• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں آئندہ عام انتخابات ایسے حالات میں ہو رہے ہیں ، جب دنیا میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں اور پاکستان کے داخلی تضادات بہت گہرے ہو رہے ہیں ۔ نہ صرف طبقاتی تفریق میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے بلکہ قومی ، لسانی ، نسلی ، فرقہ ورانہ اور گروہی تقسیم بھی پہلے سے زیادہ ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معیشت اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے ، جو داخلی تضادات کو مزید گہرا کر سکتی ہے ۔ عام انتخابات میں دائیں اور بائیں بازو کی وفاق پرست سیاسی جماعتوں اور قوم پرست سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی واضح پروگرام یا ایجنڈا نہیں ہے اور نہ ہی اپنے اپنے دائرہ اثر میں ان کی پہلے کی طرح لوگوں میں سیاسی اپیل رہی ہے۔
ان حالات میں عام انتخابات کا نتیجہ کیا ہو گا اور انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کیا ان حالات کا مقابلہ کر سکے گی ؟ یہ ایک بنیادی سوال ہے ، جو ہمارے عام اور دانشورانہ مباحثوں میں تسلسل کے ساتھ پوچھا جاتا ہے لیکن کسی کے پاس اس سوال کا واضح جواب نہیں ہے اور شاید آئندہ عام انتخابات کے نتیجے میں ملک کی کوئی واضح سیاسی سمت بھی بنتے ہوئے نظر نہیں آ رہی ہے ۔
ہماری سیاسی تاریخ کا ایک قابل فخر سنگ میل عبور ہونے والا ہے کیونکہ دوسری جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی ہے اور انتخابات کے نتیجے میں تیسری جمہوری حکومت قائم ہو گی لیکن یہ سنگ میل عبور کرتے ہوئے ہم بحیثیت قوم سیاسی طور پر بہت کمزور ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ غیر سیاسی قوتیں بھی پاکستان کے اقتدار اعلیٰ پر قبضہ کرنے کی پہلے والی پوزیشن میں نہیں ہیں لیکن سیاسی قوتیں بھی بوجوہ بہت کمزور ہو چکی ہیں ۔
ویسے تو پوری دنیا میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد نظریاتی سیاست اور نظریاتی کشمکش بھی بتدریج ختم ہو گئی۔ امریکا کے نیو ورلڈ آرڈر میں دنیامیں اچانک دہشت گردی کی ایک لہر اٹھی ۔ پھر دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ شروع ہوئی ۔ جنگ کا دائرہ جوں جوں وسیع ہوتا گیا ، دہشت گردی بڑھتی گئی ۔ مصنوعی دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف مصنوعی جنگ نے نہ صرف عالمی سطح پر قوموں اور عالمی سماج کو غیر سیاسی بنایا بلکہ اس نظام میں غیر ریاستی عناصر اور ایسے پیسے کا کردار نمایاں ہو گیا ۔ حقیقی عوام دوست قوتیں حقیقی دہشت گردی کا نشانہ بنیں اور اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ قوتیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ڈالرز کے حصول میں مصروف ہو گئیں ۔ دہشت گرد اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد کردار ادا کرنے والے سب دولت مند ہو گئے ۔ ان کی دیکھا دیکھی عوام دوست قوتیں بھی سمجھوتوں اور کرپشن میں اپنی بقا تلاش کرنے لگیں ۔ دائیں اور بائیں بازو کے دونوں طرف کے نظریاتی کارکنان یا تو اس افراتفری کی بھینٹ چڑھ گئے یا اپنی سیاسی جماعتوں کے لیے غیر متعلق ہو گئے ۔ مسلم دنیا میں انقلاب کے نام پر جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔ ان سے نہ صرف ان ممالک میں بڑی تباہی آئی بلکہ سامراج دشمن قوتیں بہت زیادہ کمزور ہوگئیں یا عہد نو کی سیاست میں متعلق نہیں رہیں ۔
تیسری دنیا خصوصاً مسلم ممالک اس صورت حال سے دوچار ہیں اور پاکستان میں بھی کم و بیش ایسی ہی صورت حال رہی ۔ پاکستان کی بائیں بازو کی سیاسی قوتیں دہشت گردی کی وجہ سے عوام سے کٹ کر رہ گئیں۔ انہوں نے جدوجہد کی بجائے سیاسی سمجھوتوں کا راستہ اختیار کیا اور سیاست کو دولت کمانے کا ذریعہ بنا لیا ۔ یہاں کسی پارٹی کا نام لکھنا ضروری نہیں ۔ ان سیاسی جماعتوں کے کارکنان اس وقت سخت مایوسی کا شکار ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ بائیں بازو کی یہ سیاسی جماعتیں پارٹی قیادت کے قریبی لوگوں کا کلب بن کر رہ گئی ہیں ۔ ان سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی ایسا نعرہ یا پروگرام بھی نہیں ہے ، جس سے عوام یا کارکنان ان جماعتوں کے ساتھ اپنی وابستگی کا خود کو جواز پیش کر سکیں ۔ دوسری طرف دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں انتہا پسند اور غیر انتہا پسند گروہوں میں تقسیم ہو کر رہ گئیں ۔ نیو ورلڈ آرڈر میں مسلم دنیا میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو نقصان ہوا ۔ ان سیاسی جماعتوں کا بڑا سیاسی کیڈر انتہا پسند تنظیموں کا ایندھن بن گیا اور باقی سیاسی کیڈر بچا ، اس نے دیکھ لیا کہ ان کی جماعتیں اصل میں کہاں کھڑی ہیں ۔ وہ بھی مایوسی کا شکار ہیں ۔ ان کے پاس بھی کوئی پرکشش نعرہ یا پروگرام نہیں ہے ۔
اس پس منظر میں سیاسی جماعتوں کی پوزیشن کا جائزہ لینا چاہئے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ پنجاب پر توجہ دی اور اس کی قیادت کا سیاسی بیانیہ ایسا ہے ، جو پنجاب سے باہر اپیل نہیں رکھتا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی آئندہ عام انتخابات میں سندھ کے علاوہ دیگر صوبوں میں اپنی پوزیشن بحال کرنے میں شدید مشکلات کا شکار ہے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کا بیانیہ بھی دیگر صوبوں کے مقابلے میں سندھ میں زیادہ مقبول ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کی اگرچہ اس وقت خیبر پختونخوا میں حکومت ہے لیکن اسے اس صوبے کی پارٹی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ خیبر پختونخوا میں ہر الیکشن میں نئی پارٹی کی حکومت بنتی ہے اور یہ حکومت خطے کے حالات کے تناظر میں بنتی ہے ۔ تحریک انصاف کو پنجاب کے شہروں اور کسی حد تک کراچی میں مقبولیت حاصل ہے لیکن یہ مقبولیت زیادہ نشستوں میں تبدیل ہونا مشکل نظر آتا ہے ۔ تحریک انصاف کے پاس بھی کوئی سیاسی پروگرام نہیں ہے اور تحریک انصاف کی قیادت کا بیانیہ نچلے طبقوں میں مقبول نہیں ہے ۔ جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی جیسی سیاسی جماعتیں بھی کچھ مخصوص علاقوں تک محدود ہیں ۔ عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں حالات کے رحم و کرم پر ہیں ۔ آئندہ عام انتخابات میں سیاسی جماعتیں واضح ایجنڈے اور پروگرام کے بغیر اور کمزور سیاسی اپیل کے ساتھ جاری ہیں ۔کوئی سیاسی جماعت تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن شاید حاصل نہیں کر پائے گی اور وفاقی اور صوبائی سطح پر مخلوط یا کمزور حکومتیں بنتی ہوئی نظر آ رہی ہیں ۔ اس لیے غیر سیاسی قوتیں حکومتی امور پر زیادہ مداخلت اور فیصلہ سازی والے کردار کی حامل ہوں گی ۔ المیہ یہ ہے کہ نیو ورلڈ آرڈر والی غیر سیاسی قوتوں کی بھی وہی حالت ہے ، جو سیاسی قوتوں کی ہے ۔ معاشی بحران مزید پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے ۔ پاکستان کو عالمی اور علاقائی چیلنجز اور داخلی تضادات سے نمٹنے کے لیے بہت مسائل کا سامنا رہے گا۔ اللہ خیر کرے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین