• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میمو گیٹ اسکینڈل میں ایک اہم پیش رفت اب یہ سامنے آئی ہے کہ سپریم کورٹ نے حکومت کو امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کو ایک ماہ میں پاکستان واپس لانے کی ڈیڈ لائن دے دی ہے۔ حسین حقانی نے امریکہ میں پاکستانی سفیر کی حیثیت سے 2008سے 2011تک قومی خزانے کو20لاکھ ڈالر سالانہ کا نقصان پہنچایا ہے۔ ان کا امریکہ میں پاکستان کے حوالے سے کردار مشکوک رہاہے۔ میموکیس میں بھی انہوں نے گھنائونا کردار ادا کیا۔ قومی سلامتی کے متعلق اہم امور کا انہوں نے راز فاش کیا۔ وہ اکثر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں۔ امریکہ میں موجود پاکستان مخالف لابی جب چاہے اُنہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرلیتی ہے۔ سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی طرح وہ قومی مجرم ہیں، پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ امریکہ میں ہونے والے ظلم میں بھی وہ برابر کے شریک ہیں۔ انہوں نے امریکہ میں اپنے دور سفارت کے دوران کئی مرتبہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اہل خانہ کو یقین دلایا تھا کہ عافیہ کو سزا نہیں ہوگی اور جلد انہیں پاکستان واپس بھیج دیا جائے گا مگر پھر انہوں نے امریکی حکومت کے ساتھ سازباز کرکے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو86سال کی ظالمانہ سزا دلوانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ عافیہ صدیقی کے کراچی میں موجود اہلخانہ آج بھی سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف اور حسین حقانی کو بددعائیں دیتے ہیں کہ جنہوں نے ڈالروں کے عوض معصوم اور بیگناہ پاکستانیوں کو امریکہ کے ہاتھوں بیچا۔ عافیہ کی رہائی کا پہلا موقع جو میسر آیا تھا جب پانچ سال لاپتہ رہنے کے بعد بگرام، افغانستان میں اس کی موجودگی ظاہر ہوئی تھی جو پیپلزپارٹی کے اس وقت کے حکمرانوں نے گنوایا دیا کیونکہ عافیہ پاکستانی شہری تھی۔ 2010 میں ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے عوض عافیہ کو واپس لانے کا موقع گنوانے پر ایک عام پاکستانی آج بھی افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو عزت سے زیادہ پیسہ عزیز ہے اور شرم کی بات یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس نے The Contractor نامی کتاب لکھ کر پاکستانی قوم کی توہین بھی کی مگر اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اس طرح اس وقت کی قومی قیادت کے کرتوت قوم کے سامنے آگئے۔ جب سلالہ سانحہ کے بعد نیٹو کی سپلائی بند کی گئی تھی، عافیہ کی رہائی کا یہ بھی ایک سنہری موقع تھا جو اس وقت کی قومی قیادت نے ضائع کیا تھا۔ 20جنوری، 2017 کا دن عافیہ کی رہائی کیلئے انتہائی اہم تھا۔ جب عافیہ کے امریکی وکلاء پاکستانی حکمرانوں کے ایک خط کے عوض عافیہ کی رہائی کیلئے مکمل طور پر پرامید تھے لیکن باراک اوباما کی صدارت کا آخری دن ہی نہیں گزر گیا، 2017 کا سال بھی گزر گیا۔ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کا ایک خط عافیہ کی رہائی کا سبب بن سکتا تھا۔2013میں وزیراعظم نوازشریف نے برسراقتدار آنے کے فوراََ بعد عافیہ کی والدہ عصمت صدیقی اور بیٹی مریم سے ملاقات میں عافیہ کو100 دن میں واپس لانے کا وعدہ کیا تھا۔ میاں محمد نواز شریف تو اقتدار میں نہیں رہے لیکن ان کی جماعت مسلم لیگ ن اب بھی برسراقتدار ہے مگریہ قومی معاملہ ابھی تک حل نہیں ہوسکا۔ حکمرانوں کو ان کے وعدے اور آئینی فریضہ یاد دلانے کیلئے عافیہ موومنٹ نے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹا یا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ، لاہور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر ہیں لیکن حکمرانوں اور ریاستی حکام نے عدالتوں کے احکامات پر بھی عمل نہیں کیا۔
وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔30مارچ کو عافیہ کے اغوا کے 15سال مکمل ہوجائیں گے۔ الحمدللہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کیلئے سیاسی، دینی، سماجی رہنمائوں، اساتذہ، وکلاء اور میڈیا سمیت تمام طبقات اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں اگر کہیں کمی نظر آئی ہے تو وہ ہمارے حکمرانوں، پارلیمنٹ اور اقتدار کے ایوانوں کے کردار میں نظر آئی ہے۔ اسی تناظر میں عافیہ موومنٹ کی سربراہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے قوم کی بیٹی کی رہائی کے لئے اپنا خط بھجوایا ہے جو کہ نذر قارئین ہے!
محترم محمد فاروق چوہان صاحب!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
امید ہے مزاج گرامی بخیرہوں گے!
میں آپ کی بے حد مشکور ہوں کہ میری بہن اور قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی امریکی حراست سے رہائی اور وطن واپسی کی جدوجہد کے سلسلے میں ہر مرحلہ پر میرا بھرپور ساتھ دیا ہے جو کہ ہم تمام اہلخانہ کیلئے عافیہ کی رہائی کی کاوشوں کی کامیابی کیلئے حوصلہ، امید اور یقین کا باعث بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کوعافیہ جیسے مظلوموں کا مددگار بننے پر اپنی ان بے پناہ رحمتوں اور برکتوں سے نوازے جنکے آپ پر نزول کی میں دعا گو رہتی ہوں۔ میں آپ سے ایک مرتبہ پھر اس لئے رابطہ کررہی ہوں کہ جرم بے گناہی کی پاداش میں عافیہ کے قید تنہائی میں15سال مکمل ہونے والے ہیں اب تو ہم سے ہر ایک کو شرم آنی چاہئے۔ 30مارچ، 2003ء پاکستان کا ہی نہیں بلکہ اسلامی تاریخ کا وہ افسوسناک دن ہے جب عافیہ کو اس کے تین کمسن بچوں سمیت کراچی سے اٹھا کر امریکیوں کے حوالے کیا گیا تھا۔ ان 15سالوں میں یہ تیسری اسمبلی ہے جو کہ اپنی مدت مکمل کرنے جارہی ہے اس کا مطلب ہوا کہ تین حکومتوں نے ایک بے گناہ پاکستانی خاتون شہری کی رہائی اور اسے وطن واپس لانے کیلئے کچھ نہیں کیا۔ عافیہ کے اغوا سے پہلے جو حالات تھے آج اگر تجزیہ کریں تو ملک اس سے بھی بدترین حالات سے گزر رہا ہے۔ ہمیں مل کر پیارے پاکستان کو ان مشکل حالات سے نکالنا ہے۔ عوام کی جان، مال، عزت و آبرو کے تحفظ کا فریضہ حکومت، پارلیمنٹ اور سرکاری حکام ادا نہیں کریں گے تو پھر یہ فریضہ آخر کون ادا کرے گا؟ اور اس کیلئے ہم سب کو مل کر کوششیں کرنا ہیں۔ مہذب معاشروں میں خواتین کا احترام کیا جاتا ہے، انہیں بیچا نہیں جاتا ہے۔ کسی بھی قوم کی غیرت اور حمیت کی پہچان انکے معاشرے میں ماں، بہن اور بیٹی کے مقام سے ہوتی ہے مگر افسوس ہم 21 ویں صدی کے ترقی یافتہ دور میں پستی کی سمت میں سفر کررہے ہیں۔ عافیہ کی واپسی کچھ بھی مشکل نہیں ہے بس اس کیلئے غیرتمند قومی قیادت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امریکی فوجیوں کی گولیوں سے چھلنی اور بدترین انسانیت سوز تشدد کے بعد بھی عافیہ کو زندگی دی، میرا ایمان ہے وہی اللہ عافیہ کو مکمل عافیت کے ساتھ بہت جلد اپنے گھر واپس لائے گا۔ ان شاء اللہ۔ میری گزارش ہے کہ 30 مارچ کے حوالے سے اپنے قلم کے توسط سے حکمرانوں، ارکان پارلیمنٹ اور سرکاری حکام کو ان کا دینی، قومی اور آئینہ فریضہ ایک مرتبہ پھر یاد دلائیں اور عوام کی مسلسل رہنمائی فرماتے رہیں تاکہ آئندہ ایسی پارلیمنٹ معرض وجود میں نہ آئے جسے عوام کے مسائل یہاں تک ان کی عزت و آبرو کی حفاظت کی بھی کوئی پروا نہ ہو۔ مجھے امید ہے کہ آپ حسب سابق میڈیا میں اس قومی نوعیت کے اہم معاملے کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
والسلام......ڈاکٹر فوزیہ صدیقی
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین