• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے ایک دوست سرکارپاکستان کے ملازم ہیں اور اگلے سال ان کی ریٹارمنٹ ہے۔ وہ حسن اتفاق سے ایک ایسی بیوی کے شوہر ہیں، جو دوہری شہریت کی حامل ہیں۔ میرے دوست کا گریڈ بھی خاصا اونچا ہے۔ وہ سرکاری ملازموں کے اس زمرے میں آتے ہیں جو تعلیم اور تجربہ کی بنیاد پر سرکار کے لئے کارآمد ہوتے ہیں ۔ وہ آجکل خاصے پریشان ہیں۔ ہماری اعلیٰ عدالت میں دوہری شہریت پر خاصی تحقیق بھی ہوئی ہے۔ دوہری شہریت سے تعلق کی بنیاد پر کیا کارروائی ہو سکتی ہے؟ پاکستان کے قانون میں ابھی تک اس معاملہ کے لئے موثر قانون سازی بھی نہیں ہے۔ اور یہ معاملہ آجکل کی سیاست میں خاصی اہمیت اختیار کر رہا ہے ۔ اس سلسلہ میں عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے ۔ اور وہ انصاف اور اصول کے مطابق ہوگا، یہ معاملہ اصل میں بنیادی حقوق کے زمرے میں آتا ہے۔ اور شخصی آزادی کو متاثر نہیں ہونا چاہئے۔
ہماری اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس صاحبان میں کچھ نام تو بہت اہمیت کے حامل ہیں، ملک کی آزادی کے بعد جسٹس کارنیلس کا نام اور کام عدالت کے وقار میں اضافہ کرتا رہا۔ پھر جسٹس کیانی کا نام گونجا۔ ان کی تقاریر پر مشتمل ایک کتاب ’’ایک جج مسکرا بھی نہیں سکتا‘‘ اپنے زمانہ کی بہت ہی مقبول اور تاریخ ساز کتاب تھی۔ وہ سابق فیلڈ مارشل ایوب کے راج کا زمانہ تھا۔ متحدہ پاکستان کے طول وعرض میں کیانی صاحب نے خطاب کیا اس وقت کی سرکار نے حوصلے اور وقار سے اس معاملہ پر اپنی رائے محفوظ رکھی۔ پھر اس وقت اسمارٹ میڈیا بھی نہ تھا۔ جو بات کا بتنگڑ بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔
ابھی حالیہ دنوں میں پاکستان کے چیف جسٹس صاحب سے وزیر اعظم پاکستان نے ملاقات کی اور اس ملاقات کے حوالہ سے جو خبریں ملی ہیں اس کے مطابق وزیر اعظم پاکستان نے اٹارنی جنرل پاکستان کے ذریعہ ملاقات کی خواہش یا درخواست روانہ کی۔ جناب چیف جسٹس پاکستان کے لئے یہ معاملہ اخلاقی اور قانونی طور پر غور طلب تھا جب رجسٹرار سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل پاکستان کے ملنے کی بات کی۔ تو اندازہ یہ ہے کہ یہ ایک معمول کی سرکاری ملاقات ہو گی۔ مگر جب اٹارنی جنرل نے وزیر اعظم کی خواہش کا اظہار کیا تو چیف صاحب کے لئے فوری فیصلہ کرنا مشکل تھا۔ ایک طرف ملکی سیاست میں سپریم کورٹ کے کردار پر مسلسل بحث ہو رہی ہے۔
پھر سابق وزیر اعظم نواز شریف کو اعلیٰ عدالت کا فیصلہ پر عدم اظہار کا رویہ قانونی نظام کی افادیت کے لئے غیر اصولی تھا۔ پھر مسلم لیگ نواز کی حکومت کے وزیر صاحبان بھی اس معاملہ میں فریق بنتے نظر آ رہے تھے اور پانچ فاضل جج صاحبان پر مسلسل تنقید کرتے رہے تھے۔ وزیر اعظم پاکستان نے بھی نا اہلی کے فیصلہ کو قبول نہ کیا اور نا اہل وزیراعظم کو اپنا وزیر اعظم بتایا اور ان کی سرکار نے سابق وزیر اعظم کو مکمل طور پر حاضر وزیر اعظم کا پروٹوکول بھی دیا۔ ایسے حالات میں وزیر اعظم کی ملاقات کی درخواست حیران کن تھی۔ پھر بھی چیف جسٹس نے اپنے ساتھی ججوں سے مشاورت کا فیصلہ کیا۔
یہ بات بھی زیادہ پرانی نہیں ۔ بلکہ اعلیٰ عدلیہ کی تاریخ کا حصہ ہے ۔ جنرل مشرف کے زمانہ میں چودھری افتخار چیف جسٹس آف پاکستان تھے ۔ وہ ملٹری سرکار کا زمانہ تھا۔ چودھری افتخار نے ملکی نظام کو چلانے کے لئے ملٹری سرکار کے فیصلوں کو تحفظ بھی دیا۔ مگر اس وقت کے وزیر اعظم نے جنرل مشرف کو چیف جسٹس چودھری افتخار کے خلاف دروغ گوئی سے کام لیا اور جنرل مشرف کو تیار کیا کہ چیف جسٹس چوہدری افتخار کو جبری طور پر سبکدوش کر دیا جائے۔ سابق چیف جسٹس کا خیال تھا کہ ملٹری صدر جنرل مشرف سے بات چیت سے یہ معاملہ درست ہو سکتا ہے۔ اور اس ہی بنیاد پر انہوں نے ملٹری صدر سے ملنے کا فیصلہ کیا دوسری طرف ملٹری صدر کو ان کے رفقاء نے باور کروایا تھا کہ جب چیف جسٹس چوہدری افتخار کو الزامات کا بتایا جائے گا تو وہ فوراً ہی استعفیٰ دینے پر تیار ہونگے۔
مگر ایک نئی تاریخ رقم ہونے جا رہی تھی جب چیف جسٹس کو حکم سنایا گیا کہ آپ اپنے طور پر یہ عہدہ چھوڑ دیں۔ ان کے لئے یہ مشکل وقت تھا۔ ان کو اندازہ ہوا کہ کھیل ختم ہونے کو ہے انہوں نے اعلیٰ عدلیہ کے وقار کے لئے ملٹری سرکار کے فیصلہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
سیاہ رات میں روشن کتاب چھوڑ گیا
چلا گیا ہے مگر اپنے خواب چھوڑ گیا
اب ملٹری سرکار کے لئے کوئی نیا فیصلہ کرنا مشکل تھا۔ چیف جسٹس چوہدری افتخار کو ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور یہ خبر ہر سو پھیل گئی۔سیاسی لوگوں نے صرف سیاست کی ۔ مگر وکیل حضرات اور عوام نے سابق چیف جسٹس کے لئے ملٹری صدر سے جنگ کا فیصلہ کیا اور یہ جنگ خوب لڑی گئی۔ چوہدری افتخار کا کردار عدلیہ کی آزادی کی جنگ میں سنگ میل بن گیا۔ او رپھر ویسا ہی ہوا۔ سیاسی لوگوں کو چودھری افتخار کی رہنمائی پسند نہ تھی۔ دوسری طرف ملٹری سرکار بھی بے بس تھی۔ بیرون ملک دوستوں اور غیر ملکی طاقتوں کی مشاورت سے جمہوریت کو فروغ دینے کے لئے انتخابات کا فیصلہ ہوا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابقہ وزیر اعظم بے نظیر نے باہمی مفادات کے تناظر میں ایک دوسرے کو قبولنے کے معاہدہ پر راضی ہو گئے۔ بے نظیر پاکستان آنے کے بعد اپنے ہی لوگوں کی سازش کا شکار ہو گئیں۔ اس کے باوجود این آر او کی وجہ سے انتخابات کروائےگئے اور پہلے باری کے لئے پیپلز پارٹی کو حکومت کرنے کا موقع ملا پیپلز پارٹی نے جنرل مشرف کو وعدہ کے مطابق سرخ قالین پر چلا کر فارغ کر دیا اور آصف علی زرداری پلان کے مطابق صدر پاکستان بن گئے اور ان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سابق جسٹس افتخار کو واپس لانے پر تیار نہ تھے۔ مگر عوامی دبائو نے ان کو مجبور کر دیا اور جسٹس افتخار ایک بار پھر چیف جسٹس آف پاکستان بن گئے۔ جب سابق جسٹس چودھری افتخار نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالت کے کٹہرے میں بلایا تو سابق وزیر اعظم نے چیف جسٹس افتخار چودھری سے ملاقات کی۔ مگر اس کے نتائج حوصلہ افزا نہ نکلے اور ان کو قانونی طور پر نا اہل کر دیا گیا۔
اب ایک دفعہ پھر معاملات کچھ ایسے ہی لگ رہے ہیں۔ اعلیٰ عدالتی فیصلوں کو تنقید کے ذریعے مشکوک بنایا جا رہا ہے۔ یہ بات اعلیٰ عدلیہ کے وقار کے منافی ہے مگر اعلیٰ عدلیہ نے کوئی رد عمل نہیں دیا۔ پھر وزیر اعظم پاکستان نے بھی کچھ ایسا رد عمل دیا۔ نواز لیگ کے سابق وزیر داخلہ نے کوشش کی کہ سرکار اور پارٹی ایسا نہ کرے مگر ان کو بھی خفت اٹھانا پڑی۔ اب وزیر اعظم پاکستان سے چیف جسٹس پاکستان کی ملاقات ہو چکی ہے۔ اور جو خوشگوار رہی۔ مگر جمہوریت کا راگ الاپنے والے اس ملاقات سے راضی نہیں لگے رہے اور وہ انتخابات کے بارے میں شک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔ جمہوریت اور شخصی آزادی کے لئے سب لوگ اعلیٰ عدلیہ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور امید ہے کچھ اچھا ہو جائے۔
یہ کونسی بستی ہے یہ کون سا موسم ہے
سوچا بھی نہیں جاتا ، بولا بھی نہیں جاتا
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین