• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نظریاتی آدمی

جب نواز شریف تازہ تازہ نااہلیت کے اعزازِ عدالتی سے سرفراز ہوئے تھے تو انہوں نے یہ یادگار الفاظ پاکستانی تاریخ کے سپرد کئے تھے ’’میں20 سال پہلے نظریاتی نہیں تھالیکن اب میں نظریاتی آدمی بن چکا ہوں‘‘ گزشتہ روزپھر بڑی تمکنت سےفرمایا:’’شاید پہلے میں نظریاتی نہ ہوا ہوں مگر اب میں سو فیصد نظریاتی ہوں ۔اب عوام کو بھی نظریاتی بننا پڑیگا‘‘۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کےکئی ایک لیڈروںنے کہا:’’نوازشریف نہ کل نظریاتی تھے اورنہ آج ہیں‘‘ حیرت ہے پیپلز پارٹی والوں کو آصف علی زرداری کی موجودگی میں بھی نظریات یاد ہیں ۔یہ بات بھی یاد رکھی جانیوالی ہے کہ پی پی پی کے منشور اور نون لیگ کے منشور میں بھی بس انیس بیس کا فرق ہے۔ جماعت اسلامی کے ایک رکن نے بھی نواز شریف کے نظریاتی ہوجانے پر بالکل یہی تبصرہ کیا۔ جماعت اسلامی والوں کو زیب تو نہیں دیتا تھا مگر وہ بھی کیا کریں آخر وہ نظریاتی کارکن ہیں۔ اِس بات سے تو انکار ممکن نہیں۔ میرے خیال میں تو نواز شریف کو وضاحت کرنی چاہئے کہ انہوں نے کس نظریے کو اپنایا ہے۔ وہ پرویز رشید کے جدلیاتی نظریات کے اسیر ہوئے ہیں یا احسن اقبال کے نظریات اپنا کر نظریاتی ہوئے ہیں۔ ماضی قریب انہی دو نظریات کا بہت چرچا رہا ہے۔ اسلامی جماعت سے تعلق رکھنے والے اور امریکہ کی سپورٹ کرنیوالے نظریاتی دائیں بازو کے لوگ کہلاتے تھے جنرل ضیاء کے دور میں انہوں نے واشنگٹن کیساتھ مل کر افغانستان میں سوویت یونین کے ملحدوں کے خلاف جہاد کیا تھا۔ مذہب سے برگشتہ اور روس کی سپورٹ کرنیوالے بائیں بازو کے نظریاتی لوگ سمجھے جاتے تھے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد زیادہ تر بائیں بازو کے نظریاتی لوگوں کی سرپرستی بھی امریکہ بہادرنے شروع کردی تھی جو ابھی تک جاری ہے اور نائن الیون کے بعد واشنگٹن نے بھی اپنا عقیدہ بدل لیا اورمذہبی انتہاپسندوں کو دہشت گرد قرار دے کر گوانتانا موبے میں قید کر دیا۔
یہ بات بھی نواز شریف نے عجیب کہی ہے کہ ’’وہ پہلے نظریاتی آدمی نہیں تھے‘‘ یعنی ان کا کوئی نظریہ تھا ہی نہیں۔ کوئی سیاست دان بغیر نظریے کے کیسے سیاست دان ہو سکتا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہا انہوں نے سچ ہے۔ سونے کا چمچہ لے کرپیدا ہونیوالے بچے کو کیا علم کہ نظریہ کیا ہوتا ہے۔ عظیم الشان فونڈری چلانے والوں کو کیا پتہ کہ نظریات کا گورکھ دھندا کیا ہے۔ معاملہ صرف یہیں ختم نہیں ہورہا یہ بھی دیکھئے کہ نواز شریف کے سیاست میں پہلے استاد جنرل جیلانی تھے۔ انہیں بھی نظریات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ انکے دوسرے استاد جنرل ضیاءالحق تھے جن کی شاید نظریات سے ذاتی دشمنی تھی اور اتنی سخت دشمنی تھی کہ انہوں نے تو ایک بار آئین پاکستان کے متعلق یہ کہہ دیاتھا ’’آئین کیا ہے۔ چند ورقے؟ اگر میں اسے پھاڑ کرردی کی ٹوکری میں ڈال دوں اور نیا نظام نافذکردوں تو سب کو وُہ ماننا پڑے گا‘‘۔ ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والوں کو یقیناً نظریات سے بے بہرہ ہونا ہی تھا۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں نواز شریف ایک ایسے نظریاتی آدمی ہیں جنکا تعلق دائیں بازو سے بھی ہے اور بائیں بازو سے بھی۔ انہوں نے ایک جگہ فرمایا تھا کہ ’’محمود خان اچکزئی سے نظریاتی وابستگی اور تعلق ہے‘‘۔ چونکہ اچکزئی کا تعلق بائیں بازو سے ہے اسلئے اس سے یہ ثابت ہوا کہ وہ بائیں بازو کے نظریاتی آدمی بن چکے ہیں۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق بھی انکے ساتھ ہیں اور وہ بھی۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ نواز شریف کا تعلق دائیں بازو سے بھی ہے۔
شہباز شریف تو پرانے نظریاتی انقلابی ہیں میں نے ایک بارلکھا تھا ’’شہباز شریف تقریر کر رہے تھے الحمرا ہال میں کسی نظریاتی موضوع پر کسی غیر سیاسی جماعت کا سیاسی جلسہ جاری تھا۔ میں مال روڈ سے فاطمہ جناح روڈ مڑ گیا مگر گنگا رام اسپتال کے پاس پھر ٹریفک بلاک تھا۔ کچھ انتظار کیا اور صفوں والے چوک کی طرف گاڑیاں جاتے ہوئے دیکھ کر کار ادھر موڑ لی کچھ آگے جا کر معلوم ہوا کہ یہاں بھی ٹریفک پھنس چکا ہے۔ کچھ لوگ اپنی گاڑیاں موڑ رہے تھے میں بھی انکی کاروں کے ٹائروں کے نقوش پرچل پڑا۔ گاڑیاں واپس مال روڈ پار کرتی ہوئی کوپر روڈ پر پہنچ گئیں۔ یہاں حدِ رفتار چونٹیوں کے لشکر سے زیادہ نہیں تھی۔ رائل پارک تک پہنچتے پہنچتے ٹریفک پتھرا گیا۔ مجھے یاد آیا کہ کسی زمانے میں یہاں فلمیں بنانے والوں کے دفاتر ہوا کرتے تھے کبھی کبھی کوئی ایسا چہرہ بھی نظر آجاتا تھا جس کے سبب چلتی ہوئی گاڑیاں رک جاتی تھیں اقبال ساجد نے کہا تھا؎
لباس اس کے بدن پر مہین ایسا تھا
رکی ہوئی تھی ٹریفک، حسین ایسا تھا
آج کل ٹریفک صرف نظریاتی لوگوں کو دیکھ کر رکتا ہے کیونکہ وہ بھی اب خال خال دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے بڑے عرصے کے بعد ایک نظریاتی آدمی دیکھا ہے یعنی نواز شریف۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین