• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیخ صاحب، بڑا دکھ پہنچایا آپ نے۔ میرا دکھ انفرادی ہے، قوم کو اللہ محفوظ رکھے اور ان امراض سے بچ جائے جن کا یہ مظلوم شکار ہوتی رہی ہے۔ بہت تکلیف ہوئی عدالتی مارشل لا کا مطالبہ آپ کے منہ سے سن کر۔ مانا کہ آپ بہت آئیڈیل جمہوری نہیں رہے، بیچ بیچ میں ڈانواں ڈول ہوتے رہے ہیں، مگر جتنا میں آپ کو جانتا ہوں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا مجموعی مزاج جمہوری ہے۔ اسی لئے افسوس بھی بہت ہوا، اور دکھ بھی۔ آپ نے تو دیکھا ہی ہے، اور بھگتا بھی کہ یہاں طالع آزما موقع کی تلاش میں رہے ہیں، ذرا سا امکان نظر آیا جھپٹ پڑے۔ حالات ان کے حق میں سازگار نہ تھے تو ڈھال لئے۔ آپ نے مارشل لا کے ساتھ عدالتی کا لاحقہ لگاکر اپنی دانست میں شاید کچھ بہتر اصطلاح استعمال کی ہو، مگر اس کا مجموعی اثر انتہائی منفی ہے۔ مارشل لا تو کبھی پسندیدہ رہا نہ قابل قبول، عدلیہ میں اس کی ملاوٹ چہ معنی دارد؟
اس قوم کی قسمت اچھی ہے، اس کے بھاگ اچھے ہیں، عدلیہ کے سربراہ نے عدالتی مارشل لا کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ اس سے زیادہ درست بات کیا ہوسکتی ہے۔ آئین میں کہیں کوئی ایسی شق نظر نہیں آتی جو اس طرح کے اقدام کا جواز فراہم کرتی ہو۔ مگر یہ قوم دودھ کی جلی ہے، شیخ صاحب، آپ تو جانتے ہی ہیں، اسے چھاچھ ملے تو بھی پھونک پھونک کر پینے پر مجبور ہوتی ہے، مگر ساری احتیاطوں کے باوجود اس کی کئی نسلیں جل چکی ہیں۔
اسی آئین میں، اس کے خالقوں نے آرٹیکل 6 شامل کردیا تھا۔ اُن کا خیال تھا اب کوئی آئین کو منسوخ نہیں کرسکے گا۔ خواہشات اپنی جگہ، حقائق کچھ اور ہیں۔ کب تک ان کا تذکرہ کیا جائے۔ قانونی بزرجمہروں نے ایک نکتہ جنرل ضیاء الحق کے لئے تلاش کرلیا، آئین معطل کرنے کا۔ بعد میں اس کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ آئین تو ایک طرف پڑا رہا۔ معطل بھی نہیں کیا گیا۔ بس حکومت پر بندوق کے بل پر قبضہ کیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ سنبھال کر سارے کام کرنے کا اختیار حاصل کرلیا۔ یہ بات ایک بار پھر، اور آج کے حالات میں، پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس کی بھی آئین میں کوئی گنجائش تھی نہ ہے۔ آئین میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہوگا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو بھی اقتدار پر قابض ہوجائے وہ چیف ایگزیکٹو ہوجائے گا۔ اس لئے، آپ کے مطالبے کی روشنی (یا دھند؟) پر تبصرہ میں آئینی گنجائش ہونے یا نہ ہونے کی بات کی گئی ہے تو ماضی کے حقائق سامنے رکھنا ضروری ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ آئین معطل کرنے کا کوئی حوالہ اس دستاویز میں نہیں ہے۔ تو کیا آئین معطل نہیں ہوا؟ ردی کی ٹوکری میں ڈال نہیں دیا گیا؟ اب اگر یہ کہا جائے کہ آئین میں عدالتی مارشل لا کی کوئی گنجائش نہیں ہے تو اس کا کیا مطلب لیا جائے؟ اس پر کتنا اعتماد کیا جائے؟ ماضی میں جب کبھی آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا، کیا ہوا؟ کتنی بار کہا جائے، ماضی میں اعلیٰ عدالتوں نے ان اقدامات کو جائز قرار دیا۔ جنرل ضیا کا مارشل لا ہو یا جنرل مشرف کا۔ دونوں کو عدالتوں نے جائز قرار دیا۔ کیا ان کو علم نہیں تھا کہ آئین میں مارشل لا کی کوئی گنجائش نہیں ہے؟ ججوں سے زیادہ آئین کی باریکیوں سے کون واقف ہوتا ہے۔ ہاں، ’جدہ کے جادوگر‘ شریف ا لدین پیرزادہ اس کی بھول بھلیوں سے واقف تھے، ہمیشہ کوئی نکتہ فوجی آمر کے حق میں تلاش کردیا کرتے تھے۔ اب وہ نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدانخواستہ ضرورت پڑی تو کوئی اور’ نکتہ و ر‘نہیں مل جائے گا۔ ججوں نے تو ہمیشہ، جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل مشرف تک باریک نکتے تلاش کئے۔ فیاضی اتنی دکھائی کہ بن مانگے موتی دئیے، یعنی آمر کو آئین میں ترمیم کا حق بھی دیا۔ شیخ صاحب، آپ کی توجہ کے لئے۔ آئین میںتو لکھا ہے کہ منتخب حکومت کی (کسی بھی وجہ سے) برطرفی کے بعد نوے دنوں میں انتخابات کرانا ضروری ہیں۔ حیرانی کی بات ہے، عدالت نے آمر کو تین برس تک آئین میں ترمیم کرنے کا حق دے دیا۔ مانا کہ عدالتی مارشل لا کی گنجائش آئین میں نہیں ہے۔ ان ججوں نے جو کیا، کیااس کی گنجائش ہے؟ اس پرغور کریں۔ آئین میں عبوری آئین کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مگر وہ نافذ بھی ہوئے، اور ان پر حلف بھی اٹھائے گئے ہیں۔ یہ گنجائشیں کہاں سے نکلیں؟ کس نے نکالیں؟ اور کیسے نکالیں؟ ہوا تو یہی۔ تو بات گنجائش کے ہونے یا نہ ہونے کی نہیں۔ نظیر کی ہے۔ جو بہت موجود ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار سے بہت پہلے، جسٹس سعیدالزماں صدیقی تھے، اُن سے پہلے بھی کچھ جج تھے۔ جسٹس صدیقی نے عبوری آئین کے تحت حلف اُٹھانے سے انکار کردیا تھا، دور تھا جنرل مشرف کا۔ انہیں گھر بھیج دیا گیا۔ اور بھی کئی ان کے ساتھ گئے۔ کچھ دوسرے رضامند ہو گئے، ایسے لوگ ہمیشہ مل جاتے ہیں جو عبوری آئین کے تحت حلف اُٹھا لیتے ہیں، آمر کی مرضی کا فیصلہ دے دیتے ہیں، اور بعد میں شہیدوں میں نام لکھواتے ہیں، انگلی کٹائے بغیر۔
اور یہ جو ایک دستاویز ہے، آئین جسے کہتے ہیں، بہت تگ و دو کے بعد بنا ہے۔ وقعت اس کی نہیں کی گئی۔ ایک نے معطل کیا، اور اس کی تذلیل کی۔ ضیا ء الحق نے آئین کو کاغذ کا ایک ٹکڑا کہا اور یہ دعویٰ بھی کہ اگر وہ اسے پھاڑ کر پھینک دے تو کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ آئین کاغذ پر صرف چھپا ہوا ہے۔ ورنہ وہ ایک مقدس دستاویز ہے، جس کی اصل قومی اسمبلی میں، معزز ارکان کے دستخطوں کے ساتھ محفوظ ہے۔ آئین کاغذ کے پرزے نہیں ہوتے، یہ ملک کا وقار ہوتے ہیں۔ برطانیہ میں تو لکھا ہوا ہے ہی نہیں۔ صرف روایات ہیں، ان پر ملک چل رہا ہے، اور ہم سے بہتر۔
اس سے پہلے کہ شیخ صاحب میں آپ سے درخواست کروں کہ اپنا مطالبہ واپس لیں، ایک اور افسوسناک پہلو کی طرف آپ کی، اور قو م کی، توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ صرف عدلیہ ہی نہیں، اس آئین کے ساتھ ہماری پارلیمان نے بھی کچھ بہتر نہیں کیا ۔ جنرل ایوب سے لیکر جنرل مشرف تک، سب کے غیر آئینی اقدامات کو جائز قرار دیا گیا۔ آمروں کا کہنا تھا ہمارے اقدامات کی تو ثیق کروگے تو جمہوریت آئے گی۔ یہ توثیق انہوں نے جبراً لی۔ آئین کی شق 270میں ان کی تفصیلات درج ہیں۔ منتخب نمائندوں نے آمروں کے اقدامات کو آئینی تحفظ فراہم کیا۔ اسی طرح سہی، جمہوریت آگئی۔ مگر کبھی یہ توفیق کسی اسمبلی کو نہیں ہوئی کہ آمروں کے کئے گئے غیر قانونی اقدامات ختم کردیتی، آئین کو اپنی اصل حالت میں بحال کردیتی۔ شیخ صاحب، آپ بھی کئی اسمبلیوں کے رکن رہے ہیں، آپ نے بھی کبھی اس سلسلےمیں آواز نہیں اٹھائی۔ اس میں شرم کا کوئی پہلو نکلتا ہو تو کبھی اپنے گریبان میں بھی جھانک لیں۔
آپ سے پرانی یاد اللہ ہے۔ یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ ہم بہت اچھے دوست رہے ہیں، جان پہچان آپ سے اچھی رہی ہے۔ اُسی حوالے سے ایک بات عرض ہے، اپنے جذباتی مطالبہ پہ غور کریں، اسے واپس لے لیں۔ آپ کو یاد دلادوں ،گو آپ اچھی طرح جانتے ہیں، مرکز اور صوبوں میں، انتخابات سے پہلے، عبوری حکومتیں قائم کرنے کا اصول موجودہے۔ اسی آئینی طریقہ پر عمل ہونے دیں، اسی میں جمہوریت کی بقا ہے، اور اسی میں اس ملک کی فلاح۔ دوسرے سب راستے تباہی کی طرف جاتے ہیں۔ اُدھر نہ لیجائیں، ان سے خود بھی بچیں اور قوم کو بھی محفوظ رکھیں۔ ضرورت اس اَ مَر کی ہے کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہو جائیں، ہونے دئیے جائیں۔ چیف جسٹس کی خواہش بھی یہی ہے۔ ایک بات مگر عرض کرنا ضروری ہے۔ انتخابات کرانے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہے۔ اس پر دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں کہ انتخابات منصفانہ ہوں۔ اگر نہ ہوں تو اس کی ذمہ داری بھی الیکشن کمیشن پر عائد ہوگی۔ محترم چیف جسٹس آئین کی کس شق کے حوالے سے بات کررہے ہیں؟ یہ واضح نہیں ہے۔ انہیں عدلیہ کے روبرو پیش مقدمات کو دیکھنا ہوتا ہے۔ انتخابات ان کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔ ان کی خواہش سر آنکھوں پر، ساری قوم یہی چاہتی ہے۔ بس یہ کہ جس کی ذمہ داری ہے اسے ہی ادا کرنے دیں۔ یہی آئین کی بالادستی ہے، اسی کے تحفظ کا فریضہ سب پر عائد ہوتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اورواٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین