• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 اس کو بھی خدا ہونے کا اتنا ہی یقین تھا

قومی المیے سیاسی عدم استحکام اور نظام کو بہتر کرنے کی بجائے اس کے خلاف سازشوں کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ لیکن تاریخ کے بدترین سچ میں سے یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ تاریخ سے کسی نے کبھی سبق نہیں سیکھا اور تاریخ یونہی دوہرائی جاتی رہی ہے۔ ہم دوسری جنگ عظیم اور نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد اگر ممالک کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو واضح فرق محسوس کرینگے کہ جن ممالک نے رائے عامہ کی رائے کے مطابق اپنے نظام برقرار رکھے اور شخصی خواہشات کو جمہوریت کے قتل کی خاطر استعمال نہیں کیا وہ ممالک ان ممالک کی بہ نسبت جن میں روز پتلی تماشے سجائے گئے ۔ اپنے عوام کو بہتر معیار زندگی فراہم کرنے میں کامیاب رہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے عوام کے سامنے بھی یہ سوال بار بار اٹھایا جاتا ہے کہ ان کو کنٹرولڈ ڈیموکریسی چاہیے یا مکمل جمہوریت میں وہ سانس لینا چاہتے ہیں۔ حالانکہ آج اگر ہم کنٹرولڈ ڈیموکریسی یا اپنی پسند کے حلقوں تک محدود سیاست دانوں کے ذریعے اقتدار پر قابض رہنے کے لئے تخلیق سیاسی جماعتوں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ جماعتیں ہمیں تاریخ کے کوڑا دان میں ہی ملیں گی۔ ایوب خان نے اپنی ذاتی مسلم لیگ بنائی ۔ آج صرف ایک آمر کی حاشیہ بردار کے طور پر اس کا ذکر ہوتا ہے۔ مشرف نے بھی ایک مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ تخلیق کی۔ آج پیپلز پارٹی پیٹریاٹ تو سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ جبکہ ق لیگ کی یہ حالت ہے کہ اس کی قیادت اپنے انتخابی حلقے سے بھی کامیابی کے لئے بے یقینی کے سایوں میں موجود ہے۔ اس کے برعکس ماضی میں دو منتخب وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور نوازشریف کے خلاف غیر آئینی اقدامات اٹھائے گئے۔ پھانسی اور جلاوطنی مقدر ٹھہرے مگر آج بھی ان دونوں وزرائے اعظم کی قیادت کو تسلیم بلکہ ان کی مالا جپنے والی سیاسی جماعتیں قومی سیاست میں پوری طرح موجود ہیں۔ مصنوعی قیادت مسلط کرنے والے اور اس کی خواہش رکھنے والوں کے لئے اس میں بڑا سبق موجود ہے۔
ایک اور حقیقت بھی سامنے ہی موجود ہے کہ دونوں منتخب وزرائے اعظم سے جس نوعیت کا سلوک آمروں نے کیا بچ خود بھی نہ پائے۔ جنرل ضیاء نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے تک پہنچا کر ان کا زندگی سے ناطہ تڑوا دیا مگر خود بھی زندہ اقتدار سے واپس نہ جا سکے۔ جنرل مشرف نے نوازشریف کو جبراً جلا وطنی کی زندگی کی جانب دھکیل دیا اور آج خود بھی جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ابھی حال ہی میں یہ دعویٰ سنائی دیا کہ اگر ملک کو غیر آئینی نظام حکومت کی جانب دھکیل دیا جائے تو بین الاقوامی برادری کو اس سے کوئی خفگی نہیں ہو گی۔ نہ جانے یہ دل میں کیسے سما گیا یا کس نے یہ پٹی پڑھا دی کہ ماضی میں غیر آئینی اقدامات پر بین الاقوامی برادری نے جوان بیوہ کی مانند سوگ کیا تھا۔ ایوب ، یحییٰ ، ضیاء اور مشرف کے آنے پر بین الاقوامی سیاست میں کارفرما ممالک کے سربراہوں نے جوش جذبات میں دیواروں سے سر پھوڑ لیا تھا کہ اب پاکستان میں سیاسی بے یقینی جو سماجی انتشار اور پستی کا باعث ہو گی پاکستان کا مقدر ہو گی۔ جناب عالی! اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ بین الاقوامی طاقتوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ پاکستان میں کونسا نظام حکومت ہے۔ بلکہ ان کے مفادات اس میں ہوتے ہیں اور آمرانہ ادوارہی ان کے لئے پسندیدہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ اپنی کمزور سیاسی پوزیشن اور غیر آئینی حکومت کی بناپر آمر کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہوتا کہ وہ بڑی طاقتوں کا دبائو برداشت کر سکے ۔اسی کی دہائی کے افغان جہاد اور مشرف کے دور میں افغان جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ یہ کوئی تاریخ کے گمشدہ اوراق نہیں ہیں بلکہ صرف ایک دہائی قبل کا المیہ ہے۔ کسی میڈیا گروپ سے ذاتی پرخاش رکھتے ہوئے یہ دعویٰ سنائی دے رہا ہے کہ اگر چاہیں تو بند کروا دیں۔ آپ بند کروا بھی دیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کیا رائے عامہ آپ کی ہمنوا ہو جائے گی۔ کیا ماضی میں اس اخبار اور اس کے نیوز چینل پر پابندی مستقل برقرار رہ سکی۔ کیا جب یہ واپس آئے تو قارئین اور ناظرین کی تعداد مزید بڑھ نہیں گئی۔ مگر بدقسمتی سے جو آج کل پوچھ رہے ہیں اور جنہیں آپ سے بھی پوچھنا چاہیے وہ تو آپ کے اشاروں پر قدم اٹھا رہے ہیں۔ حالانکہ جسٹس سعید الزمان صدیقی مرحوم بیان کرتے تھے کہ جب مشرف نے ان کو روکنا چاہا تو ایک کیپٹن کے ذریعے چیف جسٹس آف پاکستان کو گھر پر پابند کر دیا۔ لیکن جسٹس صدیقی مرحوم قابل احترام آج بھی ہیں کہ وہ آئین کے تحفظ کے لئے روکے گئے تھے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین