• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی ابھرتی تعمیراتی صنعت

اس سے پہلے کہ ہم پاکستان کی ابھرتی تعمیراتی صنعت پر اپنی گفتگو کو آگے بڑھائیں سب سے بڑی خوش خبری چین کی طرف سے آئی ہے کہ ون بیلٹ روڈمنصوبے کی تکمیل سے نہ صرف امیر غریب کا فرق مٹ جائے گا بلکہ اس کے دیرپا اثرات پاکستان کی معیشت پر بھی پڑیں گے۔

اسی تناظر میںایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) نے ایک کرورڑ 20 لاکھ گھروں کی قلت کے تناظر میں چینی کمپنیوں کو پاکستان میں مشترکہ سرمایہ کاری کی دعوت دے دی ہے۔یہ دعوت ایسو سی ایشن آف بلڈرز اور ڈیولپرز کے تحت منعقدہ پاک چائنا تعمیراتی کانفرنس سے خطاب کے دوران چیئرمین عارف یوسف جیوا نے خطاب کے دوران دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 12 ملین رہائشی یونٹس کی کمی ہے ،اس کمی کو پورا کرنے کے لیے 180 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ 

چائنیز کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان کے تعمیراتی شعبے میں وسیع مواقع ہیں۔ چین کی تعمیراتی کمپنیاں سی پیک منصوبے میں بڑی سرمایہ کاری کررہی ہیں،جدید تعمیراتی مشینریز کی درآمدات سے پاکستان کی تعمیراتی شعبے میں جدت آئے گی۔ 

چین کے کمرشل قونصلر گاؤ چن شائی نے کہا کہ چین اور پاکستان کی دوستی بہت گہری ہے،چین 50 برسوں سے پاکستان میں سرمایہ کاری کررہا ہے ،قراقرم ہائی وے اور دیگر درجنوں منصوبے اس کی عکاسی کرتے ہیں۔ چینی کمپنیاں پاکستان کے تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں۔آباد کے ممبران اور چینی کمپنیوں کے درمیان رو ابط بڑھانے کے لیے کردار ادا کروں گا۔ سی پیک منصوبہ دونوں ممالک کے لیے ایک تجارتی پل ہے،جو پاک ،چین دوستی کو مزید مضبوط کرے گا۔ 

 ایسوسی ایشن آف چائنیز انٹر پرائزز کے چیئرمین لی ڑیااوشن نے کہا کہ چینی کمپنیوں نے 2018 میں پاکستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے 41 معاہدے کیے ہیں۔سی پیک منصوبوں میں توانائی، گوادر پورٹ،سڑکوں کی تعمیر اور انڈسٹریز میں سرمایہ کاری شامل ہے۔

مضافات میں بڑھتے شہر

تعمیرات کا شعبہ شہروں کے مضافات میں اس طرح ڈھل رہا ہے کہ تمام سہولتیں ون ونڈو آپریشن پر مبنی ہوں اور گھر ہی کے ساتھ روزگار، علاج معالجے،تعلیم و تفریح کی سہولتیں مہیا ہوں۔پاکستان بھر میں ایسےاپارٹمنٹس مقبولیت پارہے ہیں جہاں ایک ہی چھت تلے تمام سہولتیں مہیا کی جا رہی ہوں۔

پہلے کراچی فلیٹس،اپارٹمنٹس کے حوالے سے مشہور تھا لیکن ایسے شاندار پروجیکٹس کے آنے سے اب لاہوری ،ملتانی، فیصل آبادی، پشاوری اور کوئٹہ والے بھی اس رنگ میں رنگ رہے ہیں۔

اعلیٰ ماہرینِ تعمیرات اور بلڈرز

تعمیرات کی ابھرتی اور روزافزوں ترقی کرتی صنعت کے فن اور ہنر کی بات کی جائے تو یونیورسٹی کی سطح پرتعلیم سے ہمارے ہاںاعلیٰ پائے کے ماہرین تعمیرات نکل رہیےہیں جن کے فن کی قدر و قیمت کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ اس وقت مشرقِ وسطیٰ ،یورپ اور امریکا میں کئی بلڈرز اہم ترین عمارات منفرد ڈیزائن کے ساتھ قائم کر رہے ہیں۔دبئی کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ میں پاکستانی بلڈرز کی خدمات اب پوشیدہ نہیں رہیں۔ اسی طرح مشرقِ وسطیٰ، یورپ اور امریکا میں بھی پاکستانی آرکیٹیکٹس اور بلڈرز کا شہرہ ہے۔

گوادر تعمیرات کا مستقبل

پاکستان دنیا کے ان خوش نصیب ممالک میں سے ایک ہے جس کے پاس دو بڑی اور گہرے سمندر کی بندر گاہیں کراچی اور گوادر کی صورت میں موجود ہیں۔کراچی بندرگاہ کو جہاں جدید آلات اور جیٹیوں کی تعمیر سے آراستہ کیا گیا ہے وہاں گوادر پورٹ کو جدید خطوط پر ڈالنے کی پاک چین سعی آنے والے دس برس میں گوادر کو پاکستان کا ہانگ کانگ بنا دے گی ۔ 

یہاں پر تعمیراتی کاموں کا جائزہ لیا جائے تو اس صنعت کی بڑھوتری کے لامحدود امکانات دکھائی دیں گے۔گوادر پورٹ مستقبل میں پاکستان کو ہر لحاظ سے خودکفیل کرے گا۔ ایسے میں بلوچستان کی وسیع خالی اراضی،جو معدنیات سے مالامال ہے ،آنے والے دنوں میں تعمیراتی صنعت کے لیے فخر و انسباط کا موجب ہوگی ۔تب ایک ہی نعرہ ہوگا چلو چلو گوادر چلو۔

کاروبار ہے منافع بخش

ہر گزرتے دن کے ساتھ املاک اور پلاٹس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور یہ کاروبار اتنا منافع بخش ہے کہ ایک پلاٹ کی قیمت پانچ برسوں میں پانچ گنا بڑھ جاتی ہے۔ جو لوگ اس شعبے سے وابستہ ہیں ان کا ماننا ہے کہ سونے کی قیمت سے زیادہ قیمتی پراپرٹی ہوتی ہے کہ ہر فرد کی بنیادی اور ناگزیر ضروریات میں روٹی کپڑا اور مکان ہو تا ہے،جس کی طلب و رسد کسی بھی دور میں کم نہیں ہوتی۔آج سے دس سال قبل جو پلاٹ لاکھوں میں تھا اب وہ کروڑوں میں بکتا ہے۔

پھر لوکیشن کے لحاظ سے دیکھا جائے تو کلفٹن، گذری،ڈیفنس ، پی ای سی ایچ ایس کراچی کی زمینیں سونا اگلتی ہیں جب کہ گلشن، نیوکراچی، سرجانی، معمار کی آبادیوں میں بھی قیمتیں بڑھ رہی ہیں تاہم یہاں متوسط آمدنی والے لوگ اپنی چھت کا خواب دیکھ سکتے ہیں۔

کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، ملتان، فیصل آباد، حیدر آباد، میرپور خاص، سکھر، نوابشاہ، لاڑکانہ جیسے شہروں کے مراکز آبادی سے مکمل طور پر بھر چکے ہیں ۔اب ان شہروں کے مضافات میں واقع گاؤں دیہات ان شہروں میں بس رہے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ آبادی و نقل مکانی میں بے تحاشا اضافے نے جہاں زرعی زمینوں کو نابود کر دیا ہے وہیںہماری صنعتوں کے پھیلاؤ نے آلودگی کے خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔

پراپرٹی نمائشیں

پاکستان میں نئی ہزاروی صدی شروع ہونے کے ساتھ ہی پاکستان کی ریئل اسٹیٹ نے اپنے آپ کو جدت اور ڈیجیٹل رنگ سے ہم آہنگ کیا۔تعمیراتی اداروں اور بلڈرز کی نمائندہ تنظیم آباد نے پراپرٹی ایکسپو کی پاکستان کے بڑے شہروں کراچی ،لاہور،اسلام آباد وغیرہ اور متحدہ عرب امارات میں بنیاد ڈالی جس کے دیکھتے ہی اس صنعت نے نئی بلندیاں چھوئیں۔ سمندر پار پاکستانیوں میں اس شعبے میں سرمایہ کاری بڑھی۔

ساتھ ہی عام لوگوں کا اس صنعت میں اعتماد بڑھا اور رابطے بہتر ہوئے۔کراچی ،لاہور، دبئی اور ابوظہبی میں پراپرٹی ایکسپوز کی نمایاں کامیابی نے پاکستان کے ماہرینِ تعمیرات کی کاوشوں کو نمایاں کیا اور دیکھا دیکھی دیگر اداروں نے بھی ایسے اہتمام کئے۔ان نمائشوں کے کامیاب انعقاد میں میڈیا پارٹنر کے طور پر’’ جنگ میڈیا گروپ‘‘ کے کردار کو کسی طور نظر انداز نہیں کر سکتے کہ’’ جنگ‘‘ ملک کا نہ صرف سب سے بڑا اخبار شمار ہوتا ہے بلکہ ملک کا یہ واحد اخبار ہے جو پراپرٹی کے کلاسیفائیڈ اشتہارات کو ’’پراپرٹی گائیڈ‘‘ کے نام سے سپلیمنٹ کی صورت اولین جگہ دیتا ہے ۔

اس طرح ملک بھر کے ریئل اسٹیٹ ایجنٹس کے لیےـ’’ سنڈے کا جنگ اخبار‘‘ ناگزیر ضرورت بن جاتا ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ’’ جنگ‘‘ نے تعمیرات کو اپنے پورٹ فولیو کا مستقل حصہ بنا رکھا ہے جس سے تعمیراتی صنعت اور اس کے بست و کشادکے بارے میں عوام کے شعور میں اضافہ ہوا ہے۔اس لیے جب بھی پاکستانی تعمیراتی صنعت کی ترقی و بڑھوتری کی بات ہوگی ’’جنگ‘‘ کے کردار کو بھلایا نہیں جاسکے گا۔  

تازہ ترین