’’امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ آیندہ ماہ اپنے شمالی کورین ہم منصب، کِم جونگ اُن سے ملاقات کریں گے۔‘‘ گرچہ امریکا اور شمالی کوریا کے تعلقات کی نوعیت دیکھتے ہوئے اس خبر کو سفارتی دُنیا میں ایک بہت بڑی پیش رفت اور رواں صدی کا ’’سب سے بڑا سرپرائز‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم، ٹرمپ کے غیر متوقّع اقدامات کے پیشِ نظر اسے حیرت انگیز قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
ہاں البتہ یہ تبدیلی عالمی و علاقائی طاقتوں اور جزیرہ نُما کوریا کے عوام کے لیے طمانیت کا باعث ضرور ہے۔ امریکی صدر کا اپنی ٹویٹ میں کہنا تھا کہ شمالی کوریا سے معاہدے پر کام جاری ہے اور اس معاہدے کا پایۂ تکمیل تک پہنچنا، اقوامِ عالم کے لیے بہت بہتر ہو گا۔
اس خبر پر ردِ عمل دیتے ہوئے جنوبی کوریا کے صدر، مون جے اِن نے کہا کہ ’’ یہ کسی کرامت سے کم نہیں۔‘‘ قبل ازیں، پیانگ یانگ میں شمالی کوریا کے صدر، کِم جونگ اُن سے ملاقات کرنے والے جنوبی کورین وفد نے یہ انکشاف کیا تھا کہ کِم ایٹمی ہتھیار تلف کرنے کے لیے پُر عزم ہیں اور شمالی کورین صدر کے حوالے سے یہ بیان جاری کیا گیا کہ انہوں نے کسی دبائو میں آکر یہ فیصلہ نہیں کیا، بلکہ وہ قیامِ امن کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ ڈرامائی تبدیلی کیسے وقوع پزیر ہوئی؟
شمالی کوریا کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششوں کا آغاز جنوری2018ء میں ہوا اور یہ تب نتیجہ خیز ثابت ہوں گی کہ جب مئی میں ٹرمپ اور کِم آمنے سامنے بیٹھیں گے۔ فی الوقت، ملاقات کے مقام کا تعیّن نہیں کیا جا سکا یا اسے جان بوجھ کر خفیہ رکھا گیا ہے۔ گزشتہ دِنوں جنوبی کوریا کے قومی سلامتی کے مُشیر، چنگ ایونگ نے وائٹ ہائوس میں امریکی صدر سے ملاقات کے بعد بتایا کہ ’’مَیں نے صدر ٹرمپ کو مطلع کیا ہے کہ ہم سے ملاقات میں انہوں نے (کِم جونگ نے) ایٹمی ہتھیار تلف کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
صدر کِم نے اس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ اب ان کا مُلک مزید میزائل تیار نہیں کرے گا۔ یہ سُن کر صدر ٹرمپ نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ مئی میں کِم سے ملاقات کریں گے اور ایک مستقل نوعیت کا معاہدہ کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔‘‘ خیال رہے کہ 1953ء میں دونوں کورین ممالک کے درمیان جنگ بندی ہوئی تھی، لیکن اس سیز فائر کا کوئی باقاعدہ معاہدہ نہیں ہوا تھا۔
سو، اصولی طور پر یہ دونوں ممالک اب بھی حالتِ جنگ میں ہیں اور اس جنگ کے نتیجے ہی میں شمالی اور جنوبی کوریا وجود میں آئے تھے۔ تب سے اب تک کئی امریکی صدور نے شمالی کوریا سے مذاکرات کیے، لیکن یہ سب ناکام ثابت ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ٹرمپ یہ سوچ کر خود کو ’’فاتح‘‘ سمجھ رہے ہوں گے کہ اُن کی حکمتِ عملی کے سبب صرف سال بَھر ہی میں شمالی کوریا مذاکرات پر آمادہ ہو گیا اور یہ اُن تجزیہ کاروں اور ماہرین کی ایک اور پسپائی ہے کہ جو صدارتی انتخابات سے پہلے ہی نہ صرف ٹرمپ کو عہدۂ صدارت کے لیے نا اہل ثابت کرنے پر تُلے ہوئے تھے، بلکہ اُن کے ایجنڈے کو امنِ عالم کے لیے خطرہ قرار دے رہے تھے اور اب نہ چاہتے ہوئے بھی ٹرمپ اور اُن کے شمالی کورین ہم منصب کے درمیان متوقّع ملاقات کی اہمیت کو 1972ء میں نکسن اور مائو کے درمیان ہونے والی ملاقات کے ہم پلّہ قرار دے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران جزیرہ نُما کوریا کی صورتِ حال بہت ابتر ہوئی۔ اوباما کے دَور میں شمالی کوریا کی جارحانہ پالیسی میں مزید شدّت آئی اور وہ ایٹمی دھماکوں اور بیلسٹک میزائلز کے تجربات میں اضافہ کرتا گیا، جس کے نتیجے میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے شمالی کوریا پر شدید نوعیت کی اقتصادی پابندیاں عاید کی گئیں، لیکن کِم جونگ اُن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور وہ مسلسل دُنیا کو آنکھیں دِکھاتے رہے۔
ٹرمپ کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی اور شمالی کوریا کے نوجوان رہنما ہائیڈروجن بم کے تجربے کا دعویٰ کر بیٹھے اور اس کی باقاعدہ تصاویر بھی جاری کر دیں، جنہیں مغربی ماہرین مشتبہ قرار دیتے ہیں۔ بعد ازاں، انہوں نے اعلان کیا کہ امریکا کی سر زمین اُن کے میزائلز کی رینج میں ہے۔
اس سے قطعِ نظر کہ اس دعوے میں کتنی صداقت تھی، لیکن اب انہیں اوباما جیسے صلح جُو کی بہ جائے ٹرمپ جیسے سَر پھرے امریکی صدر کا سامنا تھا اور ٹرمپ نے فوراً جواب دیا کہ وہ شمالی کوریا کو ایسی تباہی سے دو چار کریں گے، جس کا اُس نے تصوّر بھی نہ کیا ہو گا۔ پھر اس زبانی جھڑپ میں شدّت آتی گئی اور دُنیا ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچتی دِکھائی دی۔ صورتِ حال اُس وقت مزید پیچیدہ ہو گئی کہ جب ایک بڑی علاقائی طاقت، جاپان، شمالی کوریا کے میزائل تجربات سے متاثر ہوا اور اُس نے فوجی طاقت بننے کی جانب پیش قدمی شروع کردی۔
دوسری جانب امریکا نے اقوامِ متحدہ میں اقتصادی پابندیاں عاید کرنے کی مزید قراردادیں منظور کروا کر شمالی کوریا کی معیشت کو مفلوج کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ نیز، ٹرمپ نے چینی صدر، شی جِن پِنگ سے شمالی کوریا پر دبائو بڑھانے اور اُسے اپنے ایٹمی ہتھیار تلف کرنے پر مجبور کرنے کی براہِ راست درخواست کی۔
اسی دوران ایک بڑی تبدیلی یہ دیکھی گئی کہ چین نے اقوامِ متحدہ میں شمالی کوریا کے خلاف پیش کی گئی قراردادوں کی حمایت شروع کر دی، جنہیں پہلے وہ ویٹو کرتا آیا تھا۔ اپنے حلیف مُلک کی جانب سے تجارت پر پابندی عاید ہونے کے سبب شمالی کوریا کو بد ترین معاشی بُحران سے گزرنا پڑا، لیکن اس کے باوجود وہ اپنے جارحانہ عزائم سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہ ہوا۔
تاہم، 2018ء کا پہلا روز شدید سرد ہونے کے باوجود جنوبی و شمالی کوریا میں پائی جانے والی سرد مہری کو ہلکی سی آنچ دے گیا اور کِم نے جنوبی کوریا میں منعقد ہونے والے وِنٹر اولمپکس میں اپنی ٹیم بھیجنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ اس ایونٹ کی افتتاحی تقریب میں دونوں ممالک کے کھلاڑیوں نے مشترکہ مارچ کیا۔
وِنٹر اولمپکس کے لیے بھیجے گئے شمالی کورین وفد میں صدر کِم کی ہم شیرہ بھی شامل تھیں، جنہیں حکومت کا اہم اور طاقت وَر نمایندہ سمجھا جاتا ہے۔ انہیں اپنے بھائی کی طرف سے جنوبی کورین حُکّام سے مذاکرات کے لیے وسیع اختیارات حاصل تھے۔
واضح رہے کہ وہ نہ صرف خوش شکل ہیں، بلکہ ایک منجھی ہوئی سفارت کار بھی ہیں۔ انہوں نے جنوبی کوریا کے صدر سے ملاقات کی اور انہیں اپنے بھائی کی جانب سے مفاہمت کا پیغام پہنچایا اور غالباً اسی ملاقات کے دوران ہی امریکی صدر سے بات چیت کے خدوخال بھی طے کیے گئے۔
واضح رہے کہ جنوبی کورین صدر، مون جے اِن شمالی کوریا سے بہتر تعلقات قائم کرنے کے منشور کے نتیجے ہی میں عُہدۂ صدارت پر فائز ہوئے۔ اُن کا تعلق بھی شمالی کوریا ہی سے ہے اور انہوں نے دونوں حصّوں کے درمیان جنگ چِھڑنے کے بعد اپنی والدہ کے ساتھ جنوبی کوریا ہجرت کی تھی۔
اس جنگ کے نتیجے میں مون کا خاندان تقسیم ہو گیا اور ان کی اکلوتی خالہ بھی شمالی حصّے میں رہ گئیں ، جب کہ اُن کی والدہ اپنی بہن سے ملنے کی شدید خواہش مند تھیں۔ جنوبی کورین صدر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شمالی کورین بھائیوں کو تباہ ہوتے نہیں دیکھ سکتے اور بات چیت کے ذریعے ہی تنازعے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی کِم نے وِنٹر اولمپکس میں اپنی ٹیم بھیجنے کا اشارہ دیا، مون نے مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دیا ، جس کا نتیجہ مذکورہ بریک تھرو کی صورت میں برآمد ہوا۔
امریکی صدر، ٹرمپ نے ابتدا ہی سے شمالی کوریا کے معاملے میں سخت رویّہ اپنایا اور اسے بہ تدریج جارحانہ رویّے میں تبدیل کرتے گئے، جسے اُن کے ناقدین نے پوری دُنیا کے لیے خطرناک قرار دیا۔ ٹرمپ کے اس انداز پر امریکی ذرایع ابلاغ میں بھی شدید تنقید کی گئی اور انہیں صبر و تحمّل سے کام لینے کا مشورہ دیا گیا، جب کہ عالمی اُمور کے ماہرین اُن کی سخت ٹویٹس اور بیانات کو نا تجربہ کاری پر محمول کرتے رہے۔
ٹرمپ کی سخت گیر پالیسی کی دو جہات تھیں۔ اوّل، شمالی کوریا کے ہر جارحانہ بیان کا مزید جارحیت سے جواب دینا ۔ شمالی کورین لیڈر کو ’’راکٹ مین‘‘ قرار دینا اور ’’فائر اینڈ فیوری‘‘ جیسے الفاظ کا استعمال اسی جہت کا حصّہ تھے۔ وہ بار بار شمالی کوریا اور دُنیا کو یہ باور کرواتے رہے کہ امریکا سُپر پاور ہے، وہ کبھی نہیں جُھکے گا اور غلطی شمالی کوریا کی ہے۔ دوم، انہوں نے بڑے نپے تُلے انداز میں چین پر اپنے حلیف کی پُشت پناہی سے دست بردار ہو جانے کے لیے دبائو برقرار رکھا اور بیجنگ سے درخواست کی کہ وہ پیانگ یانگ پر شدید اقتصادی پابندیاں عاید کرے اور اُسے مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے مجبور کرے۔
ایسا لگتا ہے کہ اب تک ٹرمپ کی یہ پالیسی کام یاب رہی ہے اور اُن کے شدید ترین ناقدین بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی بات منوانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ امن مذاکرات کے لیے امریکا کی بنیادی شرط یہی تھی کہ پیانگ یانگ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو تلف کر دے اور جنوبی کوریا کے صدر کے لیے اپنے شمالی کورین ہم منصب سے اس شرط کو منوانا خاصا مشکل دِکھائی دے رہا تھا، لیکن کِم جونگ اُن نے جتنی آسانی سے امریکی صدر کو مذاکرات کی پیش کش کی اور ایٹمی ہتھیار تلف کرنے کا عزم ظاہر کیا، اُس نے خود امریکا کو بھی حیرت زدہ کر دیا اور سابق امریکی وزیرِ خارجہ، ریکس ٹلرسن یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ’’ہمیں بھی تعجب ہے کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا۔‘‘
جنوبی و شمالی کوریا کے درمیان جاری تنازعے کے سبب دونوں ممالک کے عوام کے سَر پر ہر وقت خطرے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے اور یہ امریکا، چین اور خطّے کے دیگر ممالک سے زیادہ ان دونوں ممالک کے لیے باعث ِ فکرہے۔ تاہم، حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ دونوں حصّوں کے صدور، کِم جونگ اُن اور مُون جے اِن کا تعلق شمالی کوریا سے ہے۔ گرچہ جنوبی کورین صدر شمالی کوریا سے ہجرت کر کے آئے تھے، لیکن جنوبی کورین عوام کی اس خُوبی کو سراہنا چاہیے کہ انہوں نے کبھی بھی اپنے مُلک میں ہجرت کر کے آنے والے شمالی کورین باشندوں کو مہاجر نہ جانا، بلکہ ایک مہاجر ہی کو اپنا صدر منتخب کیا اور اس سے تاریخی فیصلے بھی کروائے۔
بہ ظاہر یہ سب جتنا آسان دِکھائی دیتا ہے، اتنا ہی مشکل ہے، کیوں کہ اس راہ میں مختلف قسم کے تعصّبات اور ذاتی مفادات آڑے آتے ہیں اور ان رُکاوٹوں کو ایک حوصلہ مند رہنما ہی عبور کر سکتا ہے۔ یہ شاید مون جے اِن کے عزم و حوصلے ہی کا ثمر ہے کہ اب کوریا کے دونوں منقسم حصّے ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں اور اگر جنوبی و شمالی کوریا ایک بار پھر متحد ہو جاتے ہیں، تو یہ کسی کرامت سے کم نہ ہو گا۔
کوریا کو منقسم ہوئےتقریباً 66برس بِیت چُکے ہیں اور اس وقت جنوبی کوریا دُنیا کی طاقت وَر معیشتوں میں شمار ہوتا ہے، جب کہ شمالی کوریا ایک غریب ترین مُلک ہے۔ اگر دونوں حصّے متحد ہوجاتے ہیں، تو جنوب کے آسودہ حال باشندوں کو اپنی خوش حالی میں اپنے شمالی حصّے کے بھائیوں کو بھی شامل کرنا ہو گا۔ بہ ظاہر یہ بھی ایک سادہ سا عمل دِکھائی دیتا ہے، لیکن یہ کوئی معمولی بات نہیں اور صرف وسیع القلب اور اعلیٰ ظرف کی حامل اقوام ہی ایسی قربانیاں دے سکتی ہیں۔
اس سلسلے میں مشرقی و مغربی جرمنی کے متحد ہو کر جرمنی کی شکل میں اُبھرنے کو ایک نظیر کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ خیال رہے کہ جرمنی اس وقت یورپ کی سب سے بڑی اور دُنیا کی چوتھی بڑی طاقت ہے، مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوریا کا مستقبل بھی ایسا ہی ہو گا؟ تاہم، اس میں پاکستان کے سیاسی رہنمائوں کےلیے ایک واضح پیغام پوشیدہ ہے کہ جو مُلک کو متحد کرنے کی بات تو کرتے ہیں، لیکن جب آزمائش اور قربانی دینے کا لمحہ آتا ہے، تو تعصّبات کی آندھی کے سامنے بکھر جاتے ہیں اور مُلک کو دو لخت کر دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ اقوام طاقت سے مضبوط ہوتی ہیں اور نہ متحد رہ سکتی ہیں۔ اتحاد وہ پودا ہے کہ جو صرف قربانی اور محبّت و رواداری کی زمین پر پَھلتا پُھولتا ہے۔ ٹرمپ اور کِم مذاکرات کے ذریعے صرف امن کی راہ ہی ہم وار کر سکتے ہیں اور کوریا کی خوش حالی اس کے رہنمائوں اور باشندوں کے عزم میں مضمر ہے۔
