• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطنِ عزیز میں اس وقت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دو بڑی سیاسی قوتیں ہیں۔ آئین اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے شاید یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہ دونوں غیر ضروری طور پر آپس میں ٹکراتے ہوئے اس حد تک چلی جائیں جس کا فائدہ غیر جمہوری قوتیں اٹھائیں۔ بلاشبہ ہر دو کو باہم بہت سی شکایات ہوں گی اور ان شکایات سے بڑھ کر آنے والے چند ہفتوں میں عبوری سیٹ اپ کو قائم کرنے کے حوالے سے انہیں ایک بڑا چیلنج درپیش ہے۔ یہ خدشہ بجا طور پر محسوس کیا جا رہا ہے کہ کہیں اس ناچاقی و عدم اتفاقی کے نتیجے میں اُن قوتوں کو اپنے گل کھلانے کا موقع نہ مل جائے جو کسی نہ کسی بہانے سے الیکشن 2018 کا التوا چاہتی ہیں۔
مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف سے اپنی تمام تر عقیدت و نیاز مندی کے باوجود اُن کے چند اقدامات ایسے ہیں جنہیں یہ درویش کبھی بھی Justify نہیں کر سکا اور نہ کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر خواہ ان پر کتنا ہی دباؤ تھا آصف علی زرداری کے ساتھ طے شدہ ملاقات کو انہوں نے جب یکطرفہ طور پر منسوخ کیا تو اس کا کوئی سیاسی و اخلاقی جواز نہیں تھا۔ ایک جمہوری لیڈر کی حیثیت سے نواز شریف کو کسی بھی صورت اتنی بڑی غلطی نہیں کرنی چاہیے تھی بالخصوص چارٹر آف ڈیموکریسی کے بعد ایسی کمزوری دکھانے کی قطعی گنجائش نہ تھی۔ اسی طرح 2013ء میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد سندھ میں پی پی قیادت کے ساتھ نادیدہ قوتوں نے جو زیادتیاں کیں باوجود تمامتر مشکلات کے نواز شریف کی منتخب حکومت کو ان کا حصہ بننے سے احتراز کرنا چاہیے تھا۔ اپنے اُس وقت کے وزیر داخلہ کو اتنا بے مہار نہیں چھوڑنا چاہیے تھا کہ وہ پی پی اور ن لیگ کی قیادت میں منافرت پھیلانے کا باعث بن سکتے۔
نواز شریف نے بلاشبہ وقت، حالات اور اپنے سیاسی تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہے کافی عرصہ قبل درویش نے ایک آرٹیکل لکھا تھا ’’بدلتا سنورتا نواز شریف‘‘ جس میں اُن کی سیکھنے یا جذب کرنے کی صلاحیت کو واضح کرتے ہوئے نشاندہی کی گئی تھی کہ آنے والے ماہ و سال میں ایک بدلا ہوا نواز شریف سامنے آئے گا۔ اگرچہ ان کی پارٹی میں نئے لوگوں کو جذب کرنے کی صلاحیت کا آج بھی فقدان ہے بہرحال آج اگر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ میں سو فیصد نظریاتی بن چکا ہوں تو اس پر تمسخر اڑانے والا رویہ درست نہیں ہے۔ اُن کے دعوے کو ان کے طرزِ عمل سے پرکھا جانا چاہیے اور اس پرکھ میں یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ وہ محض اخباری دانشور نہیں ہیں وہ ایک ایسے عملیت پسند سیاستدان ہیں جنہوں نے اپنے عوام سے رابطے کو منقطع ہونے دینا ہے نہ اپنی پارٹی قیادت کو ناکامی کی صورت مایوسی کا تحفہ بخشنا ہے۔ ہمارے مہربان جس شتابی سے نواز شریف کا ماضی سامنے لانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں کاش اسی ذوق و شوق کے ساتھ وہ اپنی پارٹی قیادت اور اس کے بانی کی خوفناک اٹھان پر بھی ایک نظر ڈال لیا کریں۔
آج ن لیگ کے قائد کو کچھ لوگ جس نوع کے پرانے طعنے دے رہے ہیں اُن کی خدمت میں ہماری گزارش ہے کہ وہ ماضی کے مقابلے میں اپنا ماضی لائیں اور حال کے مقابلے میں اپنا حال دکھائیں تو ہر چیز روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی لیکن یہ وقت طعنے بازیوں کے لیے قطعی موزوں نہیں ہے۔ شریک چیئرمین کے حوالے سے آج صادق و امین کی جتنی چاہے ڈگریاں جاری کروا لیں لیکن یہ تو ابھی گزرے کل کی بات ہے جب اُن کا نام نامی اسمِ گرامی اس کرپشن نامی لفظ کے ساتھ جڑ گیا تھا۔
آج اگر کوئی تیسرا کھلاڑی ایمپائر کی انگلیوں پر ناچ رہا ہے تو وہ قابلِ فہم ہے ہمیں تو شکایت ہر دو بڑی سیاسی پارٹیوں کی قیادتوں سے ہے کہ وہ اپنی سیاسی و جمہوری طاقت کو ایک مکے کی صورت یکجا کیوں نہیں کر رہے۔ وہ اپنے اندر کم ازکم اتنی برداشت کیوں پیدا نہیں کر رہے کہ آنے والے دنوں میں عبوری سیٹ اپ کے قیام میں باہمی تعاون کا مظاہرہ کر سکیں۔ حال ہی میں سینیٹ چیئرمین کے لیے نواز شریف نے پی پی کے سابق چیئرمین سینیٹ پر اتفاق رائے کی جو آفر کی تھی پی پی کی قیادت کو نہ صرف اپنے پارٹی بلکہ جمہوری مفاد میں اسے خوش اسلوبی سے قبول کر لینا چاہیے تھا اس میں ان کا بھلا بھی تھا اور عزت بھی۔ کیا امید کی جا سکتی ہے کہ اگلے عبوری سیٹ اپ کے لیے نہ صرف ن لیگ اپنی اس فراخ دلی کو قائم رکھے گی بلکہ پی پی بھی جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں اپنے سابقہ رویے پر نظرثانی کرتے ہوئے غیروں کا دم چھلا بننے کے بجائے سیاسی و جمہوری قوت کی طرف دستِ تعاون بڑھائے گی؟ اس نیک مقصد میں قربانی کے لیے اگر ن لیگ اور پی پی والے اپنے ایک ایک دنبے کو پی ٹی آئی کی بھینٹ چڑھا دیں تو امید ہے کہ اوپر بیٹھی ہستی کسی حد تک ان سے خوش ہو جائے گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین