• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسلم لیگ ن کا مستقبل؟

مسلم لیگ ن اور اداروں کے درمیان فاصلے بہت بڑھ چکے ہیں۔ حکمران جماعت کے منتخب نمائندے اڑان بھرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اس مرتبہ منڈیر کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ آزاد گروپ ہوگا۔ مائنس نواز شریف کے بعد اب مائنس مسلم لیگ ن ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ عام انتخابات کی تیاریوں کے بجائے ٹکراؤ کی پالیسی نے نقصان پہنچایا ہے۔ مزاحمتی سیاست کا اصل ردعمل نگران دور حکومت کے دوران نظر آئے گا۔ تاثر ہے کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے علاوہ حکمران جماعت کے تمام صف اول کے رہنما احتساب کی زد میں نظر آئیں گے۔ وفاق اور پنجاب حکومت کی غیر موجودگی میں آزمائش مزید بڑھ جائے گی۔ جبکہ عام انتخابات کی تیاریوں کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔افواہ ہے کہ دوسری جانب حلقہ بندیوں کا جن بوتل سے باہر آچکا ہوگا اور نگران حکومت کے پاس عام انتخابات میں چند ماہ کی تاخیر کا مضبوط جواز پیدا ہوجائے گا۔ چند ماہ کی تاخیر ایک سال پر محیط بھی ہوسکتی ہے۔ طویل نگران حکومت کے دوران بے رحمانہ احتساب اور مسلسل عدالتی کیسز مسلم لیگ ن کو بے بس کردیں گے۔ ایسے میں عام انتخابات کا اعلان کیا جائے گا۔ صورتحال سے لگتا ہے کہ ہنگ پارلیمنٹ کا نقشہ تیار کیا جائے گا۔ جس میں پی پی پی سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر جبکہ تحریک انصاف و دیگر جماعتوں کو مناسب حصہ ملے گا۔ مگر مسلم لیگ ن کو کسی بھی قیمت پر آنے نہیں دیا جائے گا۔
تمام بالا حالات میں کوئی بھی سیاسی اتحادی مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑا نظر نہیں آتا۔ بلوچستان کے جو چند اتحادی اینٹی اسٹیبلشمنٹ نظریے کا پرچار کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑے ہیں، دراصل وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے لوگ ہیں۔پاکستان میں بلوچستان کا جو بھی رہنما اسٹیبلشمنٹ اور ریاست کا مخالف سمجھا جاتا تھا، یا تو وہ موجود نہیں ہے اور اگر ہے تو ملک سے باہر زندگی گزار رہا ہے۔ بلوچستان کے تمام قوم پرست رہنما ایک حد تک کھڑے ہوسکتے ہیں، بالآخر انہوں نے بھی وہیں جانا ہے جہاں پر آج سنجرانی صاحب اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، البتہ جانے کا طریقہ کار مختلف ہوسکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان اور ان کے خاندان سے ذاتی مراسم ہیں، دل سے ان کی قدر کرتا ہوں۔ مگر آخر میں مولانا فضل الرحمان بھی وہی فیصلہ کریں گے جیسا ماضی میں کرتے آئے ہیں۔ آخری دن نوازشریف اور مسلم لیگ ن تنہا کھڑے ہوں گے۔ ایسے حالات میں سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ ن کا ہوگا۔ نوازشریف اور ان کی جماعت سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر، اس لئے سب سے بڑے ٹارگٹ پر بھی وہی ہیں۔ عدالتی فیصلوں پر حکمران جماعت بھرپور تنقید کرتی رہی ہے، اس خاکسار نے بھی عدالتی فیصلوں پر مناسب اور مثبت تنقید کی ہے۔ مگر آج اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حالیہ فیصلوں میں کچھ حد تک درپردہ قوتوں کا کردار ہوسکتا ہے مگر زیادہ ٹارگٹ اس لئے کیا گیا کہ کچھ لوگ ذاتی طور پر نوازشریف اور مسلم لیگ ن سے ناراض تھے۔ ان پانچ یا چھ افراد کی ناراضی کا کچھ قوتوں نے فائدہ اٹھایا اور اپنی حمایت سے انہیں اس قابل بنایا کہ وہ حکومت وقت کے سامنے کھڑے ہوسکیں۔ اس لئے ہر معاملے میں صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ہاں دو فریق آمنے سامنے تھے، جس کا داؤ چلا، اس نے بہتر وار کردیا۔ آج کے دن تک جو کچھ ہوتا آرہا ہے، اس سے مستقبل کا نتیجہ اخذ کرنے کا اس سے مناسب وقت نہیں ہوسکتا۔ حکمران جماعت کے پاس بہت کم وقت ہے۔ حالات کو معمول پر لانے کی آخری کوشش ہوسکتی ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار سے ملاقات کرکے مثبت پیغام دیا ہے۔ ظاہر ہے جہاں پر حالات پہنچ چکے ہیں اس میں صرف ایک ادارے سے بات چیت کر کے حالات کو ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔ عدلیہ بھی اہم اسٹیک ہولڈر ہے۔
صرف ایک صلح کی صورت میں جان بخشی ہے
دوسری کسی بھی صورت میں مارا جاؤں گا
آج مجھے کسی ایک ادارے یا جماعت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ لیکن حالیہ کشیدگی میں پاکستان کا ناقابل تلافی نقصان ہوجائے گا۔ نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ سیاستدان اگلے انتخابات کے بارے میں سوچتا ہے اور لیڈر اگلی نسل کے بارے میں سوچتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے اکابرین کو اگلی نسل کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ ابھی عوام کو بہت کچھ دینا باقی ہے۔ آج بھی میرے ملک میں ایسے علاقے موجود ہیں، جہاں جانور اور انسان ایک کنویں سے پانی پیتے ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ صحت کے حوالے سے پنجاب کے دیہی علاقوں میں بہت بہتری ہوئی ہے مگر مثالی کہنا نامناسب ہوگا۔ پنجاب کا کسی بھی دوسرے صوبے سے موازنہ کرنا ممکن ہی نہیں ہے مگر ابھی پنجاب کے دیہی اسپتالوں میں بھی عالمی معیارکی سہولتیں پہنچانا باقی ہے۔ مسلم لیگ ن نے جس جنگ کا آغاز کیا ہے۔ یہ جنگ 10سال بعد جچتی تھی۔جب آپ ہر طرح کی سہولتیں عوام کو دے کر فارغ ہوچکے ہوں۔ مضبوط قانون سازی کرکے آئین کو اتنا مضبوط بنا چکے ہوں کہ کوئی بھی آئین کا سہارا لے کر جمہوری اداروں پر نہ چڑھ دوڑے۔ عدلیہ آزاد اور خودمختار ضرور مگر آئینی طور پر اپنی حدود کی پابند ہو، آمرانہ دور کے احتساب ادارے ختم ہوچکے ہوں، سستے اور فوری انصاف کی فراہمی یقینی بن چکی ہو، آپکی اپنی سیاسی جماعت اتنی مضبوط ہوچکی ہو کہ تنظیمی دور پر ادارے آپکی جماعت کی مثال دیں۔ جب یہ سب بالا ٹارگٹ حاصل ہوچکے ہوں پھر میدان میں آنا بنتا ہے اور سویلین بالادستی پر ڈٹنے کا مزا آتا ہے۔ سویلین بالادستی اور جمہوریت کی مضبوطی شرط اول ہے مگر حکمت اشد ضروری ہے۔ لیڈر وہی ہوتا ہے جو درست وقت پر درست فیصلے کرے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین