• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انگریزی محاورے کے مطابق بعض اوقات لاعلمی ایک سعادت اور مسرت (Bliss) ہے۔ درد آگہی نری مشقت ہے کیونکہ لوگوں کے پاس دن بدن پڑھنے کی ’’فرصت‘‘ کم ہوتی جارہی ہے اور تحقیق یا سچ کی تلاش کا جذبہ زوال پذیر ہو چکا ہے۔ معلومات کا ذریعہ سوشل میڈیا اور وکی پیڈیا جیسے ذرائع ہیں جہاں جھوٹ زیادہ اور سچ کم ہے۔ ان ذرائع میں معلومات بھرتی کرنے والے تاریخی حقائق کو اپنی خواہشات اور ضروریات کے سانچے میں ڈھال لیتے ہیں۔ عدیم الفرصت حضرات اور نوجوان عام طور پر انہی ذرائع سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔ چنانچہ میں جب ایم اے اور ایم فل کی سطح کے طلبا سے پاکستان کی تاریخ و سیاست کے بارے غلط اور بے بنیاد باتیں سنتا ہوں تو دکھ ہوتا ہے۔ پوچھنے پر پتہ چلتا ہے کہ ان کی معلومات کا منبع (Source) یہی غیر معتبر ذرائع ہیں۔ طلبا اور نوجوان تو تحقیق کی زحمت برداشت نہیں کرتے لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ذمہ دار اور پڑھے لکھے حضرات بھی جھوٹ کی رو میں بہہ جاتے ہیں اور تاریخ کو مسخ کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔
ہمارے ایک مہربان دوست نہ صرف جنگ کے معزز کالم نگار ہیں بلکہ رکن قومی اسمبلی بھی ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے ترجمانوں میں بھی شمار ہوتے ہیں۔ ایسے معتبر اور معزز پاکستانی سے توقع کی جاتی ہےکہ وہ لکھنے سے پہلے حقائق کی تصدیق کریں گے کیونکہ ان کا لکھا اور بولا ہوا لفظ ہمارے ہزاروں نوجوانوں کو گمراہ کرسکتا ہے۔ مجھے تھوڑی سی حیرت اس بات پر بھی ہوئی کہ وہ جنگ کو بھی پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے ورنہ اتنی ’’فاش‘‘ غلطیاں نہ کرتے۔ میں اس گمراہ کن پروپیگنڈے کی وضاحت تاریخی شواہد کے حوالے سے کئی بار اپنے کالم میں کر چکا ہوں۔
فاضل کالم نگار نے اپنے کالم ’’تحریک پاکستان کے غیر مسلم اکابرین‘‘ مطبوعہ 26مارچ میں لکھا ’’یہ بھی ایک حیران کن انکشاف ہے کہ قائداعظم کی فرمائش پر پاکستان کا پہلا قومی ترانہ ’’ہندو شاعر جگن ناتھ آزاد کا تحریر کردہ 14اگست 1947ء کو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا اور سرکاری طور پربطور قومی ترانہ ڈیڑھ سال تک نشر ہوتا رہا‘‘۔ میں نے اس موضوع پر گہری تحقیق کر کے کچھ عرصہ قبل وضاحت کی تھی جس کا ایک حصہ دوبارہ پیش خدمت ہے۔
’’قائداعظمؒ سرتاپا قانونی اور آئینی شخصیت تھے۔ اس لئے یہ بات میری سمجھ سے بالاتر تھی کہ قائداعظمؒ کسی کو ترانہ لکھنے کے لئے کہیں اور پھر کابینہ، حکومت یا ماہرین کی رائے لئے بغیر اسے خود ہی آمرانہ انداز میں منظور کردیں جبکہ ان کا اردو، فارسی زبان اور اردو شاعری سے واجبی سا تعلق تھا۔ میرے لئے دوسری ناقابل یقین صورت یہ تھی کہ قائداعظمؒ نے عمر کا معتدبہ حصہ بمبئی اور دہلی میں گزارا، ان کے سوشل سرکل میں زیادہ تر سیاسی شخصیات، مسلم لیگی سیاستدان، وکلاء وغیرہ تھے۔ پاکستان بننے کے وقت ان کی عمر 71سال کے لگ بھگ تھی۔ جگن ناتھ آزاد اس وقت 29سال کے غیر معروف نوجوان تھے اور لاہور میں قیام پذیر تھے پھر وہ پاکستان مخالف اخبار ’’جئے ہند‘‘ کے ملازم تھے۔ ان کا قائداعظم سے تعارف ممکن ہی نہیں۔
مجھے تحقیق کے تقاضے پورے کرنے اور سچ کا کھوج لگانے کے لئے ٹھوس شواہد کی ضرورت تھی۔ ذہنی جستجو نے رہنمائی کی کہ قائداعظمؒ کوئی عام شہری نہیں تھے جن سے جو چاہے دستک دے کر مل لے۔ وہ مسلمانان ہند و پاکستان کے قائداعظم اوز جولائی 47ء سے پاکستان کے نامزد گورنر جنرل تھے۔ان کے ملاقاتیوں کا کہیں نہ کہیں ریکارڈ موجود ہوگا۔ سچ کی تلاش کے اس سفر میں مجھے 1989ء میں چھپی ہوئی پروفیسر احمد سعید کی ایک کتاب مل گئی جس کا نام ہے "Visitors of the Quaid-e-Azam" احمد سعید نے بڑی محنت سے قائداعظمؒ کے ملاقاتیوں کی تفصیل جمع کی ہیں جو 25اپریل 1948ء تک کے عرصے کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کتاب میں قائداعظم کے ملاقاتیوں میں جگن ناتھ آزاد کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ 7اگست 1947ء کو قائداعظمؒ بطور نامزد گورنر جنرل دلی سے کراچی آئے تو ان کے ساتھ ان کے اے ڈی سی بھی تھے۔ اے ڈی سی ہی ملاقاتوں کا سارا اہتمام کرتا اور اہم ترین عینی شاہد ہوتا ہے۔ جب قائداعظمؒ کراچی اترے تو جناب عطا ربانی بطور اے ڈی سی ان کے ساتھ تھے اور پھر ساتھ ہی رہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس وقت وہ زندہ تھے۔ میں نے فون کیا تو جناب عطا ربانی صاحب کا جچا تلا جواب تھا کہ جگن ناتھ آزاد نامی شخص نہ کبھی قائداعظمؒ سے ملا اور نہ ہی میں نے کبھی اس کا نام قائداعظمؒ سے سنا۔ اب اس کے بعد اس بحث کا دروازہ بند ہو جانا چاہئے کہ جگن ناتھ آزاد کو قائداعظمؒ نے بلایا۔
اس بحث کے دوسرے حصے کا تعلق ریڈیو پاکستان سے ہے۔ ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز گواہ ہیں کہ جگن ناتھ آزاد کا کوئی ترانہ یا ملی نغمہ یا کلام 1949ء تک ریڈیو پاکستان سے نشر نہیں ہوا۔ 14اور 15اگست کی درمیانی شب جب آزادی کے اعلان کے ساتھ پہلی بار ریڈیو پاکستان کی صدا گونجی تو اس کے بعد احمد ندیم قاسمی کا یہ ملی نغمہ نشر ہوا۔پاکستان بنانے والے، پاکستان مبارک ہو۔ 15اگست کو پہلا ملی نغمہ مولانا ظفر علی خان کا نشر ہوا جس کا مصرعہ تھا؎ توحید کے ترانے کی تانیں اڑانے والے۔ ریڈیو پاکستان کا حلفیہ بیان میرے پاس موجود ہے کہ جگن ناتھ کا قومی ترانہ کبھی ریڈیو سے نشر نہیں ہوا۔ میں نے یہیں تک اکتفا نہیں کیا۔ اس زمانے میں ریڈیو کے پروگرام اخبارات میں چھپتے تھے۔ میں نے 14اگست سے لے کر اواخر اگست تک اخبارات دیکھے۔ جگن ناتھ آزاد کا نام کسی پروگرام میں بھی نہیں ہے۔ میں ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز سے ہوتے ہوئے ریڈیو کے سینئر ریٹائرڈ لوگوں تک پہنچا۔ ان میں خالد شیرازی بھی تھے جنہوں نے 14اگست سے 21اگست 1947ء تک کے ریڈیو پروگراموں کا چارٹ بنایا تھا۔ انہوں نے سختی سے جگن ناتھ کے حوالے سے اس دعویٰ کی نفی کی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر آزاد کا ترانہ ہمارا قومی ترانہ تھا اور وہ 1949ء تک نشر ہوتا رہا تو پھر اس کا کسی پاکستانی کتاب، کسی سرکاری ریکارڈ میں بھی ذکر کیوں نہیں ہے اور اس کے سننے والے کہاں چلے گئے‘‘۔
مختصر یہ کہ جگن ناتھ آزاد نہ کبھی قائداعظم سے ملے، نہ ترانہ پاکستان لکھا اور نہ ہی ان کا ترانہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔ اس شوشے کو ہوا دینے والے ان کا ایک ملی نغمہ پیش کرتے ہیں جو بہرحال قومی ترانے کا درجہ نہیں پا سکتا۔
فاضل کالم نگار نے یہ بھی لکھا کہ قرارداد پاکستان کا متن سرظفر اللہ خان نے لکھا تھا۔ یہ بھی ایک بے بنیاد اور گمراہ کن دعویٰ ہے جس کا مقصد قائداعظم کو انگریزوں کا ایجنٹ اور تقسیم ہند کو انگریزوں کی سازش ثابت کرنا ہے۔ میں اسی اخبار میں اس سازش کو بے نقاب کر چکا ہوں لیکن افسوس فاضل کالم نگار کو پڑھنے کی فرصت نصیب نہیں۔ ایک بار پھر قارئین کی راہنمائی کے لئے اپنے الفاظ دہرا رہا ہوں۔ قرارداد لاہور (پاکستان) کی عظمت کو ٹھیس لگانے کے لئے خان ولی خان اور ڈاکٹر مبارک علی دعویٰ کرتے ہیں کہ وائسرائے لنلتھگو نے قرارداد لاہور سر ظفر اللہ سے لکھوائی اور قائداعظم کودے دی۔ جنہوں نے 23مارچ 1940ء کے اجلاس میں مسلم لیگ سے منظور کروا دی۔ اس سے بڑا جھوٹ شاید ہی کبھی تاریخ کے نام پر بولا گیا ہو۔ قرارداد پاکستان کا اصلی مسودہ کراچی یونیورسٹی کے ریکارڈ میں محفوظ ہے اور اس میں کوئی چودہ پندرہ ترمیمات اور اضافے کئے گئے تھے جنہیں پڑھا جاسکتا ہے۔ ایک اضافہ قائداعظم نے خود کیا تھا۔ پس منظر کے طور پر ذہن میں ہے کہ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے 21مارچ 1940ء کو قرا رداد ڈرافٹ کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دی تھی جو گھنٹوں قرارداد پہ کام کرتی رہی۔ بنیادی ڈرافٹ پنجاب کے پریمیئر سر سکندر حیات نے تیار کیا تھا جس میں بہت سی بنیادی تبدیلیاں اراکین کمیٹی نے کیں۔ سر سکندر حیات نے گیارہ مارچ 1941ء کو پنجاب قانون ساز اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے بتایا کہ قرارداد پاکستان کا بنیادی ڈرافٹ انہوں نے تیار کیا تھا لیکن اس میں اتنی زیادہ تبدیلیاں کی گئیں کہ اس کی شکل ہی بدل گئی۔ مسلم لیگی قیادت نے کبھی اس کی تردید نہیں کی۔ اس حوالے سے سر ظفر اللہ خان کا اپنا بیان اہم ہے جو 21دسمبر 1981ء کو اخبارات میں چھپا۔ قرارداد پاکستان کی منظوری کے 41برس بعد انٹرویو دیتے ہوئے سر ظفر اللہ نے وضاحت کی کہ ان کا قرارداد پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی ان کی تیار کردہ کوئی قرارداد قائداعظم قبول کرتے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ سر ظفر اللہ خان قرارداد لاہور لکھنے کی تردید کر چکے ہیں اور ہم اسے ان کے سر تھوپنا چاہتے ہیں۔ اس صورت حال کی بنیادی وجہ لاعلمی اور تحقیق سے دوری ہے۔ اس لئے میری دردمندانہ گزارش ہے کہ تاریخ مسخ کرنے والوں سے ہوشیار رہیں اور بلا تحقیق نہ لکھا کریں کیونکہ اس سے ہماری نوجوان نسلیں گمراہ ہوتی ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین