اقتدار کے ایوانوں سے بے دخلی، الزامات کی گردان اور مجھے کیوں نکالا کے منتر کے بعد بات چیت پر آمادہ ہونے کا عندیہ شاید بے وقت کی راگنی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اتنا کچھ بیت جانے کے بعد اب اس بیان کی ضرورت تھی نہ اہمیت ہے۔ قائد محترم جانتے ہیں جو ہونا تھا ہوچکا لہٰذا اب پچھتائے کیا ہوت! اب تو ڈیمیج کنٹرول کا وقت بھی گزر چکا شاید فیصلوں کا، فیصلہ کن مرحلوں کا وقت آن پہنچا ہے۔ دیکھا جائے تو کمپرو مائز سےانکار اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ وجود پاچکا ہے، اس بیانیے سے بیک آئوٹ کرنا محض سیاسی خودکشی کےمترادف ہوگا۔ اس بیانیے سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے، اب اس سے انکار بھی ممکن نہیں رہا، آج اس بیانیے کے ساتھ کوئی نہ کھڑا ہوا تو کل اس کو پچھتانا پڑے گا، کیونکہ جمہور کا یہ بیانیہ جمہوریت کی اصل روح بن سکتا ہے۔ حقیقت ہے کہ جب تک ووٹ بکتا رہے گا، ووٹ کی پرچی قیمتی ہو کر بھی بے قیمت رہے گی، عوام کا کیا ہوا ہر فیصلہ بے توقیر ہی رہے گا، ووٹ کی اہمیت کے احساس سے عاری نظام کے جاری رہنے سے حقیقی جمہوریت کا خواب بھی ادھورا رہے گا۔
آج کل جو کچھ ہو رہا ہے بڑے میاں یہ حالات دو مرتبہ پہلے بھی بھگت چکے ہیں، نیب کیسز پہلے بنے تھے، سزائیں پہلے بھی ہوئی تھیں، جیلیں کاٹی تھیں اور دیس نکالا بھی لیا تھا، تو اب کیا نیب کی عدالتوں کے ’’ارادوں‘‘ سے ان کے حوصلے کم ہوجائیں گے؟ ناقدین شاید اسی سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابھی توعشق کے امتحان اور بھی ہیں، اپنے کینسر زدہ بیمار ہم سفر سے ملنے کی اجازت نہ ملنا بھی اسی واردات کا حصہ ہے جو ان کے ساتھ پہلے بھی ہوچکی ہے لیکن تنقید کرنے والوں کی رائے میں اب کی بار بیٹی کے مستقبل کی فکر ان کی کمزوری بن رہی ہے تبھی وہ جیل جانے کا راستہ مذاکراتی آفر سے بدلنے کی آخری کوشش سے بدلنا چاہتے ہیں لیکن دیر ہوچکی ہے۔۔۔! کہنے والے کہتے ہیں کہ اس مقام پر بے حوصلہ ہونا سود مند نہیں کیونکہ آپ نےجی ٹی روڈ کا انتخاب اور نئے بیانیے سے جذبوں کو گرمایا ہے، ابھی تو خودی کے آغاز کا لمحہ آیا ہے اور ابھی سے تھک کر رکنے اور ہار نے کا سوال پیدا ہورہا ہے؟ اقتدار سے نکلنا آسان نہ تھا لیکن جب نکل پڑے تو پھر منزل تک پہنچنے سے پہلے گھبرانا کیسا؟ ابھی تو عوام اس سمجھ کے قریب پہنچنا شروع ہوئے کہ ان کے ووٹ کے ساتھ بیلٹ باکس میں پہنچنے سے پہلے اور بعد میں ہوتا کیا ہے۔ گویا عوام شعور کی پہلی منزل کو چھو چکے ہیں۔ اب انہیں بیچ منجدھار چھوڑنا ایسے ہی ہوگا جیسے بے وفائی جیسا جرم۔
تجزیہ کار اس امر کو رد نہیں کرتے کہ بڑے میاں اگر چاہتے ہیں کہ تصادم سے بچ کر اپنے بیانیے کو حقیقی انداز میں عملی جامہ پہنائیں تو تعاون کی راہ اپنانے میں کوئی حرج بھی نہیں تاہم اداروں سے ہاتھ ملانے کی آفر میں ذاتی مفاد کی بو نہیں آنی چاہئے، کیونکہ جس انداز میں پاناما سے اتر کر اقامہ اور جے آئی ٹی سے لے کر نیب کے گواہوں تک کی کہانیاں میاں صاحب کی ثابت قدمی کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوئیں، مزید سخت فیصلے بھی انہیں ہیرو بنانے میں معاون ثابت ہوں گے۔
جمہوری نظام کی مضبوطی کا ایک اہم پہلو احتساب بھی ہے لیکن پاکستان میں شفاف احتساب کی روایت بوجوہ کبھی پروان نہیں چڑھ سکی۔ موجودہ احتساب چیئرمین صاحب کا کہنا ہے کہ وہ ہر قسم کے تعصب اور دبائو سے بالاتر ہوکر برابری کی بنیاد پر احتساب کا عمل شروع کر چکے ہیں، اب وہ اس میں کوئی رکاوٹ برداشت کریں گے نہ اس کو روکنے دیں گے اب کیا ہی اچھا ہے کہ سب کو برابری کی بنیاد پر احتساب کی چھلنی سے گزارنے کا عمل شروع کیا جائے تاکہ نہ کوئی بندہ رہے نہ کوئی بندہ نواز۔ کسی کے خلاف اگر ماضی میں کیسز تھے تو ان کا بھی روزانہ کی بنیاد پر کارروائی کا آغاز ہونا چاہئے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں۔ پنجاب کےسرخیل چھوٹے بھائی کی پرفارمنس ترقیاتی کاموں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں لیکن اب ان پر دوہری ہی نہیں تہری ذمہ داری آن پڑی ہے اب انہیں جہاں اپنی ساکھ کے علاوہ ایک طرف جماعت کو بچانا ہے وہیں اپنے بھائی کی خلاصی کا بھی انتظام کرنا ہے، ماضی کی طرح انہیں مشکل حالات سے نمٹنے کی حکمت عملی کو حقیقی عمل میں جلد بدلنے کی ضرورت ہے، گو انہوں نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں اور کئی سخت اقدامات کا نجی محفلوں یا عوامی اجتماعات میں زیر بحث نہ لانے کی اسٹرٹیجی کو ترجیح بنایا ہے وہیں کئی مقامات پر اپنی موجودگی میں بھائی اور بھتیجی کو ایسے عمل سے بھی باز رکھا ہے، چھوٹے میاں کی اس ذہین سیاسی وجمہوری چال نے ابھی تک انہیں کسی ’’نازک‘‘ موڑ سے بچایا ہوا ہے، وہ اپنی ذمہ داری کو نبھانے میں کامیاب رہے تو یقینی طور پر آئندہ کا انتخابی نتیجہ ن لیگ کے لئے اچھی خبر بن سکتا ہے۔ دوسری طرف نئے پاکستان کی تعمیر میں مصروف جماعت میں ’’میرٹ‘‘ پر بھرتی کا سلسلہ جاری ہے وہ تمام خوبصورت چہرے اور بہترین کردار جو اپنے ’’زبان وبیان‘‘ میں ثانی نہیں رکھتے نیک کاز کا حصہ بن رہے ہیں۔ خان صاحب سمجھتے ہیں کہ شاید اسی توانا ہر اول دستے کی مدد سے وہ وزیراعظم بن جائیں گے؟
اسٹیبلشمنٹ کو پیاری ہو جانے والی جمہوری جماعت پیپلزپارٹی بھی بدستور عطار کے لونڈے سے دوا لینے پر مصر ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی کارکردگی کی بنیاد پر اس سال کے عام انتخابات کے نتائج بھی2013ء کے انتخابی نتائج سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوں گے۔
عوام کے لئے ایک اور خوش کن خبر یہ ہے کہ ان کے دین کے دعویدار محافظ ایک مرتبہ پھر ایک ہوگئے ہیں جنہوں نے متحد ہوکر اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے عوامی مینڈیٹ کو کسی کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننے دیں گے، سبحان اللہ کیا جذبہ ہے، بےچارے عوام کے کیا کہنے جو یہ سن کر اپنا سوالیہ سا منہ لے کر رہ گئے ہیں کہ گزشتہ ساڑھے چار برس اور اب بھی وفاقی حکومت اور پختونخوا حکومت کا دایاں بازو بن کر بھرپور فائدہ اٹھانے والی طاقتیں نجانے کون ہیں؟ عوام کے مینڈیٹ کا ذاتی مقاصد کے لئے بھرپور استعمال کے بعد نئے عمل کے لئے اتحاد بڑی پیش رفت ہے یقینی طور پر عوام اگر مشرف دور نہیں بھولے تو یہی اتحاد کے پی میں براہ راست اقتدار اور وفاق کا دست راست رہا جس کے دوران بھیانک قانون و آئین سازی ریکارڈ کا حصہ بنی۔ ہوسکتا ہے اب عوام زیادہ سمجھدار ہوگئے ہوں تو انہیں مزید بھاری مینڈیٹ سے ضرور کامیاب کریں گے۔ بلوچستان میں نئی جماعت کے جنم نے مُش پیٹریاٹس کی یاد تازہ کردی ہے، صوبے کے نازک حالات میں خدشہ ہے کہ کوئی سیاسی بھونچال، سیکورٹی فورسز خاص کر پاک فوج کی انگنت کامیابیوں اور امن بحال کرنے کی کوششوں کو متاثر نہ کردے۔ سیاسی و جمہوری نظام کی مضبوطی صوبے کی ضرورت ہے تاکہ گوادر اور سی پیک جیسے منصوبے کامیابی سے ہم کنار ہوسکیں۔ قابل حوصلہ امر یہ ہے کہ ملک میں اداروں کے درمیان بڑھتی خلیج میں کمی کا ادراک بھی بڑھ رہا ہے، خود آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جمہوریت کی قدر کرتے ہیں اور جمہوری اقدار پر بھی یقین رکھتے ہیں لہٰذا اس موقع کو سنہری موقع سمجھ کر سیاسی طاقتوں کو جمہوری نظام کی مضبوطی کا بیڑا اب خود اٹھانا چاہئے۔ عام انتخابات سے پہلے ابھی مزید نااہلیاں متوقع ہیں جبکہ کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر انتخابی شیڈول بھی تاخیر کا شکار ہونے کا احتمال ہے، تاہم سیاسی صف بندیوں میں سست روی اور آپس کی لڑائی کسی جماعت کے لئے سودمند نہیں ہوگی۔