• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محفوظ سرمایہ کاری۔۔۔۔گھر یا پلاٹ ہی کیوں؟

پاکستان کا مالیاتی نظام قرضوں کی زیادتی، ریونیو کی کمی کی وجہ سے بے اعتمادی کا شکار ہے اور پھر یہ بھی عجب ستم ظریفی ہے کہ اسٹیٹ بینک کے بینچ مارک کو نجی بینک اختیار نہیں کرتے۔ 

اس لئے لوگوں کی بچتوں کا رحجان بہت کم ہے اور وہ ایسے نعم البدل ڈھونڈتے ہیں جہاں وہ سرمایہ کاری کریں تاکہ افراط زر کے مسلسل بلندی کے گراف کو مات دیں سکیں کیونکہ مہنگائی گذشتہ 15 سالوں میں ہوش ربا سطح پر پہنچ گئی ہے۔

محفوظ سرمایہ کاری اور مارک اپ کی شرح

ایک زمانے میں30 سال پہلے کی بات ہے ڈاکٹر یعقوب اسٹیٹ بینک کے گورنر تھے ان کے وقت میں مارک اپ (شرح سود) 23 فیصد تھی اور ڈیفنس سیونگ اور دیگر سرکاری بچتوں کے ادارے 18 فیصد منافع بچت کے لئے پیسہ رکھنے والوں کو دیتے تھے اس طرح پینشنرز، بیوائوں اور دیگر ریٹائرڈ ملازمین کو ایک لاکھ روپے پر 18 ہزار مل جاتے تھے آج شرح سود 6 فیصد ہے اگر سالانہ کسی کو ایک لاکھ روپے پر چھ ہزار روپے ملیں تو ان کو کیا فائدہ؟ اس لئے وہ نعم البدل تلاش کرتے ہیں۔

بینکوں کا کشن اور بچتوں پر منافع

آج کل کرنٹ اکائونٹ میں لوگ پیسہ رکھواتے ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن یہ عجیب بات ہے کہ بینک اسٹیٹ بینک کے چھ فیصد شرح مارک اپ کو تو اختیار کرتے ہیں لیکن جب تین لاکھ روپے کا قرض دیتے ہیں تو اس پر فلیٹ ریٹ کو لاگو کرتے ہیں یعنی اگر آپ نے قسط اور سود بھی دیا اور تین لاکھ روپے میں ایک لاکھ روپے باقی رہے گئے تو وہ تین لاکھ روپے پر ہی سود چارج کریں گے۔ قانون تقلیل حاصل نہیں لگے گا۔ 

اس طرح سرمایہ کاری کرنے والے جو قرض لیتے ہیں ان کو بہت سی رقم سود میں ادا کرنی پڑتی ہے اور کاروبار میں ان کامیابی ممکن دکھائی نہیں دیتی اس لئے سرمایہ کاری کے لئے قرض لینا محفوظ سرمایہ کاری نہیں سمجھ جاتی۔اس کے باوجود 2016ء میں بینکوں کا ٹیکس کٹوتی سے پہلے منافع 13سو ارب روپے تھا جو ایک ریکارڈ ہے۔

میوچل فنڈ اوپن اینڈ اور کلوزاینڈ

میوچل فنڈ اسلامی اور روایتی بینکوں کا ایک اچھا شعبہ ہے جن کا گراف اچھا رہتا ہے اور اس وقت اسٹیٹ بینک نے شرح سود بھی کم کر رکھی ہے یہ بھی میوچل فنڈ کمپنیوں کے لئے بہتر ہے۔ میوچل فنڈ میں کئی پروڈکس ہیں جس میں تعلیم ، صحت، شادی بیاہ وغیرہ کے پروڈکس ہیں۔ 

البتہ لوگ جانتے ہیں، ان کے خیال میں اسٹاک مارکیٹ میں گڑبڑ رہتی ہے اور میوچل فنڈ زیادہ تر سرمایہ کاری اسٹاک مارکیٹ میں کرتے ہیں اس لئے وہ کم اس طرح آتے ہیں حالانکہ اس وقت ایک اسلامی بینک 12 فیصد منافع دے رہا ہے اور وہ سرفہرست ہے لیکن لوگوں کی جان کاری کم ہے۔ اوپن اینڈ میں فائدہ یہ ہے کہ جب بھی امانت دار اپنی رقم نکلواسکتا ہے، کلوز اینڈ وقت مقرر ہوتا ہے۔

محفوظ سرمایہ کاری پلاٹ یا میں ہی کیوں؟

ظاہر اس وقت جن کے پاس 15 سے 20 لاکھ روپے کی اسطاعت ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کسی مستند مارکیٹنگ کمپنی کے ذریعے پلاٹ یا گھر میں سرمایہ کاری کریں تو وہ زیادہ محفوظ ہے اس لئے گھر یا پلاٹ کی قیمتیں بڑھتی رہتی ہیں اور ان کی شرح جتنے متبادل اوپر بیان کیے گئے ہیں ان سب میں محفوظ سرمایہ کاری پلاٹ یا گھر خریدنے میں ہو رہی ہے اب اسے سٹہ بازی کہیں یا مالیاتی نظام کا چلن اسی میں اب تو کئی بزنس مین بھی سمجھتے ہیں کہ کاروبار سے زیادہ رئیل اسٹیٹ میں ریٹرن ہے لہذا وہ بھی اس میں سرمایہ کاری کو محفوظ سمجھتے ہیں اور پھر گرے ایریا بھی مقررہ ٹیکس ادا کر کے سفید ہو جاتا ہے اس لئے پلاٹوں اور گھروں میں سرمایہ کاری محفوظ سمجھتی جاتی ہے۔

جن کی قوت خرید کم ہے وہ سرمایہ کاری کے لفظ سے نا آشنا ہیںوہ کیا کریں؟

ملک میں ایسی اسکیموں کو متعارف کرایا جائے اور اس طرح قرض دیئے جائیں تاکہ لوگ وکیشنل تربیت کے بعد کام کاج کے قابل ہو جائیں اور اس طرح اپنے روزگار شکم کو حاصل کر سکیں۔ مائیکرو فنانس آسان لفظوں میں نہیں بتا سکا کہ لوگوں کو کون سے کاروبار کرنے چاہئیں تاکہ بے روزگاری میں کمی آئے۔ 

اسٹیٹ بینک اس تگ و تاز میں ہے کہ وہ مائیکرو فنانس سے کام لے لیکن یہ بات عام آدمی تک نہیں پہنچتی۔ اگر گرامین بینک (بنگلہ دیش) کی طرح کوئی اختراعی طریقہ استعمال کریں تو غربت میں کمی آسکتی ہے، کیونکہ پاکستان کی صنعتی اساس اتنی کمزور ہے کہ جی ڈی پی کی شرح زوال پذیر ہو رہی ہے کیونکہ کیش فلو شرح ترقی یا شرح نمو کے لئے ضروری ہے۔ 

قرضوں سے وہ بات نہیں بنتی اس لئے ضروری ہے کہ حکومت مائیکرو فنانس کے ذریعے لوگوں کو چھوٹے کاروبار کی طرف راغب کریں۔ مائیکرو فنانس کے ذریعے سرمایہ کاری کو ترجیح دیں۔

کمپنیوں کے شیئرز کی خریداری ایک اور نعم البدل

چند ایک بلوچپس کمپنیاں جو اسٹاک مارکیٹ میں بہت اچھی کارکردگی دکھا رہی ہیں چاہے کوئی اسٹاک مارکیٹ کے کھیل اور سٹہ بازی سے متفق ہو یا نہ ہو۔ 

یہ بلوچپس کمپنیاں ڈیویڈنڈ ادا کرتی ہیں اور بعض اچھا خاصامنافع دیتی ہیں لیکن عام آدمی کو اس کا علم نہیں کہ وہ کس طرح ان کمپنیوں سے رابطہ کریں اور اپنی بچتوں سے کوئی فائدہ اٹھائیں اب یہ کمپنیوں پر ہے کہ وہ کس طرح اپنا پیغام لوگوں تک پہنچاتی ہیں۔ضروری ہے کہ وہ میڈیا پر اپنی سرمایہ کارانہ پروڈکٹس کو آسانی سے پہنچائے۔

تازہ ترین