• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شہباز شریف کا نیا کردار

ملکی حالات میں اِس قدر تلاطم برپا ہے کہ معمول کے مطابق کوئی کام ہوتا نظر نہیں آتا۔ غالباً یہ کیفیت اس لیے ہے کہ ہر شخص اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنے لگا ہے اور ہر ادارہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہے کہ صرف وہی چارہ ساز ہے، چنانچہ لوگوں نے اپنے حصے کا کام دلجمعی سے سرانجام دینے کے بجائے دوسرے کے دائرۂ کار میں دخل دینے کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔ پاکستان کی افواج اور عوام نے دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے میں بے مثال قربانیاں دیں اور زبردست کامیابیاں حاصل کی ہیں جن سے عالمی برادری کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں، لیکن ان باتوں کے پہلو بہ پہلو ایسے واقعات اور ایسی درپردہ سازشیں بھی رونما ہو رہی ہیں جن سے آئینی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی بڑھ سکتی ہے۔ ہمارے بدخواہوں کی سب سے بڑی کوشش یہ ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کو عوام کی جو غیر معمولی حمایت حاصل ہے، اس میں کمی آ جائے اور بدگمانیاں پیدا ہوتی رہیں۔ اس حوالے سے عسکری اور سیاسی قیادتوں کو بڑی دانائی، احتیاط اور بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کی ہر سازش کو ناکام کر دینا اور سویلین بالادستی کو یقینی بنانا ہوگا۔
قراردادِ مقاصد جو مارچ 1949ء کو آبائے قوم نے منظور کی تھی، اس میں یہ بنیادی اصول طے پایا تھا کہ اقتدار ایک مقدس امانت ہے جسے استعمال کرنے کے مجاز صرف عوام کے منتخب نمائندے ہیں۔ اس اعلان سے ہر نوع کی آمریت کے دروازے بند ہو گئے تھے اور جمہوریت کی راہ کشادہ ہوئی تھی، مگر 1955ء اور 1958ء میں چیف جسٹس محمد منیر کے فیصلوں نے سول ملٹری بیورو کریسی کو اختیارات کا مالک بنا دیا۔ اس وقت سے جمہوری اور غیر جمہوری طاقتوں کے درمیان گاہے علانیہ گاہے درپردہ کشمکش چلی آ رہی ہے۔ دراصل پاکستان کی سیاسی جماعتیں عوام کا سیاسی شعور بیدار کرنے اور اُن کی اخلاقی اور سیاسی تربیت میں وہ کردار ادا نہیں کر سکیں جو اُنہیں ایک نظریاتی مملکت میں سرانجام دینا چاہیے تھا۔ غالب سبب یہ تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی جڑیں مغربی پاکستان میں بہت کمزور تھیں جبکہ ہندوستان کے ان صوبوں نے جن میں مسلمان اقلیت میں تھے، انہوں نے تحریکِ پاکستان میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا تھا۔ پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان میں جاگیرداروں، وڈیروں، خانوں اور سرداروں کا غلبہ تھا اور پڑھے لکھے خاندان تحریک ِپاکستان میں اس وقت شامل ہوئے جب اس کی کامیابی یقینی نظر آتی تھی۔ بدقسمتی سے یہ خاندان اور گروپس قیامِ پاکستان کے ایک سال ہی میں آپس میں دست و گریباں ہو گئے اور راتوں رات ری پبلکن پارٹی وجود میں آ گئی جس سے سیاسی ڈسپلن اور استقامت پر کاری ضرب لگی۔ اس اکھاڑ پچھاڑ میں صدر اسکندر مرزا نے کلیدی کردار ادا کیا جن کو جنرل ایوب خاں کی اشیرباد حاصل تھی۔ 63سال بعد یہی عمل بلوچستان میں دہرایا جا رہا ہے اور پشت بانوں کے قصے عام ہوتے جا رہے ہیں۔ اس نئی صورتِ حال نے ملک میں سنجیدہ طبقوں کو حیران و پریشان کر دیا ہے جو خطرے کی بُو سونگھ رہے ہیں۔
اس حقیقت میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بیشتر سیاسی جماعتوں نے تنظیم سازی پر کماحقہ توجہ نہیں دی۔ کارکنوں کی ہمت افزائی کی نہ اپنے اندر جمہوریت کی نشوونما کا ذرہ برابر اہتمام کیا۔ سیاسی اخلاق اور عوامی خدمت کے بجائے ’پیسہ‘ فیصلہ کُن حیثیت اختیار کرتا گیا۔ اب اسمبلیوں کے ٹکٹ اُسی کو ملتے ہیں جو کروڑ پتی ہیں اور ارب پتی بننے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی ورکنگ کمیٹیاں نام کی ہیں۔ سارے فیصلے پارٹی کے صدر صادر فرما دیتے ہیں جو بالعموم خوشامدیوں میں گھرے رہتے ہیں۔ مسلم لیگ نون ہو، پیپلز پارٹی یا تحریکِ انصاف جن کی قومی اسمبلی میں قابلِ ذکر نشستیں ہیں، ان سب کا یہی عالم ہے۔ ان کی غیر تسلی بخش کارکردگی کے باعث تہذیب سے عاری اور شدت پسند فرقہ پرست جماعتیں بھی انتخابات میں ایک نیا کلچر متعارف کرا رہی ہیں جبکہ سیاسی قیادتوں کے مابین الفاظ کی جنگ زوروں پر ہے۔ اس ذہنی خلفشار کے باوجود سابق وزیراعظم جناب نوازشریف نے سویلین بالادستی کا جو نعرہ بلند کیا ہے، اسے عوام کے اندر بے پایاں پذیرائی مل رہی ہے۔ عوامی مہم اگر تہذیبی شعور کے ساتھ اور قانونی حدود میں آگے بڑھتی ہے، تو سیاسی استقامت اور گہری وابستگی کے حیران کُن مناظر دیکھنے میں آ سکتے ہیں۔
ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ ہماری مقننہ نے احتسابی عمل کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اس کے برعکس جب فوجی حکومتیں اقتدار میں آئیں، تو انہوں نے سب سے پہلے احتساب آرڈیننس جاری کیے۔ جنرل مشرف نے اکتوبر 1999ء میں حکومت سنبھالی اور اِسی ماہ نیب آرڈیننس نافذ کیا۔ لاہور کے تھنک ٹینک پائنا کے زیرِاہتمام اس موضوع پر سیمینار منعقد ہوا جس میں ماہرینِ قانون، سیاست دانوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے حصہ لیا۔ جناب ایس ایم ظفر نے تبصرہ کرتے ہوئے انتباہ کیا کہ عوام کو یہ احساس نہ ہونے پائے کہ فوجی حکومت کے تحت ایک ادارہ سویلین کو ذلیل و خوار کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ بدقسمتی سے ایسا ہی ہوا۔ اس کے ذریعے مسلم لیگ ق وجود میں آئی اور آج بھی سیاسی شخصیتیں مقدمات کی چکی میں پس رہی ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف احتسابی عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے کہ وہ ایون فیلڈ پراپرٹیز، نیلسن اور نیسکول کے بینی فیشری اونر ہیں۔ ان کی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز لندن میں شدید علیل ہیں اور عدالت نے انہیں وہاں جانے کے لیے استثنیٰ نہیں دیا۔ مقدمے میں جرح کے دوران پانامہ کیس میں جے آئی ٹی کے سربراہ جناب واجد ضیاء نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے پاس ایسی دستاویزات موجود نہیں جو نواز شریف کو ان جائیدادوں کا بینی فیشری اونر ثابت کرتی ہوں۔ اس اعتراف نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ نیب سویلین کے خلاف استعمال ہو رہا ہے اور سیاست دانوں کی شہرت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
سیاست دانوں کو اس جابرانہ عمل کے خلاف پوری قوت سےآواز اُٹھانی چاہیے۔ دریں اثنا جناب محمد شہباز شریف مسلم لیگ نون کے صدر چُن لیے گئے ہیں جو انتخابات کے بعد وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار بھی ہوں گے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ وہ سیاسی جماعت کے صدر کی حیثیت سے اپنا آزادانہ کردار ادا کریں۔ اس کی تنظیم سازی میں گہری دلچسپی لیں اور جماعت کے قائد کی رہنمائی میں جماعت کے داخلی اداروں کو پوری طرف فعال بنائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں ایک آزاد احتساب کمیشن کے قیام کو بھی اولین اہمیت دینا ہو گی۔ ان کے اس نظریے کو عوام کے اندر مقبولیت حاصل ہو رہی ہے کہ آئینی اداروں کے مابین مذاکرات شروع کیے جائیں تاکہ تصادم کے بجائے مفاہمت کو فروغ ملے۔ اسی ضمن میں بعض اقدامات بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ جناب وزیراعظم کی فاضل چیف جسٹس کے ساتھ دو گھنٹے کی ملاقات ایک اہم پیش رفت ہے۔ اسی طرح کی ملاقاتیں آرمی چیف سے بھی ہو سکتی ہیں جو جمہوریت کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ جناب شہباز شریف کی توانا آواز میں امید کی دھنیں نغمہ ریز ہیں۔ انہیں مستقبل کی تعمیر کے لیے عوامی نمائندوں کو بنیادی اہمیت دینا، اپنے آپ کو معروف مسلمہ ضابطوں کا پابند بنانا اور اختیارات کو مقدس امانت کے طور پر استعمال کرنا ہو گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین