• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہالینڈ کے شہر ’’دی ہیگ‘‘ میں وہ پینٹنگ تو آپ نے دیکھی ہی ہوگی جو ’’پینوراما‘‘ کے نام سے مشہور ہے، یہ پینٹنگ اپنی خوبصورتی، دلکشی، انفرادیت اور نوعیت کے اعتبار سے عجیب و غریب ہے کہ یہ ایک کھلا ہوا مکمل نظارہ ہے جو نہ صرف دائیں بائیں بلکہ مشرق و مغرب و شمال جنوب تک پھیلی ہوئی ہے ایک دائرے کی شکل میں۔ آپ سامنے لگے جنگلے کو تھام کر دائرہ میں ایک مکمل چکر لگاتے ہیں، یہ پینٹنگ زمان سے لازماں اور مکان سے لامکان کا احاطہ کئے ہوئے ہے، بیکراں وسعتوں کی گہرائیوں میں ایک لاجواب جادوئی شاہکار ہے، ’’دی ہیگ‘‘ کا ساحل سمندر جسکا ولندیزی زبان میں تلفظ Schenveningen ہے کو اس پینٹنگ میں 1881ء کے ایک آرٹسٹ ایچ ڈبلیو مس داخ (H.W.Mesdag) (یاد رہے کہ ڈچ زبان میں جی (G) کو خ (KH) بولتے ہیں) نے بھرپور اور انتہائی مہارت و خوبصورتی سے پیش کیا ہے جسکو ایک کمپنی نے پینوراما کی شکل میں تبدیل کردیا ہے اور اب یہ شاہکار دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، میں یہ بات دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ کوئی ذی شعور اسکو ناپسند یا ’’ایویں‘‘ نہیں کہہ سکتا۔ شاید یہ اپنی نوعیت کی پہلی اور واحد پینٹنگ ہے جو بے مثال ہے۔ فوٹو گرافی اور فلم کی ایجاد سے ذرا پہلے وجود میں آنیوالی یہ پینٹنگ لینڈ اسکیپ کی حقیقی، دلکش اور خوبصورت ترین مثال ہے۔ میرے حساب سے اسوقت دنیا میں قریباً تین سو ایسی پینٹنگ ہیں جو بے مثال اور یکتا ہیں اور یہ پینٹنگ انہی میں سے ایک ہے جو اپنی تصوراتی، طلسماتی اور حیران کن دل فریبی میں سرفہرست اور یکتا ہے۔
پینٹنگ دیکھتے ہوئے جہاں آپ کھڑے ہوتے ہیں وہ ایک دائرہ نما ٹیرس ہے جس کی چھت دائرے کے درمیان میں ایک پلر (ستون) کے سہارے کھڑی ہے۔ یہ چھت بھی ایک دائرے ہی کی شکل میں بنی ہوئی ہے جس کا محیط 120میٹر اور زمین (سطح) سے اونچائی 14 میٹر ہے چونکہ درمیان کے علاوہ اور کوئی سپورٹ یا ستون نہیں ہے اسلئے آپ بیک وقت چاروں جانب کی ہر شے دیکھ سکتے ہیں۔ پینٹنگ دیکھنے والا اسی غلط فہمی میں رہتا ہے کہ سامنے کا نظارہ (پینٹنگ) قریباً سو میٹر دور ہوگا لیکن جیسا کہ بتا چکا ہوں ایسا حقیقت میں نہیں ہے یہ منظر جو کہ ایک مچھیروں کی بستی، ساحل اور سمندر پر مشتمل ہے محض آپ سے چند قدموں کے فاصلے پر ہے۔ یہ نظارہ نہ صرف روشنیوں کی مدد سے انتہائی دیدہ زیب ہے بلکہ خوشگوار حیرت لیے ہوئے بھی ہے کچھ وقت کیلئے یقیناً آپ حیرت کدہ میں گم ہوجائیں گے کہ آپکے سامنے تاحد نظر نیلے آسمان پر بادل اور تیز چلتی ہوئی ہوائوں کا زور و شور ہے۔ سمندر کے پانی میں تلاطم، موجوں میں مدوجزر، بیک گرائونڈ میں ملاحوں کی آوازیں۔ یہ سب ملکر ایسا تاثر پیدا کرتی ہیں کہ سب پر حقیقت کا گماں ہوتا ہے اور آدمی اس نظارہ میں ایسے محو ہوتا ہے کہ بس، اب ذرا آپ جہاں کھڑے ہیں اس گول دائرے میں چکر لگائیں تو دیکھیں گے گائوں کی اس بستی میں چھوٹے چھوٹے مکانات، کھیتوں میں کام کرتے کسان اور مزدور، کھیلتے اور اچھلتے کودتے بچے، جہازوں کے رسوں کے ڈھیر، مچھلیاں پکڑنے کےجال، کشتیوں پر عورتوں اور بچوں کا ہجوم ایک ایسا موسم گرما کا نظارہ پیش کرتے ہیں جس پر حقیقت کا گمان ہوگا۔ اس سے ذرا آگے بڑھیں گے (دائرے میں) تو اونچے گول گنبد نما مینار والے محلات ان کے درمیان ایک چرچ، ایک طرف گھوڑے اور سازوسامان سے آراستہ بگھیاں جنکے پہیوں کی لکڑی نصف قطر تک گھسی صاف دکھائی دیتی ہے۔ سامنے سے آئی ہوئی کسی نواب کی شاہی سواری، نوجوان شہزادے اور شہزادیاں ،امرااور طبقہ اشرافیہ کے بچے اپنے زرق برق لباس میں کھیلتے نظر آئیں گے۔ اس سے ذرا آگے بڑھیں تو موسم سرما آپ کا منتظر ہے برف سے ڈھکی ہوئی سرخ مکانوں کی چھتیں، برف سے کھیلتے بچے، گرم ملبوسات میں لپٹے منہ میں پائپ دبائے ہوئے بوڑھے، سوئٹروں اور چادروں میں لپٹی ہوئی بوڑھی عورتیں جو بچوں کو سردی سے بچارہی ہیں یہ سب جیتی جاگتی دنیا کی حقیقتیں لگتی ہیں۔ سچ پوچھئے تو ایک بار یہ پینوراما آپ کو دیکھنا ہی ہوگا، میری طرح پانچ بار نہ سہی ایک بار ہی سہی۔ وہ جو کہتے ہیں لاہور، لاہور ہے ویسا ہی میں سمجھتا ہوں دی ہیگ کا پینوراما، پینوراما ہی ہے۔ اس کا کوئی توڑ نہیں۔ کوئی بدل نہیں، کوئی کاپی نہیں۔ اور یہ جو بھی ہے اسے کس طرح پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا ہے، پھر کس طرح فوکس کیا گیا ہے یہ ایک راز ہے۔ بظاہر کوئی سینما کی اسکرین نہیں پروجیکٹر نہیں، ایسی کوئی شے، کوئی آلہ، کوئی استاد کاری یا کوئی مشین نظر نہیں آتی جس سے حقیقت کی تہہ تک پہنچا جاسکے۔ میرے حساب سے اس دائرہ نما چھت کے، ذرا ٹھہرئیے پہلے آپ اس پینوراما کا خود مشاہدہ کیجئے اگر آپ حقیقت کی تہہ تک نہ پہنچ سکیں تو اس ناچیز کو ٹیلی فون کیجئے شاید میں آپ کو اس راز سے واقف کراسکوں ۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین