• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ حکومت جاتے جاتے28اپریل کو ا پنا چھٹا بجٹ پیش کررہی ہے، جس کی اونر شپ کا مسئلہ 30مئی کے بعد قائم ہونے والی نگراں حکومت اور پھر انتخابات کے بعد بننے والی نئی حکومت کے سامنے آئے گا،کہ وہ نواز شریف حکومت کے بجٹ کو کتنا اور کیسے قبول کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ اس لئے پیدا ہورہا ہے کہ پاکستان میں شاید اپریل کے مہینے میں اگلے مالی سال کا بجٹ پیش کرنے کا یہ پہلا موقعہ ہے، یہ مہینہ تو بھارت میں بجٹ پیش کرنے کا ہوتا ہے۔ حکومت کا چھٹا بجٹ اپنے دور میں پیش کرنے کا عندیہ پچھلے سال ماہ رمضان میں جنگ گروپ کی پری بجٹ کا نفرنس کے بعد اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے افطاری ٹیبل پردیا تھا ۔ مجھے اور ہمارے سرمد علی صاحب کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ ان شاء اللہ ہم اپنے دور میں چھٹا بجٹ بھی پیش کریں گے۔ بشرطیکہ اللہ پاک کو منظور ہو، اس وقت کی ڈار صاحب کی کہی بات اب پوری ہونے جارہی ہے جس کے لئے نئے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ان کی ہزاروں خواہشوں میں سے ایک خواہش یہ بھی تھی کہ وہ پہلے کسی طرح مشیر خزانہ بن جا ئیں اور پھر مسلم لیگ (ن) حکومت کے موجودہ دور کا آخری بجٹ پیش کرنے کا موقع بھی انہیں ملے۔ اب بندہ ان سے پوچھے وہ یہ بجٹ کس کے لئے پیش کررہے ہیں، کیا انہیں یقین ہے کہ رواں سال کی آخری سہ ماہی میں ایک بار پھر مسلم لیگ(ن) اقتدار میں آجائے گی، جس کی سیاسی پوزیشن دن بدن ا سٹاک مارکیٹ میں گراوٹ کے پس منظر میں بتدریج کم ہوتی نظر آرہی ہے۔ باقی آگے کیا ہونا ہے، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ 2019کس کے لئے آرہا ہے، 2018تو جیسے تیسے گزر ہی جائے گا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت 28اپریل کو کیوں بجٹ پیش کرنے جارہی ہے جس کےبارےمیں کچھ اقتصادی اور عوامی حلقوں میں کہا جارہا ہے کہ یہپری پول ریگنگبھی ہوسکتی ہے جس میں عوام کا دل خوش کرنے کے لئے کچھ ایسے اعلانات کئے جاسکتے ہیں جنہیں پہلے مرحلے میں نگراں حکومت اور پھر نئی حکومت کے لئے پورا کرنا مشکل ہوجائےگا۔ اس لئے کہ ایسے بجٹ بیوروکریسی کے گرو تیار کرتے ہیں، جن کے اندر عوامی مسائل کے حل کے حوالے سے کوئی واضح یا زیادہ اچھے جذبات نہیں ہوتے حالانکہ ریٹائرمنٹ کے بعد سب سے زیادہ مہنگامی اور معاشی ناانصافی کا رونا بھی سب سے زیادہ روتے ہیں۔ اس حوالے سے حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسا بجٹ پیش کرے، جس میں ملک میں تعلیم، صحت، روٹی، کپڑا اور مکان جیسی ضروریات پورے کرنے کے عملی اقدامات ہوں صرف نعرے بازی پر زور نہ ہو۔
دوسری ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اسٹیک ہورلڈرز کو اعتماد میں لے کر نیا بجٹ سیاسی نہیں، سماجی ضروریات کے حوالے سے تیار ہونا چاہئے، اس لئے کہ اس وقت معاشی ترقی کے حکومتی دعوے ایک طرف، عوامی سطح پر اس کے مخالف رائے بڑھتی جارہی ہے۔
اب تو کئی اقتصادی ماہرین اور اداروں نے معاشی حالات کے حوالے سے خطرے کی گھنٹیاں بجادی ہیں، مگر حکومتی سطح پر چونکہ نفسا نفسی اور افراتفری چل رہی ہےاس لئے ان خدشات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جارہی ہے جبکہ ان ایشوز کو ہر صورت میں مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے ،نیا بجٹ اگر عوام دوست اور کسان دوست نہیں ہوتا تو پھر کیا فائدہ، سوائے جمع تفریق کے اعلانات کے بہتر یہی تھا کہ یہ کام نگراں حکومت پر چھوڑ دیا جاتا لیکن اس صورت میں حکومت کے ہاتھ سے دعوئوں کی چابی نکل جائے گی اور نگراں حکومت بجٹ کے پہلے حصہ میں حکومت کی کارکردگی کے بجائے کچھ اور حقائق سامنے لے آتی جس سے مسلم لیگ(ن) کے لئے الیکشن کے دنوں میں فوائد کے بجائے سیاسی نقصانات کے خطرات بڑھ جاتے۔ بہرحال قوم کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے کہ یہ بجٹ رسمی بجٹ ہوگا ،اصل بجٹ جو بھی نئی حکومت عام انتخابات کے بعد پیش کریگی اس کی شکل کیا ہوگی۔ اس بارے میں پاکستان کے نظام چلانے والے کچھ بھی نام دے سکتے ہیں جو شاید نظرثانی شدہ بجٹ یا ترمیم شدہ بجٹ بھی ہوسکتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین