• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹیرس کے انداز .... باغبانی کے ساتھ

چھتوں پر باغبانی کا شوق یا طریقہ کار نیا نہیں ہے۔ تاریخ میں اس طریقہ کار کے ثبوت چھ سوسال قبل از مسیح کی رومن تاریخ اور گیارہویں صدی عیسوی میں مصر میں مسلم دور حکومت میں ملتے ہیں۔ مصر میں مسلم حکمرانوں کی عمارات کی تعمیر میں دلچسپی کی بہ دولت جب چودہ چودہ منزلہ عمارتیں بننے لگی تھیں، تو اُس وقت بھی چھتوں پر باغبانی کو فروغ دیا گیا اور چھتوں پر یا بالکونیوں میں سبزیوں کی کاشت بھی کی جاتی تھی، جس کے لیے اُس وقت کی مناسبت سے آب پاشی کا بھی انتہائی جدید اور معقول بندوبست کیا گیا تھا۔ 

چھتوں کی منڈیروں پر گملوں اورناکارہ برتنوں میں کئی قسم کے پودے لگانے کا رواج ہمارے ہاں بھی عام تھا، جن میں عام طور پر تلسی، گینداپھول، پودینہ، دھنیا، پیاز، مرچ، ٹماٹر اور دوسرے عام پودے جو آسانی سے اُگائے جاسکتے تھے، ان سے نہ صرف کچی چھتوں کی منڈیروں کو مضبوطی ملتی تھی بلکہ قدرتی خوب صورتی بھی ملتی تھی۔

ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں اس کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ماحولیاتی آلودگی نے انسانی زندگی کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ خاص کر شہری علاقوں میں کھلے اور قابل کاشت مقامات کی کمی اور خاص کر ہم لوگوں کی سبزے سے دشمنی کی وجہ سے فضا میں گھٹن بڑھتی جا رہی ہے۔ شہروں میں پارکس اور سیر و تفریح اور سکون کے چند لمحوں کے لیے باغات وغیرہ کی کمی بہت محسوس ہوتی ہے۔ 

ٹیرس کے انداز .... باغبانی کے ساتھ

اس مسئلے کے پیش نظر آج کل ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک بھی نئی بنائی جانے والی عمارات میں چھتوں اور ٹیرس پر باغبانی یعنی (Roof Top Gardening/ Farming) کو فروغ دے رہے ہیں، جس سے نہ صرف باغبانی کے شوقین افراد محدود جگہوں میں خوب صورتی کے ساتھ ساتھ اپنے شوق کو پورا کرسکتے ہیں بلکہ فضائی آلودگی میں کمی بھی کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح چھتوں پر سبزیوں کی کاشت سے کسی حد تک ہماری گھریلو ضروریات بھی پوری ہوسکتی ہیں۔

اب جب کنکریٹ کی پختہ کئی کئی منزلہ عمارات تعمیر کی جا رہی ہیں، تو منڈیروں پر پودوں کا تصوربھی معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں فی الحال عمارت میں سبزے کے لیے جگہ مخصوص کرنے کا رواج اتناعام نہیں ہے، جتنا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہے۔ 

کیوں کہ وہاں انسانی زندگی سے وابستہ ہر زاویے پر تحقیق کی جاتی ہے اور وہاں کے میٹروپولٹن شہروں میں جہاں کھلے مقامات کی کمی بہت زیادہ ہوتی ہے، وہاں پر قدرتی خوبصورتی، صاف فضا اور راحت و سکون کے لیے بڑی بڑی عمارات میں پودوں کے لیے جگہ مخصوص کی جاسکتی ہے ۔

ٹیرس کو پہلے لکڑیوں سے بنایا جاتا تھا۔ اس کے بعد اسے ٹائل کی اینٹوں سے بنایا جانے لگا۔ پھر جیسے دور بدلتا گیا ترقی ہوتی گئی اور اسے ٹائل والی اینٹوں کے بعد لکڑی کے بیم/بجری کی سلیبوں اور اینٹوں کی دیوار کے ساتھ بنایا جاتا ہے۔

ہر گھر کی بناوٹ اسکی بیرونی آرائش سے پتہ چلتی ہے۔ ٹیرس/بالکنی بھی گھر کی وہ جگہ ہے جو گھر کی بیرونی طرف سے دکھائی دیتی ہے۔اگر ٹیرس/بالکنی کی سجاوٹ بہترین اور دلکش ہو گی تو گھر خوب صورت لگے گا۔

ٹیرس کے انداز .... باغبانی کے ساتھ

آپ کے گھر کی چھت چھوٹی ہے تو دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹیرس/بالکنی اس لیے گھر میں بنائی جاتی ہے تاکہ تروتازہ ہوا سے لطف اندوز ہوا جائے۔لیکن اگر گھر چھوٹا ہو تو گھر میں ٹیرس/بالکنی بنانا ممکن نہیں ہوتا تو اسکا آسان حل ہے۔

ہم چھت کے اوپر بنے کمرے میں باہر کی دیوار کی طرف ریلنگ والی شیشے کی کھڑکی لگا لیتے ہیں۔ کمرے میں کھڑکی کو کھول کر ہم تروتازہ ہوا اور بیرونی ماحول سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

کچھ لوگ گھر کی تعمیر میں لکڑی استعمال کرتے ہیں اور کچھ لوگ لوہے یا پھر شیشے کا استعمال زیادہ پسند کرتے ہیں۔ عام طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ گھروں میں ایک بالکنی بنائی جاتی ہے جو کہ گھر کی خوبصورتی کے لیے کافی سمجھی جاتی ہے۔ اور اس کو باہر کی دنیاسے لطف اندوز ہونے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔

بالکنیاں گھر کی خوب صورتی میں اضافہ کرنے کے ساتھ آپ کے لیے کُھلی چھت والی جگہ بھی فراہم کرتی ہیں جس میں آپ بیٹھ کے ٹھنڈی ہوا اور قدرتی نظاروں سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔ یوں تو آپ بالکنی کے مختلف آئیڈیاز سے واقف ہوں گے جن میں شیشے اور لوہے سے بنی گرل کو استعمال کیا جاتا ہے ۔

ٓآپ بالکنیوںپرنہ صرف سبزیاں، پھل، پودے، بیلیں اُگا کر بلکہ خوب صورت پرندے یا جانوروں کے لیے مناسب پنجرے بنا کر وہ بھی پال سکتے ہیں اور اُن کے درمیان اُٹھنے بیٹھنے کی مناسب جگہ بنا کر سکون کے کچھ لمحات اپنے پیاروں کے ساتھ گزار سکتے ہیں۔

بالکنیوںپر سبزہ اُگانے سے موسمی اثرات کو کافی حد تک کم کیاجاسکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کسی عمارت کی چھت یا آس پاس پودے اور درخت لگانے سے 6.3 سے 11.6 سینٹی گریڈ تک موسم کی شدت میں فرق آسکتا ہےساتھ ہی ٹیرس پر قرینے سے سجے ہوئے پودے آپ کو ایک سکون اور راحت بھری فضا فراہم کرتے ہیں، جہاں تھوڑی دیر بیٹھ کر آپ دن بھر کی ٹینشن اور مصروفیت سے کچھ لمحے سکون و آرام کے گزار سکتے ہیں۔

ٹیرس کے انداز .... باغبانی کے ساتھ

البتہ بالکنیوںپر جو بھی پودے اُگائے جائیں، اُن کی جسامت اور جڑوں کے لیے درکار مٹی کی مقدار آپ کے ٹیرس کے مطابق ہو۔ ایسے پودے ہرگز نہ لگائیں جو پر بوجھ بن جائیں یا اُن کے لیے بہت زیادہ مٹی کی ضرورت ہو۔ پاکستان میں اب ایسے پودے اور پھلدار درخت بھی دستیاب ہیں، جن کو آپ گملوں میں آسانی سے اُگا سکتے ہیں۔ 

نرسری سے لیموں، مالٹا، امرود، سیب، انگور اور دیگر ایسے بہت سارے پودے لے سکتے ہیں جن کو عرف عام میں ’’چائنہ پودے‘‘ کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ اُن کی جسامت چھوٹی ہوتی ہے اور پھل بھی خوب لگتا ہے۔ جبکہ سبزیوں میں ٹماٹر، مرچ، پودینہ، دھنیا، بینگن، بھنڈی، توری، کریلا، کھیرا، کدو، گاجر، مولی، مکئی اور دیگر قسم کے اجناس و سبزیاں کم جگہ میں آسانی سے اُگا سکتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ موسمی آرائشی پودے بھی لگائے جاتے ہیں، جن کی تراش خراش اور مناسب دیکھ بھال کرکےآپ ایک مکمل باغ اپنے گھر کی ٹیرس پر بنا سکتے ہیں۔ 

موسمی پھولوں کے لیے اگر چھوٹے چھوٹے گملے رکھے جائیں اور اُن میں موسم کے لحاظ سے پنیری لگائی جائے، تو یہی گملے آپ ہر بار استعمال کرسکتے ہیں۔ بس نرسری سے آپ کو موسم کے مطابق پھولوں کی پنیری لینا ہوگی اور اگر اپنے گھر میں پنیری اُگائیں، تو یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے، لیکن یہ خیال رکھا جائے کہ جب گملے میں نیا پودا لگائیں، تو ساتھ ہی گملے کی مٹی بھی تبدیل کریں یا اس مٹی کو اچھی طرح سے نرم کرکے اس میں مناسب مقدار میں کھاد بھی شامل کریں۔ 

اسی طرح سے آج کل عمودی باغبانی کا رواج بھی فروغ پا رہا ہے۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ ایسی عمودی دیواریں متعارف ہو چکی ہیں، جن میں آپ آسانی سے نہ صرف آرائشی پودے بلکہ سبزیاں اور پھل بھی آسانی سے اُگا سکتے ہیں۔ 

ٹیرس کے انداز .... باغبانی کے ساتھ

یہ عمودی باغبانی کے لیے نہایت ہی موزوں طریقہ کار ہے اور اُن علاقوں کے لیے جہاں زمین کی کمی ہے یا فلیٹس و اپارٹمنٹس کی محدود ٹیرس، بالکونی وغیرہ میں تھوڑی سی جگہ پر مناسب سائز کے عمودی Living Walls لگا کر آپ اپنے شوق کی تسکین کرسکتے ہیں۔ 

یہ عمودی دیواریں تو اَب پاکستان میں ہرجگہ نصب کی جا رہی ہیں اور بہت آسانی سے ان میں پودے اُگائے جا رہے ہیں۔

تازہ ترین