واضح رہے کہ جنوبی و شمالی کوریا کے درمیان پہلی مرتبہ مذاکرات نہیں ہو رہے، بلکہ بات چیت کا یہ سلسلہ کئی مرتبہ شروع ہو کر تعطّل کا شکار ہوا۔ اس ضمن میں سیئول نے اپنی ’’سن شائن پالیسی‘‘ کے تحت پیانگ یانگ کو نہ صرف بہت سی رعایات دیں، بلکہ کروڑوں ڈالرز کی امداد بھی فراہم کی اور اس کے نتیجے میں شمالی کوریا نے بات چیت پر آمادگی بھی ظاہر کی، لیکن کچھ عرصے بعد دوبارہ مقابلے پر اُتر آیا۔ ناقدین کا ماننا ہے کہ کروڑوں ڈالرز پر مشتمل یہ امداد شمالی کوریا نے ایٹمی ہتھیار تیار کرنے اور اپنی فوجی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال کی۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت واشنگٹن اور سیئول میں ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ پیانگ یانگ کو بہت زیادہ رعایات دینا مناسب نہ ہو گا، کیوں کہ یہ اندیشہ ہے کہ وہ اس مشکل صورتِ حال سے نکلنے کے بعد اپنی پُرانی روِش پر آ جائے گا۔
غالباً اسی باعث ٹرمپ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب تک فریقِ ثانی قیامِ امن کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرتا، تب تک سخت اقتصادی پابندیاں برقرار رہیں گی۔ پھر جاپان بھی شمالی کوریا سے بے حد نالاں ہے اور جاپانی وزیرِ اعظم، شینزو ایبے کسی بھی قسم کی لچک دِکھانے پر آمادہ نہیں اور ٹوکیو کی جانب سے ٹرمپ پر یہ دبائو ہے کہ وہ علاقائی خطرات اور جاپان کے مفادات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہی کوئی پیش رفت کریں۔
نیز، گرچہ چین نے شمالی کوریا پر مذاکرات کے لیے دبائو ڈالا ہے، لیکن وہ بھی یہ نہیں چاہتا کہ دونوں حریف ممالک فوری طور پر ایک دوسرے کے قریب آ جائیں اور وہ اپنا مفاد حاصل کرنے کے لیے ہر معاہدے میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ بہر کیف، جب تک ٹرمپ اور کِم کے درمیان ملاقات نہیں ہو جاتی اور اس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آ جاتا، تب تک قیاس آرائیاں جاری رہیں گی۔ تاہم، اس پیش رفت سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ ممالک کے درمیان دوستیاں اور دشمنیاں مستقل نہیں ہوتیں اور ان کا انحصار حالات و واقعات اور مفادات پر ہوتا ہے اور اس سلسلے میں کبھی کبھار میڈیا اور دانش وَروں کا کردار بالکل محدود ہو جاتا ہے۔
ہرچند کہ تجزیے اور پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں، لیکن نتائج دُنیا کو بہتر مستقبل کی نوید دے رہے ہیں اور جب تلخیوں کے ماحول میں ایسے خوش گوار جھونکے آتے ہیں، تو دُنیا بَھر کے عوام میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش شام کی خانہ جنگی، افغانستان کی جنگ، مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم، مسئلہ فلسطین اور دہشت گردی جیسے سارے انسانی المیےختم ہو جائیں ، تاکہ ہم بھی سُکھ کا سانس لے سکیں۔