• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب سے عدالت عالیہ نے ایک منتخب وزیراعظم کو کرپشن کے الزامات میں نااہل قرار دے کر منصب سے ہٹا دیا اور اسکے بعد انکے پارٹی کا سربراہ بننے پر بھی قدغن لگادی تب سے پوری عدلیہ کو تواتر کے ساتھ تضحیک و تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ نہ صرف یہ کہ عدالتوں سے من پسند فیصلے کروائیں جاسکیں بلکہ ججوں کو مسلسل ہراساں کرکے انہیں نفسیاتی دباؤ میں بھی رکھا جاسکے، شاید یہ اسی مسلسل دباؤ کا شاخسانہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے کئی بار جج صاحبان وضاحتیں پیش کرچکے۔ پاکستان میں جنرل پرویز مشرّف کے ہاتھوں عدلیہ کی پامالی کے بعد آج پھر نظام انصاف اور اس سے وابستہ ادارے غیر معمولی حالات سے دوچار ہیں۔ ملک کے ایک سابق وزیراعظم، ان کی پوری سیاسی پارٹی اور اسی پارٹی کی موجودہ حکومت اور اس کی پوری مشینری جج صاحبان اور سپریم کورٹ پر بار بار رکیک حملے کر کے اس ادارے کی عزت اور ساکھ کو پامال کر رہے ہیں، ان حالات و واقعات کے تناظر میں چیف جسٹس کا انٹرویو ایک غیر معمولی اقدام ہے جو اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ذریعے جہاں ایک طرف وہ یہ دو ٹوک پیغام دیتے نظر آرہے ہیں کہ ان کی ذات یا عدلیہ کے خلاف ریشہ دوانیوں سے قطع نظر وہ دباؤ میں آئے بغیر بلا تخصیص احتساب کا عمل جاری رکھیں گے وہیں انہوں نے عدلیہ اور اس سے وابستہ جج صاحبان اور دیگر اہلکاروں کے مورال کو بھی سنبھالا دیا ہے جنہیں مسلسل طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جارہا ہے، پاکستان کے وہ حلقے جو بھارتی جمہوریت کی قسمیں کھا کر اسے اپنے ایمان کا جزو لاینفک بنا چکے ہیں ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ کچھ ہفتوں قبل بھارت کی عدالت عالیہ کے چار سینئر ترین ججوں نے چیف جسٹس کیخلاف ایک پریس کانفرنس کے ذریعے عوام کو خبردار کیا کہ ملک کا آئین اور اس کا طریقہ کار سخت خطرے میں ہیں، بھارت کی عدالتی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ جج صاحبان اور وہ بھی سپریم کورٹ کے، نے ایک کھلی پریس کانفرنس کے ذریعے اخبار نویسوں سے بات چیت کی ہو، مگر چونکہ ملک میں حالات نہایت ہی گمبھیر ہوگئے تھے اسلئے انہیں یہ انتہائی قدم اٹھانا پڑا۔
عزت مآب جسٹس ثاقب نثار کا ایک صحافی سے گفتگو کے دوران عوام اور ملک کو درپیش انتہائی نوعیت کے مسائل پر رائے زنی کرنا برمحل ہے، پاکستان کے اندرونی حالات اور علاقائی اور بین الاقوامی سطح کے درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بے پناہ کرپشن ہے جس پر قابو پائے بغیر کوئی چارا نہیں، مگر ان معاملات سے نمٹنے کیلئے فوجی مداخلت کو اکسیر سمجھنے والے دانشوروں یا ایسی سوچ کو پروان چڑھنے سے روکنے کیلئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ عدلیہ نہ صرف ایک فعال کردار ادا کرے تاکہ جمہوریت اور اس سے وابستہ بیوروکریسی کو جبراً مگر قانون کے مطابق اور قانونی حدود میں رہ کر درست کیا جاسکے، بصورت دیگر فوجی مداخلت کا راگ الاپنے والوں کی آوازیں بڑھتی ہی جائیں گی جو کسی صورت بھی فائدہ مند نہیں ہوسکتیں۔
موجودہ احتساب پر تنقید اور اسکی کوتاہیوں کو اجاگر کرنے والے یہ بھول رہے ہیں کہ ان اداروں کو جان بوجھ کر کمزور کرنے کا عمل پرانے زمانے کے بادشاہوں کی طرح ہر قسم کے اختیارات کو اپنی ذات میں مرکوز اور محدود رکھنے والے سیاستدانوں کی وجہ سے ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ لگ بھگ ہر ادارے کی کارکردگی نہ صرف غیر تسلی بخش ہے بلکہ سفارشی بھرتیوں کی بھر مار نے ان اداروں کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے، سیاسی مداخلت سے ریاستی ادارے، سیاسی پارٹیوں کے دفاتر میں تبدیل ہوجاتے ہیں، ایسے حالات میں اگر عدلیہ اپنی نگرانی میں احتساب کے عمل کو تندہی سے منطقی انجام تک پہنچانا چاہتی ہے تو یہ ایک خوش آئند عمل ہے،چونکہ کرپشن اور اقربا پروری تمام شعبہ ہائے زندگی میں سرایت کرچکے ہیں اس لئے اسکو نکال پھینکنے کے عمل میں کسی مصالحت سے کام نہیں لیا جاسکتا، یہی وجہ ہے کہ عدالت عالیہ کے ان اقدامات کے ردعمل میں مراعات یافتہ طبقے نہ صرف دھمکیاں دے رہے ہیں بلکہ انتہائی ناشائستہ زبان کا استعمال بھی کر رہے ہیں، اس کے علاوہ جلسے کرکے عدالتی فیصلوں کی نفی کا جواز بنانے کیلئے ایک نیا بیانیہ تراشا جا رہا ہے جس سے کسی بھی صورت خیر کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا، بلکہ اس طرح کا بیانیہ ہے جو ماضی قریب میں دھرنوں کے ذریعے افراتفری پھیلانے والوں نے پیش کیا تھا۔
چیف جسٹس صاحب کو اس حوالے سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ وہ اچانک اسپتالوں کے دورے کرتے ہیں، عام لوگوں کیلئے صاف پانی کی فراہمی کیلئے حکومتی انتظامیہ کو طلب کرتے ہیں یا پنجاب میں بے پناہ جرائم خاص کر چھوٹی بچیوں کے ساتھ جسمانی زیادتی کے جرم میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے حکومت وقت سے سوالات کرتے نظر آرہے ہیں، اس لئے وہ عدالت عالیہ کے کردار پر غیر ضروری سوالات اٹھا رہے ہیں، حالانکہ اس قسم کے سوالات کرنے والے کو شرم کرنا چاہئے کہ ہر قسم کے اشتہار پر اپنی تصویریں چھپوانے کے شوق میں وہ عوام الناس کی بنیادی ضرورتوں سے نہ صرف بے خبر ہیں بلکہ انہیں اس بارے میں سوچنا بھی گوارہ نہیں، ایسے میں اگر کوئی شخص یا ادارہ انہیں اپنے فرائض منصبی کی یاد دہانی بھی کرائے تو انہیں یہ اپنی توہین محسوس ہوتی ہے۔
پاکستان کی سیاست۔ کرپشن، اقربا پروری، چوری اور سینہ زوری پر مبنی ہے، اس کو ٹھیک کرنے کیلئے عدلیہ کا پر اثر اور آہنی کردار وقت کی اہم ضرورت ہے. چیف جسٹس عزت مآب جناب ثاقب نثار کی کاوشوں سے حالات کی بہتری کے بارے میں کچھ امید سی بندھ گئی ہے، ان کے فعال رول کی وجہ سے ان عناصر کی بھی حوصلہ شکنی ہوئی ہے جو پاکستان سے جڑے ہر مسئلے کا حل غیر جمہوری طریقے یا امپائر کی انگلی کو سمجھتے ہیں، پاکستان کی بہتری جمہوری اداروں کے تسلسل میں مضمر ہے مگر اس کیلئے قانون اور آئین کی عملداری اور پاسداری شرط اول ہے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین