• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ملاقاتیں ہونی چاہئیں

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی درخواست پر گزشتہ رات اُن کی چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملاقات ہوئی جس کے بعد میڈیا اور سیاست سے تعلق رکھنے والے افراد کو موقع مل گیا کہ جس کا جس طرح جی چاہے اس ملاقات کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ اس ملاقات کا وقت مناسب نہیں، کسی کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر کوئی ڈیل کی جا رہی ہے جس کا مقصد نواز شریف کو فائدہ پہنچانا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ یہ ملاقات وزیر اعظم نے نواز شریف کے حکم پر کی۔ گویا جتنے منہ اتنی باتیں ہو رہی تھیں۔جب یہ تمام سوالات اور شکوک شبہات اٹھائے جا رہے تھے تو میں نے مناسب سمجھا کہ کم از کم وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے ہی بات کر لوں کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ اُن سے بات کی تو کہنے لگے کہ میڈیا نجانے کیا کچھ چلا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ملاقات اُن کی اپنی درخواست پر ہوئی جس کا مقصد عدالتی کارروائیوںسے اُن انتظامی معاملات کے متعلق چیف جسٹس صاحب کو آگاہ کرنا تھا جس سے حکومتی کام متاثر ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم نے مجھے بتایا کہ اس ملاقات میں نہ تو نواز شریف یا اُن کے کیسوں کا کوئی ذکر ہوا اور نہ ہی چیف جسٹس سے ملاقات کے لیے انہیں نواز شریف نے کوئی ہدایت کی تھی۔ شاہد عباسی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو تو اس ملاقات کا پہلے علم بھی نہ تھا اور یہ کہ یہ سب اُن کا اپنا initiative تھا۔ وزیر اعظم نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ملاقات کے بارے میں سپریم کورٹ رجسٹرار جلد ہی ایک پریس ریلیز جاری کر دیں گے جو اُن کی موجودگی میں لکھوائی گئی ۔ وزیر اعظم سے بات کرنے کے فوری بعد میں نے ٹوئٹر کے ذریعے اُن سے اپنی بات چیت سوشل میڈیا میں شئیر کر دی جس کے کچھ دیر بعد سپریم کورٹ کی طرف سے اس ملاقات کے متعلق پریس ریلیز بھی جاری کر دی گئی۔ اب اگر اس ملاقات میں کوئی سیاسی مسئلہ یا کسی مبینہ ڈیل کے بارے میں بات ہوئی تو اس پر قیاس آرائیوں کی بجائے ٹھوس اطلاعات پر میڈیا کو بات کرنی چاہیے اور میرے پاس ابھی تک کوئی ایسی اطلاع نہیں کہ اس میٹنگ میں اُن معاملات پر بھی بات ہوئی جس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ بلکہ میں نے جب وزیر اعظم سے پوچھاکہ شک کیا جا رہا ہے کہ نوازشریف کے بچائو کے لیے آپ چیف جسٹس سے ملے، اس پر شاہد عباسی کہنے لگے کہ سپریم کورٹ نے تو نواز شریف کے متعلق جوفیصلہ کرنا تھا وہ پہلے ہی کر چکی اب اُس بارے میں کیا بات ہو سکتی ہے۔ ایک نکتہ نظر یہ بھی سامنے آیا کہ وزیر اعظم کو چیف جسٹس سے ملاقات ہی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ میری رائے میں جس طرح کے حالات ہمارے ہاں ہیں اور جس طرح ادارے ایک دوسرے کے خلاف آمنے سامنے کھڑے نظر آتے ہیں ایسے میں وزیر اعظم نے جو کیا وہ با لکل درست اقدام ہے کیوں کہ اداروں کے درمیان رسہ کشی اور بدگمانیوں کو ختم کرنے کے لیے آپس میں بات چیت کرنی چاہیے تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں اور سب اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ملاقات چھپ کر نہیں بلکہ سب کی نظر میں ہونی چاہیے جیسے یہ ملاقات ہوئی۔ بجائے اس کے کہ ادارے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں لگے رہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ دوسرا نالائق اور نا اہل ہے، ملک و عوام کی بہتری کے لیے ایک دوسرے کی خامیوں کو دور کرنے میں مدد کی جائے جس کے لیے اداروں کے درمیان روابط کو بڑھانا چاہیے۔ ادارے ایک دوسرے کو اپنا دشمن اور حریف تصور کرنے کی بجائے اس بات کا خیال رکھیں کہ آئین کے تحت مختلف اداروں کو مختلف رول دیا گیا ہے اور ہر ادارہ اور ہر رول اپنی اپنی جگہ ریاست اوراُس کے شہریوں کے لیے انتہائی اہم ہے۔ کوئی ایک ادارہ کسی دوسرے کا کام نہ تو کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور نہ ہی اس بات کی آئین اجازت دیتا ہے ۔ ہاںاپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے کام کو آسان اور بہتر بنانے کے لیے مدد ضرور ہو سکتی ہے جس کی اس وقت ملک کو اشد ضرورت ہے۔
آخر میں زرا میاں نواز شریف کے ایک بیان پر بات ہو جائے جس میں کہا گیا کہ انہوں نے میموگیٹ میں حصہ بن کر غلطی کی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تبدیلی اُن کے نظریاتی بننے کی وجہ سے آئی ہو لیکن کوئی پوچھے یہ کیا نظریہ ہے جو اُنہیں ایک ایسے معاملہ میں معذرت خواہانہ رویہ اپنانے میں مجبور کر رہا ہے جس کا تعلق ملک کی سالمیت سے تھا۔ میاں صاحب کی یاددہانی کے لیے عرض ہے کہ ایک انتہائی معتبر عدالتی کمیشن جس کی سربراہی محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے کی، نے اپنی 121 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں یہ ثابت کیا کہ حقانی کی جانب سے مجوزہ قومی سلامتی ٹیم کے حصے کی حیثیت سے اپنی خدمات غیر ملکی حکومت کو پیش کرکے ان خدشات کا اظہار کرنا کہ پاکستان کے جوہری اثاثے اب واقعی ہدف بن چکے ہیں اور ان کی جانب سے پاکستان جوہری اثاثوں کو زیادہ قابل تصدیق، شفاف نظام کے تحت لانے کی بات کرنا اور یہ کہنا کہ آئی ایس آئی کے طالبان کے ساتھ تعلقات ہیں اور آئی ایس آئی کے سیکشن ایس کے خاتمے کی پیشکش کرنا اور امریکی مفادات کیخلاف سرگرم قوتوں کو زیر کرنے کی پیشکش کرنے جیسے واقعات نے سیاسی نظام کیلئے مسائل پیدا کیے اور یہ پاکستان سے بے وفائی کے مترادف اقدامات تھے اور ان سے آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہوئی۔ کہیں کچھ دوسروں کی طرح میاں صاحب بھی حسین حقانی کو معصوم تو سمجھنے نہیں لگے۔ اگر ایسا ہے تو وہ کچھ پڑھ لیں جو حقانی کے پاکستان کے خلاف صرف گزشتہ ایک دو سال کے دوران ہی لکھا۔ اگر میاں صاحب کے پاس پڑھنے کی فرصت نہ ہو تو خواجہ آصف سے پوچھ لیں اُن کے پاس حقانی کیس سے متعلق کافی معلومات ہیں۔

تازہ ترین