• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فاروق ستار کو پی ایس ایل بہت مہنگا پڑا ہے۔ فائنل کے ایک دن بعد انہیں شکست ہوئی انہیں بہادر آباد والوں نے بہت مارا۔ امپائر کے فیصلے سے پی آئی بی کو مایوسی ہوئی ۔ یوں ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ ٹیسوری کے ہاتھوں بجھ گیا۔
آج مجھے پاکستان کے سول سرونٹس یعنی پبلک سرونٹس سے متعلق کچھ کہنا ہے کیونکہ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے افسران سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ افسران سیاسی دبائو قبول نہ کریں بلکہ وہی کام کریں جو قانون کہتا ہے، انہیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ اپنے فرائض عوامی فلاح و ملکی بہتری کے لئے انجام دیں۔اسے آپ اتفاق سمجھیں کہ پاکستان میں پہلے چالیس برس افسران نے ایسا ہی کیا پھر ان پر سیاسی دبائو پڑنا شروع ہوا اور پھر وہ سیاسی دبائو کا حصہ بن گئے اور آج یہ صورتحال ہے کہ بیورو کریسی میں ن گروپ ہے جس کسی کا ’’ن‘‘ گروپ سے تعلق ہے ، اسے اچھی پوسٹنگ مل جاتی ہے اور جس بے چارے کا تعلق صرف بیورو کریسی سے ہو، اسے نہ تو اچھی پوسٹنگ ملتی ہے اور نہ ہی کوئی ڈھنگ کی جگہ، جب تک وہ افسران اعلیٰکی قیادت میں طاقتور گروپ جوائن نہیں کرلیتا، اس وقت تک پوسٹنگ تو دور کی بات پروموشن بھی نہیں ہو سکتی۔ ایسی صورت حال میں افسران کیا کریں، ان حالات میں جب سیاستدان اپنے جلسوں کی ذمہ داریاں بھی ان پر ڈال دیں۔ میں پاکستانی بیورو کریسی کی مجبوریوں کو سامنے رکھ کر لکھنے پر مجبور ہوا ہوں۔ برسوں پہلے قائد اعظم ؒنے کیوں بیورو کریسی سے کہا تھا کہ وہ سیاسی دبائو قبول نہ کرے، اس کے پس پردہ بڑی حکمت تھی، اگر آپ کو بیورو کریسی کے کام سے واقفیتہے تو پھر آپ کو پتہ ہو گا کہ افسران کو اس بڑی آبادی کے خلاف کام کرنا پڑتا ہے جو حکومتی پارٹی کی حامی نہیں ہوتی۔ افسران کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے ان کی ٹرانسفرپوسٹنگ سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والوں کے ہاتھ میں نہیں ہونی چاہئے کیونکہ پھر افسران عوام کی خدمت کے بجائےسیاسی اثر و رسوخ رکھنے والوں کے خدمت گزار بن جاتے ہیں، اصولی طور پر تو پوسٹنگ کے وقت مدت کا تعین ہونا چاہئے تاکہ کسی بھی ضلع میں تعینات ہونے والے ڈی سی او اور ڈی پی او کو پتہ ہو کہ وہ اتنے سالوں کے لئے ہے اور وہ اس ضلع میں ہونے والے کاموں کا ذمہ دار ہے۔ بالکل ایسے ہی ہونا چاہئے جیسے فوج میں پوسٹنگ ہوتی ہے جیسے انہیں سافٹ اور ہارڈ ایریا میں خدمات انجام دینا پڑتی ہیں۔ افسوس بیورو کریسی میں محض تعلقات کی بنیاد پر کئی افسران کئی کئی سال ایک ہی شہر میں گزار دیتے ہیں۔ یہاں ایک بات کا تذکرہ کرتا چلوں کہ بیورو کریسی میں جو افسر کسی تفریق کے بغیر عوام کی خدمت کرتا ہے اسے سیاسی اثر رکھنے والوں کی جادوگری کھا جاتی ہے۔اسے جلد ہی سائیڈ پر لگا دیا جاتا ہے۔ اچھی جگہ پانے کے لئے حکومتی وفاداری ضروری ہے ، اپوزیشن سے تعلق رکھنے والوں کو دبانا بھی ضروری ہے۔
افسروں پر مقامی سیاستدانوں کا اثر ختم کرنے کے لئے ایسے سیاستدانوں کے انٹرایکشن کا طریقہ کار بھی واضح ہونا چاہئے تاکہ افسروں کو خواہ مخواہ پریشانیوں کا سامنا نہ ہو۔ہمارے ہاں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ درست کام کرنے والے افسران کو سیاستدانوں کی طرف سے گالیاں دی گئیں۔ کچھ افسران کو زدوکوب بھی کیا گیا۔ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ افسران کی شنوائی کا نظام بھی نہیں ہے۔ وہ کس سے شکایت کریں، اپنے دکھڑے کسے سنائیں اسی لئے پھر ایماندار افسران اپنی نوکری اور عزت بچانے کی خاطر سیاستدانوں کے غلط احکامات بھی مانتے ہیں ہمارے ہاں خیال نہیں رکھا جاتا ورنہ دنیا بھر میں افسروں کی اگلی تعیناتی سے پہلے ، پچھلی پرفارمنس کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ افسران کی تنخواہیں بھی مناسب ہونی چاہئیں۔ بھٹو صاحب نے اس سلسلے میں کام کیا تھا انہوں نے سی ایس پی افسر کی تنخواہ گریڈ سترہ آغاز سفر میں ایک تولہ سونا کے برابر بنیادی تنخواہ (بیک پےا سکیل) مقرر تھی مگر بعد میں آنے والوں نے اس کا خیال ہی نہ رکھا اور حالت یہ ہے کہ گریڈ بیس کے افسر کی بنیادی تنخواہ بھی ایک تولہ سونے کے برابر نہیں ۔ یاد رہے کہ افسران کی مجبوریوں میں تنخواہ کا بنیادی کردار ہے۔ گریڈ سترہ کے افسر کی تنخواہ معمولی پرائیویٹ ملازم سے بھی کم ہے اگر تنخواہیں اچھی نہ ہوں تو پھر دو ہی راستے بچتے ہیں کہ یا تو نوکری چھوڑ دی جائے یا پھر ایسے راستے اختیار کئے جائیں جن پر چل کر تنخواہ کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔ اسی لئے اب بہت سے قابل افراد سول سروس کی طرف نہیں آتے۔ کیا یہ بات درست نہیں کہ جب تھوڑ ی تنخواہ والے کے پاس اربوں کے کیسز آئیں گے تو کرپشن کے چانسز بڑھ جائیں گے ۔ عدلیہ میں تنخواہیں سول سروس سے دوگنا ہیں، پوسٹنگ کا تحفظ بھی ہے، وہاں کوئی بڑا سیاستدان بھی فرائض کی انجام دہی پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ ویسے تو میں کئی ماہ پہلے لکھ چکا ہوں کہ فارن سروس اور انفارمیشن سروس کی طرز پر سول سروس میں جوڈیشل سروس کو بھی شامل کیا جائے۔ یہ بھی خیال رہے کہ کسی جج کو کوئی ایم پی اے یا ایم این اے تبدیل نہیں کراسکتا۔مگر ایک ایم این اے یا ایم پی اے سیکرٹری لیول کے افسر پر اثر انداز ہوتا ہے، افسر رکاوٹ بنے تو تبادلہ کر دیا جاتا ہے، اسے سزا کے طور پر برس ہا برس تک اچھی پوسٹنگ سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ان حالات میں ایک سول سرونٹ کیسے انصاف کر سکتا ہے، کیسے عام آدمی کی خدمت کر سکتا ہے، کیسے اپنی عزت کی حفاظت کر سکتا ہے، کیسے اپنی نوکری بچا سکتا ہے۔ آپ اگر پنجاب میں کام کرنے والی بیورو کریسی کا بطور خاص مطالعہ کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ صرف سیاسی لوگوں کی بات مانتے ہیں، دوسروں کا تو فون سننا بھی پسند نہیں کرتے۔ ہمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی اپنی پوری سول سروس کو قائد اعظمؒ کے فرمان کے مطابق ڈھال دیں۔ اپنی سول سروس کا از خود جائزہ لیں۔ نظام کو بہتر کر دیں تاکہ آئندہ کوئی احد چیمہ، کوئی نبیل اعوان یا کوئی فواد حسن فواد بننے کی کوشش نہ کرے، جب تک ایسے افراد بیورو کریسی میں پیدا ہوتے رہیں گے لوگ رلتے رہیں گے۔ ہمیں اپنے پیارے پاکستانیوں کو رلنے سے بچانا ہے، ہمارے لئے ہر پاکستانی مقدم ہونا چاہئے۔ یاد رکھیے کہ عزت نفس ختم ہونے پر جرائم کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو تا ہے ، ہمیں ایسے کاموں سے افسروں کو روکنا ہوگا جن سے کسی کی بھی عزت نفس مجروح ہوتی ہو۔ بقول غالب:
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک

تازہ ترین