• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دورِنو.....

وہ والدین جو میرے قارئین ہیں، ان کا یہ خیال تھا کہ مجھے کہہ کر پاکستان سپر لیگ کے میچز رکو ا ئے جا سکتے ہیں۔ جو کہ بڑی جدوجہد کے بعد کامیابی سے منعقد ہورہے تھے مجھے والدین کی کثیر تعداد نے ای میلز، ایس ایم ایس کے ذریعے اور سوشل میڈیا کی مدد سے یہ باورکرانے کی کوشش کی کہ چونکہ ان کے بچوں کے سالانہ امتحانات ہورہے ہیں ایسے میں کرکٹ میچز کا انعقاد بچوں کے امتحانات پر اثر اندازہورہا ہے۔بچے رات گئے تک ٹی وی پر بیٹھے میچز دیکھتے رہتے ہیں اور میچز کے بعد بھی وہ کرکٹ کے سحر سے خود کو آزاد نہیں کراسکتے۔جہاں میں والدین کو یہ تسلی دیتا کہ واقعی بچوں کے امتحانات خاص طورپر چھوٹی کلاسز کے بچوں کے امتحانات کے دوران کرکٹ لیگ کے انعقاد سے ان کی پڑھائی اور امتحانات میں کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔اس لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ وہ پی ایس ایل کے چوتھے ایڈیشن میں اس بات کا خیال رکھے کہ بچے دلجمعی سے اپنے امتحانات دے سکیں اور امتحانات کے بعد یا پہلے لیگ کرانے کو ممکن بنایاجائے۔دوسرا میں والدین کو یہ کہتا رہا کہ بچے اگر سارا سال اپنی روٹین کے مطابق پڑھائی کرتے رہیں تو پھر اگر اس طرح کی سرگرمی میں شریک بھی ہوجائیں تو زیادہ فرق نہیں پڑتا بلکہ بچے اس تفریح سے تازہ دم ہو کر اپنی کارکردگی میں اضافہ کرسکتے ہیں ۔لیکن بعض والدین کاجواب تھا کہ بچے کرکٹ دیکھ کر اتنے سحر زدہ ہوجاتے ہیں کہ پڑ ھنے کی بجا ئے کتابوں اور کاپیوں کو بلے کے انداز میں پکڑ کر شارٹس کھیلتے رہتے ہیں اور دیگر اشیاء کو بال بنا کر ہاتھوں میں گھماتے رہتے ہیں اور پھر میں والدین کے سامنے لاجواب ہوجاتا ہوں۔کیونکہ بچے تو کیا پاکستان سپر لیگ نے پورے ملک کو ہی سحر زدہ کئے رکھا ،خاص طور پر کراچی میں کھیلے جانے والے فائنل اور لاہور میں کھیلے جانے والے دوناک آئوٹ میچز نے تو گویا پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھا اورکرکٹ کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا۔ اس کے لئے جہاں حکومت پاکستان،حکومت سندھ،پاک فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تعریف بنتی ہے وہاں پی سی بی کے چیئرمین نجم سیٹھی کی لگن اور صلاحیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔کون جیتا،کون ہارا کس نے ز یادہ چھکے مارے اور کس نے زیادہ چوکے اس سے بڑھ کر یہ نظارہ تھا کہ میں نے پاکستانیوں کے چہروں پر خوشی کے تا ثرا ت دیکھے ۔ جس ملک میں دہشت گردی کی طویل جنگ ہوئی ہو، کھلاڑیوں، گرائونڈز، تعلیمی اداروں، مارکیٹوں،بازاروں مساجد اور بسوں اور ریلویز کو دہشت گر دی کا نشانہ بنایاگیا ہو۔چاروں طرف خون کے دھبے ،جسموں کے لوتھڑے اور بموں کے بارود کی بو کے ڈیرے رہے ہوں وہاں یہ خوشی دیدنی تھی بلکہ گرائونڈز میں قومی ترانے کی گونج اورچاند تارے سے مزین قومی پرچم کو لہراتے دیکھ کر کئی لوگوں کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی ،کیونکہ وطن اور وطن کی مٹی کی محبت میں عجیب کشش اور سحر ہوتا ہے اور اسکا عکس پی ایس ایل کے دو ران بھر پو ر طریقے سے نظر آ یا۔ میں پاکستان سپر لیگ میں شامل ایک ایک کھلاڑی ایک ایک آفیشلز اورہراس شخص کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جس نے وکٹ پر جھاڑو پھیرکر اس کو خوشنما بنانے میں بھی اپنا کردارادا کیا۔ میں اپنے دوست جاوید آفریدی جو پشاورزلمی کے اونر ہیں ان کو بھی خاص طورپر خراج تحسین پیش کرتا ہوں جن کی ٹیم جیت رہی ہو یا ہار رہی ہو،ان کے بلے باز چوکے چھکے لگارہے ہوں یا با ئو لر وکٹیں اڑارہے ہوں۔ان کی ٹیم کی وکٹیں گررہی ہوں یا ان کے اپنے بائولرز کی پٹائی ہورہی ان کے چہرے کی دل آویز مسکراہٹ ہمیشہ ان کی شخصیت کا حصہ رہی ،بلکہ ان کی مسکراہٹ یہ پیغام دے رہی ہوتی تھی کہ کرکٹ ایک کھیل ہے جو صرف ہار جیت کے لئے نہیں ہے بلکہ کھیل کے لئے سب سے بڑا میڈل اسپورٹس مین اسپرٹ ہوتی ہے۔جاوید آفریدی کو میں نے عموماــکہتے سنا کہ کرکٹ میرا ایسا شوق ہے جیسے یہ میری پوری قوم کا عشق ہے ،میری جیت یہی ہے کہ میری قوم کے چہرے پرمسکراہٹ ہو۔جاوید آفریدی اپنی اسی مسکراہٹ کی وجہ سے نہ صرف کھیلوں کے حلقوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں بلکہ عوام میں بھی ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ گزشتہ سال وہ سوشل میڈیا پر مقبولیت کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر تھے اور ملک کی سیاسی اور دیگر شخصیات ان سے دور دور تھیں۔کاش ہماری سیاست اور دیگر شعبوں میں بھی ہار جیت سے بڑھ کر ،ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں ساری اسپورٹس مین اسپرٹ کو پس پشت ڈال دینے کی بجائے پیار محبت اور نرم خوئی کو اپنایاجائے تو دنیا کی ہر فیلڈ میں جیت ہماری ہی ہوگی۔

تازہ ترین