• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک طرف چیف جسٹس آف پاکستان ، جسٹس میاں ثاقب نثار سرکاری اور غیر سرکاری اسپتالوں عوام کو صحت کی بہتر سہولتیںفراہم کرنے کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔ تو دوسری طرف محکمہ صحت میں بعض اعلیٰ عہدیدارریٹائرمنٹ کے بعد موجیں مار رہے ہیں۔ بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد ہنی مون پریڈ منا رہے ہیں۔ دلچسپ اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سوائے دو تین ڈاکٹروںکے باقی سب نے اپنے پوری سروس کے دوران کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ بلکہ میو اسپتال کے ایک سابق ایم ایس جو بعد میں ڈی جی ہیلتھ بھی رہے نے پورے کیرئیر میں ایک بھی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ البتہ ایک کام انہوں نے ضرور کیا ، انہوں نے بیوروکریسی، وزراء اور میڈیا کے لوگوں کو بہت خوش رکھا۔ اس صلے میں انہیں کنسلٹنٹ لگا دیا گیا ۔ کیا مزےہیں۔ ایک طرف اکیس گریڈ کی پنشن مل رہی ہے پھر بطور کنسلٹنٹ پانچ چھ لاکھ تنخواہ ، گاڑی اور ڈرائیور بھی مل گیا اور کام کوئی ہے نہیں۔ کتنی دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی ٹیچنگ اسپتالوں کے ایم ایس اور ڈین صاحبان کو ریٹائرمنٹ کے فوراً بعدمحکمہ صحت میں لاکھوں روپے تنخواہ پر دوبارہ ملازمت پر رکھ لیا گیا۔ ہم نےعرض کیا ہے کہ سوائے دوتین پروفیسروں کےجنہوں نے واقعی اپنی سروس کے دوران اتنا زبردست کام کیا ہے کہ اگر انہیں زندگی بھر بھی شعبہ صحت کےمختلف منصوبوں میں شامل رکھا جائےاور ان کی خدمات سے استفادہ کیا جائے تو ملک کے لئے واقعی بہت بڑا کام ہوگا۔ عزیز قارئین یہ حقیقت ہے کہ پروفیسر فیصل مسعود جیسا انتہائی قابل اور صلاحیتوں والا ڈاکٹر اس سے قبل میڈیکل پروفیشن میں نہیں آیا۔ وہ لاکھوں روپے کی پریکٹس کو بھی کئی کئی روز صحت کے مسائل کو حل کرنے اور حکومتی فرائض ادا کرنے کے لئے قربان کر دیتے ہیں۔ ڈینگی اور کئی بیماریوں میں ان کو اتھارٹی سمجھا جاتا ہے۔ جن کا اظہار خود خادم پنجاب میاں محمد شہباز شریف بارہا کر چکے ہیں دوسری طرف ایسے کنسلٹنٹ بھی ہیں جنہیں نسخہ لکھنا بھی نہیں آتا۔ یہ کنسلٹنٹ کوئی کام نہیں کرتے ، سوائے چائے پینےکے جبکہ لاکھوں روپے تنخواہ لے رہے ہیں اس سے بڑا لطیفہ اور کیا ہو گا کہ اپنے ہی محکمے سے بیس گریڈ میں ریٹارڈ ہوئے ہیں ۔ بلکہ بعض نے لمبی رخصت لے رکھی ہے اور صحت کی حکومت کی طرف سے قائم کردہ کمپنیوں میں دس دس لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ،ہیں میڈیا میں ایسے افراد کے نام اور تنخواہیں آچکی ہیں۔بڑی پرانی بات ہے ہم کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) میں ایک تقریب کے بعد اس وقت کے گورنر پنجاب جنرل محمد صفدر (جو اس سے قبل پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے تھے) سے چائے پر گپ شپ کر رہے تھے۔اس اثناء میں ای این ٹی کے ایک مشہور پروفیسر گورنر کے پاس آئے۔اپنا تعارف کرایا۔ اور کہا کہ میری ایکسٹیشن کی فائل آپ کی میز پر پڑی ہوئی ہے۔ براہ کرم میری ملازمت میں دوسال کی تو سیع کر دیں۔ جنرل صفدر نے پوچھا کہ آپ نے کتنے برس سروس کی ۔ تو انہوں نے بتایا کہ تیس برس کے قریب ہو رہے ہیں اور میرے ذہن میں اپنے ادارے کے حوالے سے بڑے بڑے منصوبے ہیں جن پر میں کام کرنا چاہتا ہوں ۔ اس پر گورنر نے کہا کہ محترم پروفیسر جو توپ آپ سے تیس برس تک نہ چلی اب کیا دو برس کی مزید سروس میں چل جائے گی؟میں آپ کو بالکل توسیع نہیں دوں گا۔
سو دوستو !پنجاب میں آج کل سرکاری ملازمین کے لئے جشن بہاراں ہے آپ کی سفارش ہے تو بس کسی بھی کمپنی کو جوائن کر لو۔ لاکھوں روپے تنخواہ لو۔ حکومت کے اس روئیے سے ان ملازمین پر انتہائی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جو کسی حد تک ایمانداری سے فرائض ادا کر رہے ہیں۔جبکہ ان کے ساتھ کے کسی بھی کمپنی میں بیٹھے پانچ سے 14لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے پنجاب حکومت کی 56کمپنیز میں افسروں کو بھاری تنخواہیں اور مراعات دینے پر از خود نوٹس لےلیا ہے ۔ اور افسروں کو دی جانے والی تنخواہ اور مراعات کی تفصیلات طلب کر لیں۔ اور چیف سیکرٹری سےدوران سماعت کہا کہ آپ نے سب کچھ پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دیا ہے۔ عوام کے ٹیکس کا پیسہ ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ اگر آپ سے کام نہیں ہوتا۔ تو حکومت چھو ڑ دیں۔ سپریم کورٹ نے پاکستان لیور اینڈ کڈنی ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ میں بھاری تنخواہوں پر ڈاکٹروں کی بھرتی کا از خود نوٹس لے لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے پنجاب کےچیف سیکرٹری کی 2لاکھ روپے تنخواہ ہے۔جبکہ اسٹیٹ آف آرٹ اسپتالوں میں 12لاکھ تنخواہ کس قانون کے تحت دی جا رہی ہے اور ہر اسپتال اسٹیٹ آف دی آرٹ بن چکا ہے۔کتنی افسوس ناک حقیقت ہے کہ پی کے ایل آئی اور ملک کے دیگر اسپتالوں میں باہر سے ڈاکٹروں کو بلایا جا رہا ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ انہوں نے بیرون ممالک بڑی خدمات سر انجام دی ہیں ۔ ارے اللہ کے بندو ان ڈاکٹروں نے اپنے ملک کے لئے تو کچھ نہیں کیا۔ ہماری بات یقیناً25لاکھ روپے تنخواہ خود لینے والے اور ان کی اہلیہ جو کہ 20لاکھ روپے تنخواہ لے رہی ہیں کو بہت ناگوار گزرے گی مگر سچ تو یہ ہے کہ جب بیرون ممالک میں آپ کا میچ اوور ہو گیا ۔ اب آپ کو پاکستان کی خدمت کا خیال آیا۔ ارے پاکستان کی خدمت کرنا تھی تو باہر ہی نہ جاتے۔ اس ملک میں بے شمار ایسے نامور ڈاکٹرز ہیں اگر ان کے نام لکھوں تو کئی کالم ختم ہو جائیں جو باہر کی ملازمتیں جوانی میں بلکہ تیس سال کی عمر میں چھوڑ کر صرف اس ملک کے لوگوں کے لئے آ گئے۔مثلاً پروفیسر ندیم حیات ملک، پروفیسر سعد بشیر ملک، پروفیسر نوید اشرف ، پروفیسر فیصل مسعود، پروفیسر سرور چوہدری اور بے شمار نام ہیں۔
پھر ایسے بھی سینئر ڈاکٹرز رہے ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد بغیر کسی تنخواہ اور معاوضے کے سرکاری اسپتالوں میں کئی برس تک خدمات سر انجام دیتے رہے جن کی ایک لمبی فہرست ہے اور آج بھی بعض ڈاکٹر بلا معاوضہ سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے کو تیار ہیں۔ جو ڈاکٹر اس وقت شعبہ صحت کی مختلف کمپنیوں میں موجیں مار رہے ہیں اور اگر وہ واقعی درد دل رکھتے ہیں تو اپنی خدمات بغیر کسی معاوضے کے حکومت کے سپرد کریں۔ پنشن تو مل رہی ہے ہمیں یاد ہے آج سے پچیس برس قبل سرگنگا رام اسپتال کے شعبہ آئی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر لطیف چوہدری جب ریٹائرڈ ہوئے تو انہوں نے اپنی تمام گریجویٹی اور پنشن وغیرہ اسپتال کے شعبہ آئی کو عطیہ کر دی اور اس وقت تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرگنگا رام اسپتال ، فاطمہ جناح میڈیکل کالج(اب یونیورسٹی) نے انہیں عزت، شہرت دولت اور شناخت دی ۔ اب میرا فرض ہے کہ میں اس ادارے کے لئے کچھ کروں۔ وہ آج بھی اپنے گائوں لیاقت پور میں آنکھوںکا ایک مفت اسپتال چلاتے ہیں۔ کاش باقی ڈاکٹرز بھی اسطرح سوچیں۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے لاہور رجسٹری میں انسانی حقوق کا سیل قائم کر دیا ہے جو بے سہارا سائلین کی شکایات کا جائزہ لینے کے بعد ان کی داد رسی کے لئے کارروائی کرے گا ۔ یہ سیل حکومتی اداروں، انسانی حقوق اور اقلیتوں کے مسائل کے حوالے سے کام کرے گا۔اللہ کرےچیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یہ سیل کام کرے۔ اورجو اقدامات جسٹس میاں ثاقب نثار نے اٹھائے ہیں وہ برقرار رہیں۔اس طرح سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں نجی میڈیکل کالجوں میں اضافی فیسوں کی وصولی اور سہولتوں کی کمی کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ ہمیں میڈیکل کالجوں سے ڈاکٹرزچاہئیں،عطائی نہیں۔ جو میڈیکل کالج معیار پر پورا نہیں اتریں گے۔ انہیں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے کنٹرول میں دے دیا جائے گا‘‘حضور والا اس وقت پورے ملک میں چار لاکھ عطائی اور صرف دو لاکھ ڈاکٹرز ہیں ۔ پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن اب تک سینکڑوں عطائیوں کے کلینک بند کرچکا ہے مگر بعض اوقات یہ عطائی حضرات عدالتوں سے ریلیف لے آتے ہیں۔ ان عطائیوں کو بالکل ریلیف نہیں ملنا چاہئے اب تک 8200عطائیوں کے اڈے بند کر کے 6کروڑ 8لاکھ جرمانہ وصول کیا گیا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین