• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شب جائے کہ من بُودم، دوستوں کی محفل میں کسی نے سوال کیا کہ اگر اس کمرے میں بیٹھے ہوئے سات افراد کو نگراں وزیراعظم مقرر کرنے کا اختیار دیدیا جائے تو ہم کسے چنیں گے؟ اپنی سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر، شرکائے محفل اس نکتہ پر متفق نظر آئے کہ نگراںوزیرِ اعظم کسی قد کاٹھ والے ’غیر متنازع‘ شخص کو ہونا چاہئے۔ ’غیر متنازع‘ پر اتفاقِ رائے دیکھ کردل میں پہلا خیال یہ آیا کہ سیاسی نظام کس طرح دبے پائوں آگے بڑھتا رہتا ہے، ’ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر، کچھ کچھ سحر کے رنگ پر افشاں ہوئے تو ہیں‘۔1990 میں بے نظیر حکومت توڑی گئی تو اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کے لیڈرغلام مصطفی جتوئی کو ’زبردستوں‘ نے زبردستی نگراں وزیراعظم مقرر کر دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی دہائی دیتی رہ گئی۔ الحمداللہ آج ہمارے سیاسی نظام میں ایسے مسخرہ پن کی گنجائش نہیں رہی۔ سیاستدانوں کا شکریہ، آئین کی دفعہ 224کو سلام، جسکے تحت نگراں وزیراعظم مقرر کرنیکا ایک مہذب طریقہ وضع کیا گیا۔ خیر، واپس چلئے دوستوں کی منڈلی میں۔
قومی سطح کے سر برآوردہ اور غیر متنازع شخص کی تلاش شروع ہوئی تو اندازہ ہوا کہ کسی اور سیارے پر زندگی کے آثار ڈھونڈنا شاید نسبتاً زیادہ آسان ہو۔ جس معاشرے کا ایک حصہ عبدالستار ایدھی کو ’حرامی بچوں کی ترغیب دینے والا‘ قرار دے رہا ہو وہاں کوئی غیر متنازع شخص کیسے میسر آئے گا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کا نام تجویز کیاتو ایک صاحب بولے کہ وہ تو ماشااللہ انٹر نیشنل سطح پر متنازع شخص ہیں۔ ایک دوست نے یوں ہی سوال کیا کہ اگر ملالہ یوسف زئی کی عمر کچھ زیادہ ہوتی توکام چل سکتا تھا؟ انہیں جواباً نوبل پیس پرائز کمیٹی کی بد دیانتی پر ایک مفصل لیکچر سنایا گیا۔ ایک ادب پرور ساتھی نے مشورہ دیا کہ کوئی ادیب بھی نگراں وزیر اعظم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے افتخار عارف کا نام لیا۔ انکی بات کو غیر سیاسی اور غیر سنجیدہ قرار دیا گیا۔ جہانگیر کرامت، عبداللہ حسین ہارون اور ملیحہ لودھی کے ناموں پر بھی بوجوہ اتفاقِ رائے نہ ہو سکا۔ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین اور فخر امام کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا۔
ہم بھی وہاں موجود تھے، ہم سے بھی وہ پوچھا کئے۔ ہمیں تو آج کل رہ رہ کر رضا ربانی ہی سوجھ رہے ہیں سو انہی کا نام لڑھکا دیا، اور ان کے فضائل پر ایک پُر مغز خطبہ بھی ارشاد فرمایا، لُبِ لُباب جس کا یہ تھاکہ رضا ربانی کا پیپلز پارٹی سے تعلق اب نصف صدی کا قصہ ہے، پارٹی سے انکی وفاداری پر شک کرناایک حماقت ہو گی، نواز شریف ان کا نام ایک بار چیئرمین سینٹ کے لئے تجویز کر چکے ہیں، مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق سے حاصل بزنجو اور محمود اچکزئی تک سب انکے نام پر متفق ہو جائیں گے۔ عمران خان بھی انکا احترام کرتے ہیں، وہ بھی مان جائیں گے۔ ہاں، غیر سیاسی حلقے انکی ’بے پایاں‘ جمہوریت پسندی کونا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مختصراً، ہم نے رضا ربانی کے وجود کو اہل پاکستان کے لئے ایک اچھی خبر قرار دیا۔
پہلا ردِ عمل ایک Endangered Species، یعنی پنجاب میں پی پی پی کے حامی کی طرف سے آیا۔ مسکراتے ہوئے سگریٹ کا کش لگایا اور فرمانے لگے’ رضا ربانی نوں چھڈو، چوہدری نثار علی خان دے بارے کی خیال اے‘۔ تمام اہلِ مجلس مسکرائے، اور بات آگے نکل گئی۔
یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ سیاست میں متحرک رہنے کے خواہش مند افرادنگراں وزیر اعظم کے عہدے کیلئے غیر موزوں ہیں، اب تویار لوگ فقط ایک نصابی مشق کر رہے تھے۔ بائیس کروڑ میں سے ایک معروف و محترم نام کی تلاش، کوئی ایک، فقط ایک برائی ہمہ معتبر پاکستانی مرد یا عورت!یہ احساس شدت سے عود کر آیا کہ پگڑیاں اچھالنے کی جولت بطور معاشرہ ہمیں چند برسوں سے لگی ہوئی ہے اب اسکے ’ثمرات ‘ہم پر مینہ کی طرح برسنے لگے ہیں۔
دوستوں کی بیٹھک ناکام ہو گئی۔ برس ہا برس کا ساتھ بھی چند ہم مزاج دوستوں کو ایک نام پر قائل نہ کر سکا۔ ابتدائی صدمے سے سنبھل کر احباب اس نکتہ پر متفق ہوگئے کہ یوں ہتھیار ڈالنا کم ہمتی کے ذیل میں آئے گا۔ طے پایا کہ نگراں وزیرِ اعظم کی اہلیت کی شرائط میں کچھ نرمی کر لی جائے، لہٰذا ’سر بر آوردہ‘ کی شرط کوائف میں سے حذف کردی گئی۔ اب ہمیں ایک ایسے غیر متنازع شخص کی تلاش تھی جو خواہ نسبتاً غیر معروف ہی کیوں نہ ہو۔
یہ کام آسان تھا۔مجلس کی تندی رخصت ہو چکی تھی، چوہدری صاحب نے پوری شام میں پہلی مرتبہ اپنی کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی، اور خواجہ صاحب اپنی نشست سے اٹھ کر قالین پر نیم دراز ہو گئے۔ ایک دوست ڈھیلے ڈھالے لہجے میں گویا ہوئے کہ اس میں کیا مشکل ہے کسی چھوٹے صوبے سے کوئی میر ہزار خان کھوسو نُما شخص ڈھونڈ لیجئے، کوئی نوے کی دہائی کا ریٹائرڈ جج، اللہ اللہ خیر صلا۔
’جج‘ کا لفظ سنتے ہی یکلخت محفل کا نو دریافت شدہ سکون رخصت ہوگیا۔ خواجہ صاحب قالین سے اٹھ کر دوبارہ اپنی نشست پر آ بیٹھے اور چوہدری صاحب کرسی سے کھڑے ہو گئے۔ گردنوں کی رگیں پھر سے تن گئیں، چہرے پھر سے تمتما اٹھے۔ اگرنہال ہاشمی کا انجام مد نظر نہ ہوتا توآپ کو اگلے ایک گھنٹے کی گفت گو کا خلاصہ ضرور پیش کیا جاتا۔ بہرحال، عطراس بحث کا یہ ہے کہ غالباًـ ’صارفین کو اب یہ سہولت بھی میسر نہیں ہی۔‘
اب تک کی نشست میں بابا الف کی شمولیت زیرِ لب مسکان تک محدود تھی۔ہمیشہ کی طرح آخرمیں ان سے اختتامیہ کی درخواست کی گئی، گلاکھنکھار کے ارشاد ہوا’ جس ملک میں مستحکم، جمے جمائے وزیر اعظم کی موجودگی میں فیصلے کہیں اور ہوتے ہوں، وہاں کیا نگراں وزیر اعظم اور کیا نگراں وزیر اعظم کا شوربا، اس کے فلک کو بھی پتا نہیں چلناالیکشن کیسے ہوئے اور کس نے کرائے۔ یہ ساری بحث ہی لا یعنی ہے۔‘
ہم سب دوست اک دوجے کا منہ تکا کئے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین