• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ نے اپنی جان چھڑا لی لیکن…

کوئی پانچ سات سال قبل مرحوم قاضی حسین احمد نے سپریم کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری کو ایک خط لکھا اور درخواست کی کہ فحاشی و عریانیت کی روک تھام کےلیے سوموٹولیتے ہوئے حکومت اور متعلقہ محکموںکو ہدایات جاری کی جائیں تاکہ ہماری آئندہ نسلوں کو اس گندگی اور اس کے سنگین نتائج سے بچایاجا سکے۔ جسٹس افتخار چوہدری نے اس کیس کا سو موٹو لیا۔ ایک طرف متعلقہ محکمے سے کہا گیا کہ پھیلائی جانے والی فحش سائیٹس کو پاکستان کے اندربلاک کیا جائے تو دوسری طرف اُس وقت کےمتعلقہ حکام کوبلا کر پھیلائی جانے والی فحاشی و عریانیت کو روکنے کے لیے کہا کیا لیکن متعلقہ حکام جن کے لیے فحاشی و عریانیت کوئی مسئلہ نہیں تھا بلکہ اس پر اعتراض کرنے والے اُن کی رائے میں تنگ نظر تھے، نے عدالت عظمیٰ کو جواب دیا کہ پہلے فحاشی کی تعریف تو کر دیں کہ فحاشی دراصل ہے کیا۔ پھر کیا ہوا،متعلقہ ادارے کو ہی کہا گیا کہ فحاشی کی تعریف کریں، ایک کمیٹی بظاہر اس کام کے لیے بنائی لیکن مقصد دراصل اس مسئلہ کو ایسا الجھانا تھا کہ کوئی سلجھانے کو کوشش کرے تو اُسے فحاشی کی تعریف کے پیچھے لگا دیں ، پٹیشن کبھی کبھی سپریم کورٹ کے کسی ایک یا کبھی دوسرے بنچ کے سامنے لگا دی جاتی، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ریٹائر ہو گئے، اُس کے بعد دوسرے، تیسری، چوتھے، پانچویں اور پھر چھٹے چیف جسٹس تشریف لے آئے۔ نہ فحاشی کی تعریف ہوئی، نہ فحاشی و عریانیت کو روکنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی۔ بلکہ اس دوران فحاشی و عریانیت کا سیلاب مزید تیزی سے پھیلتا رہا اور اب یہ حالت ہے کہ اگر کوئی فحاشی و عریانیت کی بات کرے تو اُسے شدت پسندی اور قدامت پسندی سے جوڑا جاتا ہے۔ انفرادی طورپر بات کریں تو سب کہتے ہیں حدیں پار کر دیں، جج بھی یہی کہتے ہیں لیکن مسئلہ کا حل کوئی نہیں نکالتا۔ اس کیس کی سماعت کے دوران بعض اوقات جج حضرات کی طرف سے بھی شکایات کا اظہار کیا جاتا رہا کہ حدود پارکی جارہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے ایک جج صاحب کا تو کہنا تھا کہ فحاشی پھیلانے میں امریکا سے بھی آگے نکل گئے۔ لیکن افسوس کہ اس کینسر کو جو ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیلایا جا رہا ہے اُس کے علاج کے لیے کوئی اقدام نہیں اُٹھایا گیا۔ لیکن اس کے باوجود مرحوم قاضی صاحب کی پٹیشن کی سپریم کورٹ میں موجودگی سے کم از کم ایک امید ضرور تھی کہ ہو سکتا ہے آج نہیں تو کل سپریم کورٹ اس اہم مسئلہ کی سنگینی کا خیال رکھتے ہوئے کوئی ایسا فیصلہ دے گی کہ اس بیماری سے اس قوم کی بچایا جا سکے گا۔ مگر افسوس کہ گزشتہ ہفتہ سپریم کورٹ نے یہ امید بھی چھین لی۔ خبر کے مطابق:
’’ فحش موادسے متعلق کیس کی سماعت کرتےہوئے،فاضل عدالت نے متعلقہ ادارےمیں دائر شکایت پر 90دن میں فیصلہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس نمٹا دیا ہے۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ فحاشی نہیں ہونی چاہیے، ڈانس کا نوٹس لیا تھا، نوٹس لینے پر ایکشن لیاگیا۔ انہوں نے کہا کہ بہتر ہوگا متعلقہ محکمہ اس معاملے پر پہلے خود کچھ کرے، فحاشی کی کوئی حتمی تعریف نہیں دے سکتا، فحاشی کے حوالےسے عدلیہ تو لغت کی تعریف پر انحصار کرتی ہے۔ اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ مرحوم قاضی حسین احمد کے انتقال کے بعد انکے ورثا کیس کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا بظاہر یہ بڑا ایشو ہے، یوٹیوب کے مواد کو روک نہیں سکتے، متعلقہ ادارے نے ریگولیٹ کرنا ہے،ا س سے رپورٹ مانگ لیتے ہیں قابل اعتراض مواد پر کیا کیا؟متعلقہ ادارے کے پاس اختیار ہے، کسی کو شکایت ہے تو اس سے رجوع کرے، قابل اعتراض مواد پر ایکشن نہ لے تو متعلقہ فورم موجود ہیں،یہ حکم دیا جا سکتا ہے کہ قابل اعتراض مواد کی روک تھام کرتے ہوئے نوٹس لے عریانی اور فحاشی والا مواد نہیں ہونا چاہیے، اس بات پر کوئی دو رائے نہیں ، قابل اعتراض مواد کی کسی صورت اجازت نہیں ہے، بعدازاں عدالت نے متعلقہ ادارے کو شکایات پر90 میں فیصلہ دے۔ عدالت نے فحش مواد کیس نمٹا دیا۔ـ‘‘
خبر سے یہ بات ظاہر ہو رہی ہے کہ جج حضرات کو اس بات کا احساس ہے کہ فحاشی و عریانیت کو پھیلایا جا رہا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس کے باوجود انہوں نے معاملہ متعلقہ محکمے کے سپرد کر دیا اور مشورہ دے دیا کہ جس کو اعتراض ہے وہ اس سے رجوع کرے اور یوں سپریم کورٹ نے اپنےاو پر سے بوجھ اتار دیا۔ پہلے تو ادارے نے فحاشی و عریانیت کو روکنے کے لیے شاید ہی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہو لیکن جب معاشرتی دبائو کی وجہ سے یہ ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش بھی کی گئی تو اس میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں اور سب سے بڑی رکاوٹ عدلیہ کی طرف سے سامنے آئی۔ قاضی صاحب کی پٹیشن سے جان چھڑانی ہی تھی تو سپریم کورٹ کم از کم اُس بات پر غور کر لیتی جو ابصار عالم بار بار کہہ چکے ہیں لیکن اُن کی کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ ابصار عالم کے مطابق متعلقہ محکمے کو تو عدالت کے اسٹے آرڈرز ہی کام نہیں کرنے دیتے بلکہ ادارہ کی رٹ ہی ان اسٹے آرڈرز کی وجہ سے ختم ہو چکی ہے۔ جب کسی کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو متعلقہ ادارے فوری عدالتی اسٹے آرڈر لے آتے ہیں اور یوں فحاشی و عریانیت ہو، دوسروں پر بے بنیاد الزامات لگانے یا پگڑیاں اچھالنے کا دھندہ نہ صرف اُسی طرح چلتا رہتا ہے بلکہ پہلے سے خلاف ورزی میں شدت اختیار کردیتا ہے کیوں کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو معلوم ہے کہ کے نوٹس کا بہترین علاج عدالتی اسٹے آرڈر ہے۔ چلیں کوئی نہیں عدالت عظمیٰ نے اس کیس سے اپنی جان تو چھڑا لی لیکن اس برائی کے خلاف جدو جہد نہیں رکنے والی چاہے عدلیہ کچھ نہ کرے اور بے شک کوئی کتنا طاقت ور کیوں نہ ہو جائے کیوں کہ اس کا تعلق ہماری نسلوں کے مستقبل اور ہماری آخرت سے ہے۔

تازہ ترین