• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ملتان میں نیوکلیئر سائنسدانوں سے خطاب کرتے ہوئے جب ایٹم بم بنانے کے فیصلے کا اعلان کیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں تین سال کے اندر ”Islamic bomb“ چاہیے۔ بھٹو نے کسی پاکستانی بم کی بات نہیں کی بلکہ ان کے سامنے پوری مسلم امّہ کا نقشہ تھا۔ اسی سال بھٹو صاحب نے دنیا ئے اسلام کے سربراہوں کو لاہور میں ایک ساتھ جمع کیا تاکہ امّت مسلمہ کو امریکا و مغرب کی اسلام دشمن سازشوں کے خلاف اکٹھا کیا جا سکے۔ 1973-74ء میں شاہ فیصل مرحوم کی سربراہی میں عرب ممالک نے تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے امریکا، یورپ اور جاپان کو اسرائیل کا مسلمانوں کے خلاف ساتھ دینے پر سبق سکھایا۔ ذوالفقار علی بھٹو پر لکھی گئی کتاب ”Zulfi Bhutto of Pakistan“ کے مطابق بھٹو صاحب ظاہری طور پر ایک لبرل اور مغربی طرز زندگی گزارنے والا شخص ہونے کے باوجود Islamism Pan (مسلم امّہ کے اتحاد ) کے داعی تھے ۔ پاکستان کو ایک اسلامی آئین اور قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینا بھی بھٹو صاحب کی شخصیت کے وہ اہم کارنامے تھے جو اُن کے ظاہر کے برعکس تھے۔ اور اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب کے شاہ فیصل اور پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو امریکا اور یہود و نصاریٰ کی سازشوں کا شکار ہوئے کیوں کہ وہ کسی طور بھی مسلمانوں کو متحد دیکھنا چاہتے تھے اور نہ ہی اُن کے لئے یہ کسی طور بھی قابل قبول تھا کہ کسی بھی طرح اسلامی دنیا ایٹمی طاقت حاصل کرلے۔ شاہ فیصل اور بھٹو کے بعد اسلام دشمنوں نے مسلمانوں میں تفریق کو مزید بڑھانے کا کام کیا اور قومیت (nationalist) سوچ کو تقویت دی۔ آج ہماری یہ حالت ہے کہ دنیا بھر کے عام مسلمان تو یہ خواہش رکھتے ہیں کہ مسلم امّہ کو دوبارہ یک جا کیا جائے مگر 50 ممالک سے زیادہ اسلامی ریاستوں کے حکمران مسلم امّہ کی بات کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ترک وزیراعظم (جو دوسروں سے بہتر ہونے کے باوجود) کے حوالے سے حامد میر صاحب نے یہ خبر دی کہ وہ دنیائے اسلام کو متحد کرنے کے خواہاں ہیں مگر دوسرے ہی دن اس خبر کی تردید کر دی گئی۔ گزشتہ 30 سالوں میں تعلیم اور دنیاوی ترقی کے باوجود مسلمان ممالک نے امریکا کی غلامی کی نئی حدوں کو چھو لیا اور اس حد تک گرگئے کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں بھی امریکا کا ساتھ دیا۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کا نعرہ لگانے والے امریکا نے کہیں بادشاہت ، کہیں آمریت اور کہیں نام نہاد جمہوریت کو استعمال کر کے مسلمانوں پر اپنا تسلط اُن کو منقسم کر کے قائم رکھا۔ اگر کسی مسلمان ملک میں جمہوریت امریکی مفادات
سے ٹکرائی تو اسے بھی تہس نہس کر دیا گیا۔ہر امریکی تدبیر کا مقصد یہ رہا کہ مسلمان متحد نہ ہو پائیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد اور تمام تروسائل ہونے کے باوجودمسلمان بدترین ذلّت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔
حال ہی میں رسول پاک کی شان میں گستاخی کی خاطر بنائی گئی امریکی ویڈیو بھی منقسم مسلمانوں کو ذلیل کرنے کی ایک اور کوشش تھی جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑا دی۔ کروڑوں مسلمانوں نے اس فلم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس موقع پر مسلم امّہ کو متحد ہو جانا چاہئے تاکہ مسلمان ایک قوّت بن کراسلام دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ کر سکیں۔ مگر عام مسلمانوں کی اس شدید خواہش کا عکس ابھی تک کسی اسلامی حکمران میں نہیں دکھائی دیا۔ یہاں تو مسلمان ممالک کا میڈیا بھی امریکی غلامی کا ہی سبق پڑھاتا ہے۔ گزشتہ ہفتہ اسلام آباد میں اسلامی جماعتوں کی ایک میٹنگ میں مسلمان ممالک کے لیے اپنی علیحدہ اقوام متحدہ (Muslims' United Nations) کی تجویز پیش کی گئی کیوں کہ موجودہ اقوام متحدہ کا امریکا کی لونڈی سے زیادہ کردار نہیں ہے ۔ اس اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ تمام اسلامی ممالک کو متحد ہونا چاہیے اور کم از کم ایک مشترکہ دفاعی اور معاشی پالیسی اپنانی چاہیے تاکہ امریکا و یورپ کے ہاتھوں کئی دہائیوں سے جاری مسلمانوں کی تضحیک اور استحصال کا خاتمہ کیا جا سکے اور اسلام دشمنوں کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکے۔ اس تجویز کو ایک بڑے انگریزی اخبار نے مضحکہ خیز قرار دیا جبکہ 21 ستمبر کے احتجاج کے دوران کراچی اور پشاور میں پرتشدّد واقعات میڈیا کو اپنی ریٹنگ کے لیے اتنے بھائے کہ اصل موضوع ہی گم ہو گیا۔
اب ذرا مختصراً سردار اختر مینگل پر بھی بات ہو جائے۔ اختر مینگل چاہے کتنی کڑوی اور سخت بات کریں ان کا اسلام آباد آنا، سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونا اور میاں نواز شریف، عمران خان اور پروفیسر منور حسن سے ملنا بہت اچھا لگا۔ یہ پاکستان کے لئے نیک شگون ہے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ صدر، وزیراعظم یا پیپلزپارٹی کا کوئی اعلٰی وفد بھی اختر مینگل کے ساتھ ملاقات کرتا۔ مینگل صاحب کے مطالبات جائز ہیں اور ان کو توجہ سے سنا اور ان پر عمل کیا جانا چاہئے۔ ہمیں مشرقی پاکستان کے واقعہ سے سبق سیکھنا چاہئے۔ ماضی میں فوج کی ضد اور زیادتیوں اور ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی مفاد پرستی نے مشرقی پاکستان کے محروم عوام کو پاکستان سے علیحدگی کا موقع دیا تھا۔ بلوچستان کے عوام بھی آج محرومی کا شکار ہیں۔ گزشتہ 65 سال کی محرومی کے غصہ کوعدل و انصاف ، انتہائی توجہ اور صلح رحمی کے ساتھ ہی رفع کیا جا سکتا ہے۔ اختر مینگل کی طرف سے پیش کئے گئے چھ مطالبات جائز اور قابل توجہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اُن کا مطالبہ ہے، ۱۔ بلوچستان میں فوجی آپریشن بند کیا جائے۔ 2 ۔لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے۔ 3۔ صوبے میں ملنے والی مسخ شدہ لاشوں کے ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔ 4۔ اکبر بگٹی سمیت دیگر بلوچ رہنماؤں کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔ 5۔ آپریشن کے نتیجے میں بے گھر افراد کی آبادکاری کی جائے اور۔ 6۔ صوبے میں سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کی مکمل آزادی دی جائے۔ ان مطالبات میں سے کوئی بھی مطالبہ ایسا نہیں جسے ناقابل فہم قرار دیا جا سکتا ہے یا جو پاکستان کے خلاف ہو۔ کیا بہتر ہو کہ ان مطالبات پر عمل درآمد کے لیے حکومت فوج کی مشاورت کے ساتھ خود آگے بڑھے۔
اپنے بلوچ ناراض بھائیوں سے اس موقع پر کوئی سخت بات نہیں کرنی چاہئے مگر کیا یہ بھی اچھا نہ ہوتا کہ اختر مینگل صاحب کے مطالبات میں یہ ڈیمانڈ بھی شامل کی جائے کہ بلوچستان میں سینکڑوں آبادکاروں خصوصاً پنجابیوں کے قاتلوں کو پکڑا جائے۔ ان دہشت گردوں کو بے نقاب کیا جائے جو شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کو بسوں سے اتار کر سنگدلی سے قتل کرتے ہیں۔ ان شرپسندوں کو بھی پکڑا جائے جنہوں نے فوج اور ایف سی کے افسران اور نوجوانوں کی جانیں لیں۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل اور اس سے متعلق صحیح حقائق جاننے کے لئے ایک اعلیٰ عدالتی کمیشن بنایا جائے۔ اگر پرویز مشرف اور دوسرے اس قتل میں واقعی شامل تھے تو ان کو سزائے موت دی جائے اور اگر یہ بات درست ہے کہ نواب بگٹی نے خود کشی کی تھی تو اس حقیقت کو بھی کھلنا چاہئے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے علاوہ کوئی دوسرا ادارہ نہیں جس پر اعتبار کیا جا سکے۔بلاشبہ مرکزکابلوچستان کی محرومی میں اہم کردار رہا مگر کیا بلوچستان کے نواب اور سردار بھی یہ تسلیم کریں گے کہ بلوچوں کی پسماندگی میں اُن کا بھی حصہ ہے۔ اگر سب اپنی غلطیوں کو تسلیم کر کے بلوچ عوام کی خوشحالی کے لیے کام کریں تو65 سال کی محرومی کا علاج چندسالوں میں ممکن ہے۔ معاملہ سارا نیت اور ارادہ کا ہے۔
تازہ ترین