبہ ایک منصف اسی کرسی پر بیٹھا تھا۔ وہ پھر کبھی انصاف نہ کرسکا۔
بچوں کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلےرہ گئے۔ استاد تارک نے کہا: ایک مرتبہ ایک ڈاکو اس کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔ کرسی پر بیٹھتے ہی وہ منصف بن گیا ۔ سب سے پہلے اس نے اپنے آپ کو تمام الزامات سے بری کردیا تھا۔
ایک بچے نے پوچھا:کبھی کوئی کواا س کرسی پر بیٹھا تھا؟
’’ہاں ، بیٹھا تھا۔‘‘ استاد تارک نے کہا۔ ’’کرسی پر بیٹھنے کے بعد کوا ہنس کی چال چلنے لگا تھا۔ ایک مرتبہ ایک گیڈر اس کرسی پر بیٹھا تھا اور وہ خود کو ببر شیر سمجھنے لگا تھا۔
سب سے چھوٹے بچے نے پوچھا: کیا یہ طلسماتی کرسی ہے؟
’’نہیں۔ یہ طلسماتی کرسی نہیں ہے۔‘‘ استاد تارک نے کہا: یہ اقتدار کی کرسی ہے۔
یہ سنتے ہی بچے کرسی پر ٹوٹ پڑے۔ ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوگئے۔ کرسی پر قبضہ کرنے کے لئے ایک دوسرے کو لہو لہان کردیا۔ اس بات کو ستر برس گزر گئے ہیں۔ بچے بڑے نہیں ہوئے۔ اقتدار کی کرسی پر قبضہ کرنے کے لئے وہ ایک دوسرے کو لہو لہان کرنے سے باز نہیں آئے۔

تازہ ترین