• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چھبیس سال کی عمر ہو اورجسم پر فوج کی وردی اور عہدہ کپتان کا ہوتو ایک نوجوان کو اس سے زیادہ کیا چاہیے، فوج میں عہدہ سنبھالنے سے لیکر اب تک کسی بڑے آپریشن میں شرکت نہ کرنے کا رنج تو تھا ہی لیکن سیاچن میںپوسٹنگ کے باعث اپنے فوجی ہونے پر فخر محسوس ہوتا تھا لیکن پھر بھی کسی بڑے معرکے میں شرکت کی خواہش تھی اورپھر ایک دن کارگل میں پوسٹنگ کے آرڈرز موصول ہوئے تو ایک انجانی سی خوشی دل میں تھی، گھر والوں سے ملاقات کرکے کارگل پہنچ گیا، مجھے اگلی پوسٹ پر تعینات کیا گیا تھا جہاں میری ذمہ داریوں میں دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا اور اہم معلومات سے پیچھے موجود قیادت کو آگاہ کرنا تھا۔ چند دنوں کی مسافت کے بعد میں اپنی پوسٹ پر موجود تھا، جہاں موجود سپاہیوں نے گھی کے کنستر بجا کر خوش آمدید کہا اور پوسٹ کے حالات و واقعات سے اپ ڈیٹ بھی کیا، جبکہ شام کو میرے لئے دعوت کا اہتمام بھی کیا گیا ، جس میں پہلے سے پیک کھانے کا ایک ڈبہ کھولا گیا اور ایک جوان نے آٹا گوندھ کر روٹیاں بنائیں، روٹی بنانے کے لئے گھی کے کنستر کانچلا حصہ استعمال کیا جاتا تھا۔ ہزاروں فٹ بلند برفانی پہاڑ پر دشمن کے سامنے موجود اپنی پوسٹ پر دعوت کا بھی اپنا ہی مزہ تھا، کارگل کی ان پہاڑیوں پر نہ صرف ہم دشمن کی گفتگو سن لیتے تھے بلکہ دشمن بھی ہماری گفتگو سن لیا کرتا تھا، اکثر دشمن سے ہماری بھی گفتگو ہو جاتی تھی جس میں بعض دفعہ ہنسی مذاق کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے دشمنی بھی نکالی جاتی تھی، میں نے اپنی ذمہ داریاں انجام دینا شروع کردی تھیں، روز اپنے دو جوانوں کو لیکر دشمن کی نقل و حرکت دیکھنے کے لئے نکلتا اور اہم معلومات سے اپنے سینئر حکام کو آگاہ کرتا تھا۔ ہر گزرتے دن دشمن کی شیلنگ میں اضافہ ہورہا تھا، جبکہ ہم بھی جوابی اقدامات سے دشمن کو آگے بڑھنے سے روک رہے تھے۔ اس روز بھی میں اپنے جوانوں کے ہمراہ دشمن کی ریکی پر نکلا اورکئی گھنٹے تک پہاڑوں میں سفر کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ ہم بھارتی علاقے میں داخل ہوگئے ہیں کیونکہ ہم ایک بھارتی پوسٹ تک پہنچ گئے تھے جو شاید دشمن ہماری فائرنگ کے بعد خالی کرکے پیچھے بھاگا تھا، پوسٹ میں کھانے کے ڈبے، پیاز، آلو اور شراب کی بوتلیں تک موجود تھیں۔ ابھی ہم جائزہ لے ہی رہے تھے کہ ایک گولہ ہمارے مقام سے چند فٹ کے مقام پر گرا، دشمن کو ہماری موجودگی کا علم ہوچکا تھا، میں نے اندازہ لگالیا کہ اگلا گولہ ہماری لوکیشن پر گرنا ہے شہادت یقینی تھی کلمہ خود بھی پڑھا سپاہیوں کو بھی شہادت کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی ایک سمت کا تعین کرتے ہوئے وائرلیس پر پیچھے اپنی آرٹلری کو دشمن کی جانب شیلنگ کرنے کے احکامات جاری کیے اور اپنی ٹیم کے ساتھ چوٹی کی گہرائی میں پہنچے ۔چند لمحوں بعد دشمن کا گولہ اسی لوکیشن پر گرا جہاں چند سیکنڈ پہلے ہم موجود تھے لیکن ہم جس گہرائی میں پہنچ چکے تھے وہاں گولے کی پہنچ ممکن نہ تھی، جس کے فوری بعد ہماری آرٹلری کی جانب سے کی جانے والی شیلنگ نے دشمن کو خاموش ہونے پر مجبور کردیا۔ کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد ہم اپنی پوسٹ پر باحفاظت پہنچ گئے، کئی دن اسی معمول میں گزرے، اس پوسٹ پر ہمارے پاس نہ تو ٹی وی تھا اور نہ ہی وقت گزاری کے لئے کچھ اور سہولت، میں فارغ وقت میں شاعری کرتا تھا اور اکثر وائر لیس پر سپاہیوں کو نظمیں سنایا کرتا تھا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ میر ی شاعری دشمن میں بھی مقبول ہوگئی ہے۔ ایک روز شام کے اوقات میں ،میں وائرلیس پر اپنے جوانوں کو تازہ نظم سنارہا تھا کہ ایک انجانی آواز میں میری شاعری کی تعریف کی گئی، میری حیرانی دیدنی تھی میں نے پوچھا دوسری طرف کون ہے تو جواب میں، سر میں آپ کا شاہین، شاہین میں اپنے جوانوں کو کہا کرتا تھا لہذا پھر اس کا نام دریافت کیا تو جواب ملا، میرا نام رام سنگھ ہے اور میں آپ کی شاعری بہت شوق سے سنتا ہوں لیکن پہلی دفعہ آپ کی تعریف کرنے پر مجبور ہوگیا ہوں، میں نے بھی ہنس کر کہا کہ رام سنگھ شاعری ضرور سن لو لیکن کسی نرمی کی توقع نہ کرنا، اس طرح کے ہنسی مذاق کارگل میں روزمرہ کا حصہ تھا۔ اسی طرح ایک دن معلوم ہوا کہ پیچھے سے کچھ نئے سپاہی ہماری پوسٹ میں آرہے ہیں جو کافی عرصے سے تعینات سپاہیوں سے تبدیل کیے جائیں گے، پیچھے سے پوچھا گیا کہ پوسٹ کے لئے کچھ چاہیے تو بتادیں، میں نے پوچھا تو سب نے تازہ پیاز منگوانے کی فرمائش کی میں نے دس کلو پیاز منگوایا، چند روز بعد تازہ کمک اپنے ساتھ پیاز بھی لے آئی، جسے دیکھ کر سپاہیوں کی خوشی دیدنی تھی۔ دو مہینے کارگل کی چوٹیوں پر کس طرح گزرے پتہ ہی نہ چلا، اس دوران نشان حیدر حاصل کرنے والے قوم کے بہادر سپوت کیپٹن کرنل شیر خان سے بھی ملاقات ہوئی وہ واقعی ایک دلیر انسان تھے جنھوں نے آخری وقت تک دشمن سے مقابلہ کیا اور دشمن بھی ان کی بہادری کی تائید و تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا، میرے سامنے بیٹھے لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ طارق بیگ کارگل میں گزارے اپنے دو ماہ کے واقعات گوش گزار کررہے تھے، ان کی ریٹائرمنٹ کو پانچ سال ہوچکے ہیں لیکن ان کا جذبہ ابھی تک اسی طرح جواں محسوس ہورہا تھا۔ ان کے مطابق کارگل میں پاک فوج کے جوانوں نے شجاعت اور بہادری کے وہ باب رقم کیے ہیں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی، لیکن ابھی تک ہمارے ان جوانوں کی جرات و بہادری کی داستانیں منظر عام پر نہیں آسکیں لیکن فوج کی تاریخ میں یہ داستانیں ہمیشہ پاک فوج کے جوانوں کی بہادری کااعتراف کرتی رہیں گی، کرنل ریٹائرڈ طارق بیگ سے میرے بہت پرانے خاندانی مراسم ہیں انھیں فنون لطیفہ سے شروع سے ہی لگائو رہا ہے، طالب علمی کے زمانے میں ڈرامے لکھنا، اسکول اور کالج کے فنکشنوں میں گلوکاری اور اداکاری کے مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اور پھر شعر و شاعری سے بھی لگائو ہونے کی وجہ سے ان کے اہل خانہ انھیں مستقبل میں فنون لطیفہ، ادب یا شاعر کے روپ میں دیکھ رہے تھے، اپنے اسی شوق کی تکمیل کے لئے انھوںنے لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹ میں بھی داخلہ لیا۔ لیکن پھر انہیں فوج میں افسر بننے کا شوق ہوااور جب سیکنڈ لیفٹیننٹ کی بھرتی کے لئے اخبار میں اشتہار آیا تو انہوں نے فوراََ ہی اپلائی کردیا اور تمام مراحل کامیابی سے طے کرتے ہوئے وہ فوجی افسر بن گئے اور ان کی زندگی تبدیل ہوگئی۔ وہ آج ایک طویل عرصے بعد میرے سامنے موجود تھے اورزندگی کے چند واقعات سے مجھے آشنا کررہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر پاکستانی پاک فوج کے ہر سپاہی کی طرح ملک سے مخلص ہوجائے تو پاکستان کا مستقبل انتہائی تابناک ہوسکتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین