• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیوٹن…عصر حاضر کا بڑا سیاسی دماغ

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مرضی سے حاصل کردہ طاقت چھوڑی نہیں جاتی، طاقت مزید طاقت کو جنم دیتی ہے جو مخالفین پر قابو پانے اور اقتدار کو طول دینے کیلئے استعمال ہوتی ہے۔روس کے صدارتی انتخابات میں فتح حاصل کرکے 65سالہ ولادی میر پیوٹن مزید 6سال کیلئے صدر منتخب ہو چکے ہیں ، وہ جوزف سٹالن کے بعد سب سے زیادہ عرصہ صدر رہنے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں ، تاہم آئندہ الیکشن میں پیوٹن صدر کے عہدے کے لیے انتخاب نہیں لڑ سکیں گے۔لیکن 2024ء تک وہ رواں صدی کے ایک چوتھائی عرصہ تک اقتدار میں رہیں گے۔پیوٹن روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے سابق سربراہ رہ چکے ہیں، ان کی شخصیت کا بھی ایک تاثر قائم ہو چکا ہے،صدر پیوٹن نے روس کو دوبارہ کھڑا کرکے ناصرف بین الاقوامی معاملات میں دوبارہ قائدانہ کردار دلایا ہے بلکہ ایک طاقت کے طور پر دوبارہ تسلیم بھی کروایا ہے۔انہیں اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت متعدد عالمی رہنمائوں کے ساتھ کندھا ملا کر چلناہے۔ ان کی انٹیلی جنس صلاحیتیں اندرون و بیرون ملک ان کے مخالفین کے خلاف کام آئیں گی۔ آئندہ دنیا کو یقیناََ متعددنشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ روس کو گرفت میں لانے کے لیے سٹنگ آپریشنز کے ذریعے کتنے وکٹر بوٹس گرفتار ہوں۔لیکن میرے خیال میں عالمی امن کی قیمت پر امریکہ اور روس کے مابین ہتھیاروں کی دوڑ جاری رہے گی،شام، ایران اور افغانستان کے مسائل کو لے کر دونوں فریقوں میں الزامات در الزامات کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ اس خطے نے ابھی تک طالبان اور شمالی اتحاد کو روسی ہتھیاروں کی فراہمی فراموش نہیں کی جو روسی ایجنٹ وکٹر بوٹس نے کی تھی ، بوٹس نےکم از کم بلندی پر جہاز سے ہتھیار پھینکے تھے اور اسے بعد ازاں تھائی لینڈ میں ایک سٹنگ آپریشن کے ذریعے گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کیا گیا جو اب وہاں عمر قید بھگت رہا ہے۔اب ایک بار پھر امریکہ نے روس پر الزام لگایا ہے کہ روس افغان طالبان کو ہتھیار فراہم رہا ہے، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ اور روس کے مابین سرد جنگ ایک بار پھر شروع ہو گئی ہے جو کہ بدقسمتی سے بہت سے بین الاقوامی معاملات پر جاری رہے گی۔روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے 1975ء میں انٹیلی جنس آپریٹر کے طور پر اپنا کیرئیر شروع کیا اور لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچے۔ انہوں نے زیادہ تر جاسوسی سرگرمیاں مشرقی جرمنی میں سرانجام دیں اور 1990ء تک 17سال اس عہدے پر کام کیا، اس کے بعد وہ سینٹ پیٹرز برگ واپس آئے اور 1994ء میں اپنے استاد اناطولی سوپچوک کے ڈپٹی میئر بنے جو کہ اس وقت سینٹ پیٹرز برگ کے میئر تھے۔1996ء میں میئرشپ کھونے کے بعد وہ ماسکو چلے گئے جہاں انہیں سکیورٹی سربراہ مقرر کیا گیا۔ انہوں نے کے جی بی سمیت تین سکیورٹی ایجنسیوں کو کمانڈ کیا۔ 2000ء میں حالات کی تبدیلی کی وجہ سے اس وقت کے روسی صدر بورس یلتسن نے پیوٹن کو نگران صدر بنا دیا۔اپنی جلاوطنی کے دنوں میں ایک کاروباری دوست کی دعوت پر میں نے سینٹ پیٹرز برگ کا دورہ کیا تھا، میرا دوست ایک اچھا کاروباری شخص ہے ،اس نے میرے کہنے پر پیوٹن کی کہانی سنائی ،میں پیوٹن کے عروج کی کہانی سن کر بہت متاثر ہوا۔ شہر میں متعدد لوگوں نے بھی پیوٹن کی تعریف کی۔ میں نے اپنے 2روزہ دورے کے دوران یہ اخذ کیا کہ پیوٹن میں لوگوں کے دلوں کو چھونے کی صلاحیت موجود تھی۔میں جنگ عظیم دوئم کے دورکے آدھے ڈوبے ہوئے اس بحری جہاز پر بھی گیا جہاں سے غروب آفتاب کا نظارہ بہت دلفریب ہوتا ہے، وہاں سورج آگ کے گولے کی طرح سمندر میں ڈوبتادکھائی دیتا ہے۔روسیوں کی تاریخ حیران کن ہے۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم میں بہت نقصان اٹھایا اور بعد میں صدر گوربا چوف کے دور میںسوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کی صورت میں مزید نقصان اٹھانا پڑا، بنیادی طور پر افغان جنگ کی وجہ سے معیشت کی بدحالی سوویت یونین کے خاتمہ کی وجہ بنی ، جس کی وجہ سے وسط ایشیائی ریاستوں کو بھی آزادی حاصل کرنے کا موقع ملا۔صدر پیوٹن نے سینٹ پیٹرز برگ میں رہ کر بہت کچھ سیکھا۔ اسی شہر نے دراصل ان کے سیاسی کیریئر میں لانچنگ پیڈ کا کردار ادا کیا۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ اگر وہ اس شہر کے ڈپٹی میئر نہ بنتے تو کبھی بھی روس کے صدر نہ بن پاتے۔پیوٹن نے روس میں استحکام پیدا کیا۔ روس اب نہ صرف سوویت یونین ٹوٹنے کے غم سے باہر نکل چکا ہے بلکہ اس نے امریکا کیساتھ عراق اور شام میں حساب بے باک کردیا ہے۔پیوٹن عصر حاضر کے ایک سیاسی مدبر بن چکے ہیں ، وہ مخالفین کے ساتھ ڈیل کرنے کی آرٹ سے بخوبی واقف ہیں،بطور وزیر داخلہ پاکستان ایک عالمی کانفرنس کے دوران مجھے ان سے ملنے کا اتفاق ہوا،دوران ملاقات میں نے صدر پیوٹن کا گہری نظرمشاہدہ کیا اور انہیں ایک گہرا اور پراسرار شخص پایا۔ وہ بش سینئر کی طرح اپنی انٹیلی جنس صلاحیتوں سے کام لیتے رہتے ہیں۔تجزیوں کے مطابق اپنے اقتدار کی شروعات میں صدر پیوٹن نے مختلف مافیاز کو اس وقت تک مرضی سے کام کرنے دیاجب تک کہ ان پر مکمل قابو نہ پا لیا گیا، پھر انہوں نے ان مافیاز کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا اور اسی طرح تمام ادارے بالواسطہ اپنے دائرہ اختیار میں لے لئے۔دنیا پیوٹن کو آمر قرار دے رہی ہے اور بعض تو یہ الزام بھی دھرتے ہیں کہ انہوں نے الیکشن بھی دھاندلی کے ذریعے جیتا۔ حقیقت کیا ہے وہ ایک دن عیاں ہو ہی جائے گی ، تاہم میرا خیال ہے کہ پیوٹن موجود دور کے ایک بڑے سیاسی دماغ ہیں ، وہ اپنے عوام کو بہتر طور پر جانتے ہیں۔ انہوں نے اپنی قابلیت سے لوگوں کا اعتماد جیتا ہے جو کہ گزرتے وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ امریکا اور روس کے درمیان ریاستی اور عوامی سطح پر کھینچا تانی سفارتی و عوامی رابطوں کی قیمت پر جاری رہے گی۔آیئے ہم پاکستان اور روس کے مابین حالیہ اور آئندہ دور میں تعلقات کا جائزہ لیں۔خطے میں امریکی بالادستی کی خواہش، افغانستان میں موجودگی اور جنگ کا طول، ٹرمپ کا پاکستان کی طرف جارحانہ رویہ سب عوامل ہیں جن کی وجہ سے سے روس اور پاکستان میں قربت بڑھی ہے۔ پیوٹن سمجھتے ہیں کہ افغانستان اور خطے میں استحکام کے لئے پاکستان بہت اہم ہے۔ روس درست پر یقین رکھتا ہے کہ افغان مسئلے کو پاکستان اور ایران کی شمولیت کے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا۔روس اور پاکستان توانائی کے شعبے میں بھی تعاون کر رہے ہیں۔ 16اکتوبر 2015ء کو دونوں ممالک 2ارب ڈالر کی ایک گیس پائپ لائن تعمیر کرنے کا معاہدہ کر چکے ہیں۔ نارتھ سائوتھ گیس پائپ لائن کی سالانہ کپیسٹی 12.4بلین کیوبک میٹر ہے اور یہ کراچی سے لاہور ایل این جی ٹرمینل کو ملائے گی، معاہدہ روس کے انرجی سنٹر کے دورۂ پاکستان کے موقع پر طے پایا تھا اور دونوں ممالک کے درمیان کاروباری تعلقات کی شروعات کی بنیاد بنا۔ یہ پائپ لائن 1100کلومیٹر طویل اور 2018ء میں مکمل ہو گی۔اس کے ساتھ اسلام آباد اور ماسکو کے مابین فوجی تعلقات میں اضافہ ہوا ہے، دونوں ممالک کی افواج کے درمیان پہلی جنگی مشقیں ’’درزبا‘‘ (روسی زبان کا لفظ جس کے معانی دوستی کے ہیں) ستمبر 2016ء میں ہوئیں۔ روس نے فروری 2017ء میں پاک بحریہ کی میزبانی میں ہونے والی بین الاقوامی امن17نامی بحری مشقوں میں بھی شرکت کی ،اس کے علاوہ 3جولائی 2017ء کو روسی کمپنی گاز پروم انٹرنیشنل اور پاکستانی کمپنی او جی ڈی سی ایل کے مابین ماسکو میں باہمی تعاون، ترقی ، مشترکہ منصوبوں کی تکمیل ، تیل کی تلاش کے لئے سٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی کے استعمال سے متعلق ایک ایم او یو پر دستخط ہوئے۔روسی پالیسی میں یہ مثبت تبدیلی صدر پیوٹن کے دور میں ہوئی ، میں محسوس کرتا ہوں کہ مستقبل میں روس پاکستان کے ساتھ مزید تعلقات بڑھائے گا۔ اگر امریکا کی جارحانہ اور پاکستان مخالف پالیسیاں جاری رہیں تو میں پیش گوئی کر رہا ہوں کہ مستقبل میں روس چین اور پاکستان پر مشتمل ایک نیا ایٹمی بلاک تشکیل پائے گا۔پاکستان کو روس کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے مواقع ضائع نہیں کرنے چاہئیے۔ میرے خیال سے صدر پیوٹن بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ آخر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صدر پیوٹن کر گزرنے والی شخصیت ہیں، وہ ناصرف سروائیو کریں گے بلکہ مغرب کے لئے ایک چیلنج بنے رہیں گے اور دیگر عالمی طاقتوں کو پنجوں کے بل رکھیں گے۔

تازہ ترین